بھارت ہمارا پڑوسی ملک اور یومِ آزادی کے اعتبار سے ہم سے 24 گھنٹے چھوٹا ہے‘ جہاں پہ ہمیشہ فالس فلیگ آپریشن اور دہشت گردی کا مکس اچار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک میدان میں ہم سے کہیں بہت دور‘ بہت پیچھے ہے۔ اب چلیے دوسرے پڑوسی برادر ملک افغانستان کی طرف۔ جہاں پہ عملی طور پر 31+4 سال سے وہ ریکارڈ نہ بنایا جا سکا جو ہم نے رجیم چینج کے بعد صرف ساڑھے تین سال میں بنا کر دکھا دیا۔ تیسرے پڑوسی برادر مسلم ملک ایران کی بات کریں تو وہ بھی اس میدان میں ہم سے کوسوں پیچھے رہ گیا۔ اگرچہ ایران میں فرسٹ رینکنگ فوجی قیادت‘ جو ہمارے جیسے ملکوں کے لیے حیران کن طور پر فلیٹس میں رہائش پذیر تھی اور ایران کے ہائی رینکنگ‘ فرسٹ کلاس نیوکلیئر اور بیلسٹک سائنسدان بھی عام لوگوں کے درمیان ہی رہ رہے تھے۔ ان تینوں میدانوں کے لیڈرز کو جارح اسرائیل نے اپنے پہلے حملے میں شہید کر دیا‘ اس کے باوجود نہ انڈیا میں آج تک کبھی 300 سیاسی کارکنوں‘ ارکانِ پارلیمنٹ‘ لیڈی پولیٹکل ایکٹوسٹ‘ بچوں‘ بزرگوں سمیت دیہاڑی دار مزدورں اور طالب علموں کو دہشت گرد کہہ کر TADA کے نیچے 10‘ 10سال قید کی سزا سنائی گئی نہ ہی افغانستان میں‘ جہاں باقی دنیا کے مقابلے میں ایک متبادل نظامِ عدل وانصاف ہے۔ انگلش لاء یا اینگلو سیکسن قانون افغانستان میں نہیں چلتا۔ وہاں بھی ایک قسط میں نظام کے خلاف اتنے لوگوں کو لمبی قید دے کر پابندِ سلاسل کرنے کی کوئی رپورٹڈ مثال نہیں ملتی۔ ایران کے حوالے سے ابھی کل کی بات ہے‘ جب ایران کے اندر سے اسرائیلی پے لوڈ والے جاسوسوں نے اُنہیں تاریخ کا شدید ترین نقصان پہنچایا تھا۔ اس بابت بھی ایران نے ٹارگٹڈ آپریشن کیا۔ اصلی وحشت گر جاسوس ماڈرن ڈیوائسز کے ذریعے گرفتار کر لیے مگر اس موقع پر بھی آنکھیں بند کر کے سزائوں کا میلہ نہیں سجایا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف جو مقدمات گھڑے گئے ہیں تاریخ کے تناظر میں اُن کی کوئی مثال جمہوری ممالک میں موجود نہیں۔ ہماری پچھلی 75 سالہ تاریخ میں بھی مشرقی پاکستان اور مارشل لاء آپریشنز کے علاوہ ایسی مثال شاذ ہی ملے‘ مگر پچھلے ساڑھے تین سال کی تاریخ ان مثالوں سے اُوور لوڈ ہو چکی ہے۔ کچھ ہفتے پہلے پی ٹی آئی نے 5 اگست 2023ء کے روز عمران خان کی گرفتاری کو یومِ احتجاج کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ تب سے اب تک ریاستی طاقت سے پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون دن رات چل رہا ہے۔ اب سے 24 گھنٹے بعد پورے ملک میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پُرامن احتجاج ہو گا‘ جس میں عوامی جوش وجذبہ آپ کو پشاور سے کراچی تک نظر آئے گا۔ جن خبرکاروں اور تجزیہ نگاروں میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پیج دیکھنے کا حوصلہ ہے وہ ابھی کھول کر دیکھیں۔ سینٹرل پنجاب سمیت پورے ملک میں 5 اگست کے احتجاج کے لیے‘ بغیر کسی لیڈر کے لوگ 'ریلیز عمران خان‘ کے بینرز اور کپتان کی تصویریں اُٹھائے پبلک موبلائز کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری جانب کچھ سٹے باز کہتے ہیں کہ پبلک نے باہر نہیں نکلنا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں کہا گیا۔ ان حضرات کو دو ڈیوٹیاں ملتی ہیں۔ ایک لوگوں کے باہر نہ نکلنے والے طوطا فال نکالنے کی ڈیوٹی ہے۔ دوسری ڈیوٹی باہر نکلنے والی پبلک کو ایڈوانس دھمکیاں دینے کی۔ اتوار کی شام ایک نجی ٹی وی نے مجھ سے ایسا ہی سوال پوچھا۔ میں نے کہا: آپ دفعہ 144 اُٹھوانے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ اگر لوگ باہر نہیں نکلتے تو رُول آف لاء کے بجائے ظلم کے ضابطے کیوں آزمائے جاتے ہیں؟
بات ہو رہی تھی 5 اگست سے پہلے اسلام آباد‘ سرگودھا‘ لاہور اور فیصل آباد کی ATC کورٹس کی‘ جنہوں نے پی ٹی آئی کے ذمہ داروں اور رضا کاروں کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر لمبی سزائیں سنا دیں۔ بس ایک جملہ کہہ کر ان فیصلہ شدہ مقدمات پر فیئر کومنٹ کی طرف آئوں گا۔ 300 سزا یافتہ سیاسی کارکنوں میں سے کسی ایک نے بھی نہ معافی مانگی ہے اور نہ ہی رونا دھونا کیا۔ پی ٹی آئی کے ان 300 ارکان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اُن کے پیچھے 2024ء کے الیکشن میں اُنہیں ووٹ دینے والے تین کروڑ لوگ کھڑے ہیں۔ قوم کے ان تین کروڑ فرزندوں‘ بزرگوں اور بیٹیوں کا نہ تو حوصلہ ٹوٹا اور نہ ہی ان ووٹرز کے ہاتھ سے ریلیز عمران خان کا دامن چھوٹا۔ ان لطیفہ نما مقدمات کی بنیاد تین تاریخیں ہیں۔ تینوں ماہِ مئی سال 2023ء کی۔ ان تاریخوں کے تین ہی گواہ ہیں؛ تینوں پنجاب پولیس کے باوردی ملازم۔ پنجاب پولیس کے یہ تینوں ملازم لاہور کے تھانوں میں ان تینوں تاریخوں پر حاضر‘ ڈیوٹی کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ پراسیکیوشن کا کہنا ہے: یہ تینوں گواہ سچے ہیں۔ آپ اپنے علاقے‘ اپنی عزیز داری یا جان پہچان کے کسی وکیل یا جج صاحب سے پوچھ لیں۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی تمام عدالتیں صرف تنہا پولیس کی گواہی کو سچ نہیں مانتیں۔ نہ ہی صرف پولیس کی گواہی پہ الزام علیہ کو سزا دیتی ہیں۔ ہمارا عدالتی قانون کہتا ہے: جب تک آزاد شہادت پولیس کے بیان کو عدالت میں آ کر سچا ثابت نہ کرے‘ تب تک محض پولیس کے گواہ شک کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ ہر شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ مدعی‘ مستغیث یا ملزم کا ٹرائل کرانے والی سٹیٹ کو ہرگز نہیں۔
استغاثہ کے مطابق پہلی سازش۔ لاہور کے ایک ASI‘ جن کا نام اور تھانہ میں جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا‘ اُس نے گواہی دی کہ وہ 4 مئی 2023ء کو چکری ریسٹ ایریا میں اُس اجلاس میں شریک تھا‘ جو بند کمرے میں ہوا‘ جہاں ڈیڑھ درجن لیڈر موجود تھے جنہوں نے 9 مئی کو گڑبڑکرنے کی سازش کی۔ یہ گواہ تھانہ میں 24/7 ایٹ کال موجود ہوتا ہے لیکن اس نے 4‘ 5‘ 6‘ 7‘ 8 یا 9 مئی کو نہ کسی تھانے میں رپورٹ درج کرائی نہ رپٹ روزنامچہ میں اس سازش کو لکھا۔
استغاثہ کے مطابق دوسری سازش۔ استغاثہ کا دوسرا گواہ لاہور کے ایک تھانے کا ہیڈ کانسٹیبل ہے۔ پنجاب پولیس کے اس ملازم کا نام اور تھانہ بھی قصداً نہیں لکھا جا رہا۔ یہ مشہورِ زمانہ گواہ 7 مئی 2023ء کو عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے چند مرکزی لیڈروں کی ڈرائنگ روم والی 'سازشی میٹنگ‘ میز کے نیچے یا صوفے کے پیچھے بیٹھ کر سنتا ہے۔ یہ گواہ واپس تھانے گیا‘ پہلے گواہ کی طرح نہ کسی افسرکو بتایا نہ پرچہ درج کروایا تاکہ آنے والی گڑبڑ کر روکا جا سکے۔
استغاثہ کے مطابق تیسری سازش۔ استغاثہ کا تیسرا گواہ لاہور کے تھانے میں تعینات پنجاب پولیس کا فُٹ کانسٹیبل ہے۔ اس نے 9 مئی کو پہلے پہر زمان پارک میں عمران خان کے کمرے کے اندر جا کر سازش سنی‘ پھر دوسرے دو گواہوں کی طرح کسی اعلیٰ افسر کو رپورٹ نہیں دی۔ یہ تینوں گواہ 105 دن تک مسلسل خاموش رہے۔ جسے شک ہو وہ انٹرنیٹ سے فیصل آباد ATC کا فیصلہ نکال کر خود پڑھ لے۔
کہنا یہ تھا‘ 9 مئی 2023ء کو صبح عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ سے اُٹھائے گئے‘ 10مئی کو اُنہیں سپریم کورٹ نے رہا کروایا۔
کون ہے فریاد رس‘ مانگیں گے کس سے خوں بہا
زیر پائے نخوتِ آدم شکاراں تھا یہ شہر
طوقِ زریں گردنِ خر میں نظر آتا ہے آج
کل تلک جولانگہ چابک سواراں تھا یہ شہر