میں نے آج کیلئے آدھا کالم لکھ لیا تھا لیکن پھر اسے قلم زد کرنا پڑگیا۔ اگرچہ اس کا موضوع بہت اہم تھا‘ یہی کہ مہنگی بجلی‘ ناقابلِ رسائی تیل‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ چینی کے بعد کھانا پکانے والے تیل کے سیکنڈل کے کچھ کھرے کسی نے بھجوائے تھے۔ اتنے میں مجھے رفح کی بدو بچیوں اور غزہ کے قحط زدہ بہادر بچوں کی دلسوز وڈیو موصول ہوئی۔ رفح مصر کا کوسٹل بارڈر ہے جہاں چھوٹی چھوٹی مصری بچیاں اپنی ماؤں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔ ایک بچی کہتی ہے کہ ماں مصر کے سارے ٹی وی دکھا رہے ہیں کہ غزہ میں مسلمان بچے بھوک سے بلک بلک کر مر رہے ہیں‘ لیکن سینا کے غزہ والی رفح کراسنگ اور دوسرے راستے بند پڑے ہوئے ہیں۔ ماں! آپ ان بچوں کیلئے کچھ کرتی کیوں نہیں؟ پھر بچی نے ماں سے سوال کیا کہ کوئی بچہ کھانے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ ساتھ ہی کہا کہ ہمارے جہاز جو شہروں پر گَڑگَڑاتے ہوئے بڑے دبدبے سے اڑتے ہیں‘ وہ غزہ کے بھوکے بچوں پر عدس(دال) اور مویا(پانی) کی بوتلیں کیوں گرانے نہیں جاتے؟ ساری مائیں دھاڑیں مار مار کر پھٹ پڑیں۔ پھر یہ بچیاں پانی کی خالی بوتلیں نکال کر ان میں کلو بھر کے قریب دالیں ڈالتی ہیں اور عربوں سے مخاطب ہو کر کہتی کہ غزہ رفح سے صرف 10کلو میٹر دور ہے‘ آؤ ہم سب مل کر غزہ کے بچوں کو کھانا بھیجیں‘ وہ وہاں ضرور پہنچ جائے گا۔ غزہ کا منظر دکھائی دیتا ہے جہاں غزہ کے بھوک سے نڈھال بچے اور نوجوان دال والی آدھے سے زیادہ خالی ان تیرتی ہوئی بوتلوں کو سمندر سے نکال رہے ہیں۔ ان کی مائیں اور بچے انتہائی خوشی کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئے یہ دال پکانے کیلئے دیگچیوں میںمنتقل کرتے ہیں۔ مجھے یہ وڈیو میری چھوٹی صاحبزادی ڈاکٹر عروج نے بھجوائی۔ وڈیو کیا ہے ایک طمانچہ سا طمانچہ ہے‘ کوئی المیہ سا المیہ ہے‘ اسے دیکھ کر بے بسی‘ بے ہمتی اور غزہ کا تماشا دیکھنے والی امہ کی لاچارگی اور پسماندگی کا احساس جاگتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں غزہ سرے سے کوئی ترجیحی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ کہیں طوطا مینا کی کہانیاں لکھی جارہی ہیں اور کہیں پہ خود پرستی کی داستانیں شائع ہو رہی ہیں۔ کسی جگہ یہ ٹویٹ چل رہا ہے کہ شہر اقتدار میں گدھے کا جو گوشت پکڑا گیا وہ عمران خان کے دور کا ہے۔ ایسی ہی بے حسی‘ بے ہمتی اور بے حمیتی کے ماحول میں 1930ء کے عشرے میں قحطِ بنگال برپا ہوا تھا‘ جس پر ریاست کے بڑوں اور منیجرز کو مخاطب کر کے ساحر لدھیانوی نے ہمارے دل کے پھپھولے سینے کے داغ بنا کر یوں رقم کر دیے:
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوتِ تخلیق کے خداوندو
ملوں کے منتظمو‘ سلطنت کے فرزندو
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں دنیا کے سب سے زیادہ لاؤڈ سپیکر بولتے ہیں۔ سینکڑوں ریڈیو اور دو اڑھائی سو ٹی وی چینل خبریں‘ حالاتِ حاضرہ اور منہ سے WWFجیسی ریسلنگ کرنے کے ماہر ہر وقت نظر آتے ہیں‘ مگر غزہ ان کیلئے حرفِ ممنوع ہے۔ غزہ کا جھنڈا لے کر باہر سڑک پر نکلنا قابلِ تعزیر جرم۔ اس جرم کی پاداش میں پہلی سزا لاٹھی‘ دوسری پرچہ‘ تیسری ہتھکڑی‘ چوتھی دھکے اور پھر برسرِعام کیمروں کے سامنے گھسیٹے جانا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں اپنی مشکلات کا کبھی پوسٹر نہیں بنایا لیکن ہماری ساری مشکلات ایک طرف جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں جو تفصیلات اقوامِ متحدہ سمیت مختلف عالمی اداروں کے ابھی تک ریکارڈ پر آئی ہیں‘ ان پہ بے حس نہیں انتہائی بے حس شخص ہی منہ کی تالا بندی برقرار رکھ سکتا ہے۔
غزہ کی کربلائے ثانی کی پہلی شہادت: یونائیٹڈ نیشن ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی رفیوجیز کے مطابق ابھی تک غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں پچاس ہزار سے کہیں زیادہ معصوم بچے مارے جا چکے‘ شدید زخمی ہوئے‘ اعضا سے محروم یا غائب ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد غزہ کی پٹی میں اکتوبر 2023ء سے شروع کرکے ابھی تک مرنے والے اور شہید بچوں کی اصل تعداد سے کہیں کم ہے۔ اس لیے کہ ہزاروں گھروں کا کروڑوں ٹن ملبہ ایسا ہے جس کے نیچے دبے ہوئے کسی بچے کا جسدِ خاکی ڈھونڈنا فی الحال کسی طور سے ممکن نہیں۔ معلوم تاریخ میں دوسرے کسی تنازع اور جنگ میں اتنے تھوڑے عرصے میں اتنے زیادہ بچوں کی شہادتیں تاریخ کے ریکارڈ میں موجود نہیں۔
غزہ کی کربلائے ثانی کی دوسری شہادت: اقوام متحدہ کے چار اداروں سمیت تقریباً تمام بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے چار لاکھ 70 ہزار لوگ بھوک کی آخری سٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ غزہ کی کل آبادی کا 22 فیصد حصہ ہے۔ اب اُردن اور متحدہ عرب امارات نے چند گھنٹے پہلے ہوائی جہازوں سے برائے نام سہی‘ غزہ پر امدادی سامان گرایا ہے۔
غزہ کی کربلائے ثانی کی تیسری شہادت: غزہ کے 17 لاکھ سویلین‘ خواتین‘ بچے‘ جوان‘ سینئر سٹیزن کھلے آسمان کے نیچے بغیر کسی انسانی سہولت کے شدید ترین موسم‘ سمندی ہوائیں‘ جلا دینے والی گرمی اور قدرتی آفات سہنے پر مجبور ہیں۔ یہ غزہ کی کل آبادی کا 77 فیصد بنتا ہے۔
غزہ کی کربلائے ثانی کی چوتھی شہادت: اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی مصدقہ رپورٹ شدہ حقائق بتاتے ہیں کہ غزہ کی 90 فیصد آبادی رہائش گاہوں سے محروم ہو چکی ہے۔ ان بے آسرا بہادروں کی اکثریت چھوٹے موٹے عارضی شیلٹرز اور انسانی زندگی گزارنے کی چھوٹی چھوٹی سہولتوں سے بھی محروم ہوکر سر اٹھا کر زندہ ہے۔
غزہ کی کربلائے ثانی کی پانچویں شہادت: غزہ میں ہیلتھ کرائسز کی آخری انتہا ہے کیونکہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے غزہ کے ہسپتالوں سے شروع کر کے چھوٹی چھوٹی میڈیکل سہولتوں اور میڈیکل سپلائز تک آتش و آہن کی نذر ہو گئے۔ غذائی قلت اگلا بڑا انسانی المیہ ہے۔ آٹا‘ چاول‘ چینی اور پروٹین غزہ میں سرے سے موجود نہیں۔ تمام عالمی اداروں کے مطابق غزہ کی ساری آبادی تین وجوہات سے شدید خطرے میں ہے۔ پہلی Water Security‘ دوسریShelter and Sanitation اور تیسری مناسب Response Efforts۔ ایسے میں رفح کی بدو بچیوں نے غزہ کے بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے ننھی منھی مدد کا جو راستہ چنا اس سے عالمِ اسلام کے شیوخ و شاہ‘ امرا و صدور اور نیشن سٹیٹ منیجرز کو نجانے کب شرم آئے گی؟؟ یا للعجب۔