وطنِ عزیز کی تاریخ میں سیاست کو لایعنی مقدمات میں اُلجھا کر ریاست کے نام نہاد منیجرز اپنی باریاں بدلتے رہے۔ دائرے کے اس منحوس سفر نے ہمیں منزلِ مراد سے عشروں‘ کوسوں دور کر دیا۔ پہلے منیجر کی بات کریں تو اس نے بنگال کے گورنر کی حیثیت سے خود کو ''گورنرجنرل‘‘ لکھنا شروع کیا تھا۔ وہ اپنے حلقے میں کہتا تھا کہ پہلے گورنر جنرل مسٹر جناح تھے‘ دوسرا میں ہوں۔ اس کا اقتدار پہلے بنگال میں‘ پھر پورے پاکستان میں نصف عشرے سے زیادہ چلتا رہا۔ دوسری باری نے ساڑھے 10سال لے لیے۔ تیسرا آمر 25مارچ 1969ء میں پچھلے دروازے سے آکر صدرِ مملکت کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پھر 20دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان توڑنے کے چار دن بعد اسے اقتدار کے سنگھاسن سے دھکا مار کر اتارا گیا۔ چوتھا ساڑھے 11سال دستوری ملک کو مسلسل سرزمینِ بے آئین بناتا رہا۔ اس نے اسلامی جمہوریہ کے نام پر مہران میں لسانی جمہوریہ کی پرورش کی اور مغربی سرحدی علاقوں میں فرقہ واریت کو پروموٹ کیا۔ پانچواں ساڑھے نو سال تک ساڑھے گیارہ سال والے کی اقتداری اسلامائزیشن کی ریورس انجینئرنگ میں مشغول رہا۔ آئین سبوتاژ کرنیوالے اس سپیل کی انتہائی کربناک کہانی خود فروشی اور بے ضمیری کی ہے۔ جیسے تیسے صدرِ پاکستان منتخب ہونیوالے ایک سابق سیاسی جج نے جبراً بے دخلی تک آمرِ مطلق کی تابعدارانہ نوکری جاری رکھی۔ اسی سیاہ دور میں ملا ملٹری الائنس کے ووٹوں سے باوردی جرنیل مشرف بہ عہدۂ صدارتِ مملکتِ خداداد ہوا تھا۔
تاریخِ آمریت کی بے شمار سزائیں اور صدائیں اندرونِ ملک اور سات سمندر پار ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔ ان میں عافیہ صدیقی کی سزا بھی شامل ہے۔ جسے پاکستان سے اغوا کرکے امریکہ کے مقبوضہ بگرام ائیر بیس کے ٹارچر سیل میں رکھا گیا‘ جہاں سے ایک ٹرانسپورٹ طیارے کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کو اسحاق ڈار کے بقول Due Process کے تحت امریکہ لے جا کر سزا دینے کا ایکشن کیا گیا۔ ٹرانس اٹلانٹک تِھنک ٹینک کی امریکہ میں بیٹھک کے دوران اسحاق ڈار نے جس ڈیو پراسس کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں پاکستان میں رائج سب قوانین کی فوجداری ماںCr.PCمجریہ سال 1898ء میں دفعہ 83‘ 84‘ 85‘ 86اور 86-Aڈیو پراسس کا تفصیلی پراسس مہیا کرتے ہیں‘ جسکے مطابق اگر کسی ملزم پر فوجداری تہمت لگ جائے اور اسکی گرفتاری یا کسی عدالت میں پروڈکشن مطلوب ہو تو درجہ ذیل قانونی مرحلے پورے کرنے سٹیٹ پر لازم ہوتے ہیں۔
ملزم کی حوالگی کیلئے فوجداری مقدمے میں ڈیو پراسس کا پہلا مرحلہ: اس مرحلے کے مطابق ملزم کے رہائشی ضلع کی حدود کے باہر سے آنے والے وارنٹ کی روشنی میں ملزم کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر) یا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پھر متعلقہ مجسٹریٹ دیکھے گا کہ ملزم قابلِ ضمانت جرم میں مطلوب ہے یا ناقابلِ ضمانت جرم میں۔ ملزم کے عدالت میں لائے جانے سے پہلے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 76کے تحت پولیس والا قابلِ ضمانت جرم کے ملزم سے حاضری یقینی بنانے کا سکیورٹی بانڈ لے کر ملزم کو فوری رہا کرنے کا پابند ہے۔ ڈیو پراسس کے تصور پر پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اس حوالے سے درج ذیل قانونی نکتے پر ہمیشہ سے متفق چلی آتی ہیں؛ This Provision of section 76 Cr.PC is mandatory۔
ملزم کی حوالگی کیلئے فوجداری مقدمے میں ڈیو پراسس کا دوسرا مرحلہ: کسی فوجداری چارج‘ وارنٹ یا مقدمے میں ملزم کی حوالگی سے پہلے متعلقہ مجسٹریٹ ٹرائل شروع کرے گا۔ سیکشن 86-Aکی زبان میں ملزم کے خلاف حوالگی ثابت کرنے کیلئے مجسٹریٹ جرم سے متعلقہ پروڈکشن ایوی ڈینس کا حکم بھی جاری کرے گا۔ ایسی صورت میں آئین کے آرٹیکل 10-Aکے بنیادی حقوق کے مطابق دو عدد سہولتیں ملزم کو اسی علاقے میں دی جائیں گے جہاں سے ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی۔
بنیادی انسانی حقوق کے باب میں 1973ء کا دستور ملزم کو جو پہلی سہولت دیتا ہے وہ ہے گرفتاری کے سارے قانونی تقاضے پورے کرنا۔ یعنی مجسٹریٹ کے پاس ملزم کے خلاف قابلِ ادخالِ شہادت گواہ اور دستاویزات پیش کرکے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ دوسرے نمبر پر ملزم کو فوجداری چارج کے حوالے سے فیئر ٹرائل دیا جائے گا۔ ایسا فیئر ٹرائل جس میں کوئی اندرونی یا بیرونی دباؤ نہ ہو۔ اس بنیادی آئینی حق پر عملدرآمد کیلئے علیحدہ سے پاکستان میں فیئر ٹرائل کا ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی موجود ہے۔ کیا اسحاق ڈار قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ عافیہ صدیقی کی گرفتاری کیلئے پاکستان کے قانون کے مطابق کس عدالت نے فیئر ٹرائل کیا اور کس ڈپٹی کمشنر نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کے بعد اور حوالگی سے پہلے ڈیو پراسس دیا تھا؟ دراصل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری ڈیو پراسس والی نہیں تھی بلکہ بے شرمی سے ہونیوالی اغواکاری تھی۔ ایسی اغوا کاریوں کا تحریری اعتراف اُس وقت کے آمرِ مطلق نے لکھ کر اپنی کتاب In the line of fire میں بھی کر رکھا ہے۔ ہاں البتہ ملکی تاریخ میں ڈیو پراسس کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے لندن کی قاضی فیملی کا مشہورِ زمانہ رپورٹڈ کیس موجو د ہے۔ اس مقدمے میں پاکستانی مجسٹریٹ کے سامنے اپنی آزاد مرضی اور رضا سے جیل سے لندن جانے کیلئے نواز شریف کے خلاف انہی اسحاق ڈار نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت اعترافی بیان ریکارڈ کروا رکھا ہے۔ جو دیکھنا چاہے اسکی اطلاع کیلئے یہ عدالتی بیان انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
دوسری جانب 1953ء سے شروع ہونیوالے سیاسی مقدمات کے آسیب 2025ء میں بھی قیدی نمبر 804اور پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں کے خلاف پورے زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔ اس دوران صرف ایک فرق پڑ سکا ہے۔ پہلے قومی لیڈروں پہ ایک یا دو مقدمات بنا کر گزارا کر لیا جاتا تھا‘ ان کے ٹرائل عام عدالتوں میں کھل عام منعقد ہوا کرتے تھے۔ تقسیم ہندوستان سے تھوڑا پہلے خالق دینہ ہال کراچی میں اس وقت کی بمبئی پریزیڈنسی کی عدالت میں ابو الکلام آزاد کا اوپن ٹرائل اسکی ایک مثال ہے۔ غیرملکی فرنگی نے آزادی کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ‘ چندر شیکھر اور آزاد کے ایک سے زیادہ ٹرائل بھی بار بار اوپن عدالت میں جاری رکھے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو سے شروع کرکے راجہ پرویز اشرف تک نصف درجن سے زائد سابق وزرا ء اعظم‘ صدور کے ٹرائل بھی اوپن ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کا بھی پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ‘ پھر وفاقی شرعی عدالت میں اوپن ٹرائل ہوا۔ آج کے ریاستی منیجرز قیدی نمبر 804پہ مقدمات کی ڈبل سینچری گھڑ چکے ہیں۔ عمران خان سے پہلے پشتون قوم پرست لیڈر ولی خان کا ٹرائل بلوچستان کی بدنامِ زمانہ مچھ جیل کے اندر کرایا گیا۔ آج ان سے بھی بے بنیاد الزامات لگا کر عمران خان کے اَن گنت ٹرائل جیل کی کال کوٹھڑی میں چلائے جا رہے ہیں۔ جہاں کسی وی لاگر‘ بلاگر اور آزاد میڈیا تو کیا کسی بار ایسوسی ایشن کے وکلا کو بھی ٹرائل کی کارروائی میں موجود رہنے کی آزادی حاصل نہیں۔ عمران خان کیلئے تہہ در تہہ سزائیں تجویزکی گئی ہیں۔ جن میں انصاف تک رسائی‘ وکلا تک رسائی‘ بیٹوں تک رسائی‘ ڈاکٹر تک رسائی سمیت انکار شامل ہے۔ سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کو اپنے نامزد پارٹی عہدیداروں تک بھی رسائی نہیں دی جا رہی ‘ جو اس سے پہلے ہر سیاسی لیڈر کو حاصل رہی۔ اس کے باوجود وہ ہر روز اندر بیٹھ کر فاشزم کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ صاحبِ طرز شاعر اور نابغہ لکھاری خلیل الرحمن قمر نے یوں سچ کا نقشہ کھینچا:
دلوں کو درد کرنے میں چھہتر سال لگتے ہیں؍ یہاں بس کر اُجڑنے میں چھہتر سال لگتے ہیں ؍ چھہتر سال پہلے بھی غلامی سی غلامی تھی؍ وہی زندان سہنے میں چھہتر سال لگتے ہیں