وطنِ عزیز میں معافیاں بھی نو رنگی ٹوپیاں پہن کر گھوم رہی ہیں۔ انگریزی میں معافیاں اپنے آپ کو Apologiesکہلواتی ہیں۔ اُردو میں معافیاں ناک رگڑنے‘ منت ترلے کرنے‘ کردہ یا ناکردہ خطاؤں پر نادم ہونے‘ جھک جانے‘ کسی کے مؤقف کے پٹ جانے اور مقابلے سے بھاگ جانے سمیت زبان و بیان کے مزید کئی معنوں میں استعمال ہوتی آرہی ہیں۔ وطنِ عزیہ کے جیل مینوئل‘ پرِیزن رولز‘ پی پی سی اور ملک میں رائج کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دنیا میں Remissions کو معافیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح سے معافیاں قومی احتساب آرڈیننس کے نیچے آجائیں تو کبھی پلی بارگین بن جاتی ہیں‘ کبھی والنٹیری ریٹرن۔ 1898ء کے ضابطہ فوجداری کے تحت معافیاں دفعہ 337میں چلی جائیں تو اس اَن ہولی ملاپ سے سرکار کے حمایت و عنایت یافتہ جھوٹے وعدہ معاف گواہ جنم لیتے ہیں۔ جی ہاں! سو فیصد جھوٹے وعدہ معاف گواہ۔ شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو سے شروع کر کے آج قیدی نمبر 804 تک وعدہ معاف گواہ خالص جھوٹ پر پلتے آئے ہیں۔ معافیوں کی ایک اور دنیا بھی بڑی مشہور ہے جسے جرائم کی دنیا میں جیب کتروں کی دنیا کہتے ہیں۔ جیب تراش جیب کاٹتے ہوئے موقع پر پکڑے جانے کے بعد جان چھڑانے کا رُول نمبر ایک معافیاں ہی استعمال کرتے ہیں۔ جیب کترا چھوٹا ہو یا بڑا‘ یا پھر بہت ہی بڑا‘ اس کے پکڑے جانے پر بظاہر شریف آدمی اور معززینِ علاقہ اسے چانٹے مارتے ہیں۔ پھر اسے مدعی فریق سے چھڑا کر زمین پر گراتے ہیں‘ دو چار لاتیں رسید کرتے ہیں۔ اس طرح وہ گرفتاری سے بھاگ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اپنی 78 سالہ تاریخ میں بڑے بڑے جیب تراش ہر دفعہ اسی دنیائے معافیاں سے فیض پاتے چلے آتے ہیں۔ ہماری پُرلطف اور جیب تراشوں کے لیے انتہائی ''لذیذ‘‘ تاریخ سے ایک بات بلاشبہ ثابت ہو چکی ہے‘ یہی کہ معافیاں لینے والے اور معافیاں دینے والے دونوں کا پیدائشی وطن پاکستان ہے‘ لیکن رہائشی اور افزائشی وطن مشرقِ وسطیٰ‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا ‘یورپ بشمول بلجیم‘ پرتگال وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہیں۔
جب ہماری قومی عمر 75 سال پہ پہنچی تو تاریخ وطن کے عجیب ترین تین ادوار دیکھنے کو ملے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ادوار ہیں پی ڈی ایم وَن‘ غیرآئینی اور غیرمعمولی نگران دور اور پی ڈی ایم ٹُو کی معافیوں کا دورِ ثالث۔ ان حالیہ تین ادوار میں معافیاں‘ پریس کانفرنسز اور خصوصی گفتگوئیں یا ایکسکلوسو انٹرویوز بری طرح گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ انہی تینوں ادوار میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ1997ء‘ پیکا ایکٹ‘ ایف آئی اے ایکٹ 1975ء‘ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ‘ آرمی ایکٹ‘ تعزیراتِ پاکستان سمیت 12‘ 13جرائم میں پہلے لوگ گرفتار ہوئے‘ پھر بتایا گیا کہ اصلی دہشت گرد وہ نہیں ہیں جنہیں آپ دہشت گرد سمجھتے ہیں‘ اصلی دہشت گرد تو اب ریاست کے ہتھے چڑھے ہیں۔ اسی دورِ جدید میں میڈیائی معافیاں شدید ترین جرائم والی ایف آئی آر سے فوری ریلیف پلس ریلیز ملنے کا ذریعہ بن کر سامنے آگئیں۔ نظامِ عدل و انصاف منہ دیکھتا رہ گیا۔ اسلام آباد‘ پشاور‘ بنوں‘ فیصل آباد‘ سرگودھا‘ میانوالی‘ گوجرانوالہ اور لاہور میں معافیاں ٹافیاں سمجھ کر بانٹی گئیں۔ ایک ہی ایف آئی آر میں ایک ہی طرح کے الزامات پر کچھ ضمیر کے قیدیوں کو دہشت گردی ایکٹ کے نیچے 10‘ 10سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ عین اسی ایف آئی آر میں نامزد ملزم‘ اسی الزام کے نیچے ضمیر کی تجارت پر راضی ہو کر پریس کانفرنس میں بیٹھے تو اس کا فوری رہائی والا اثر قانون و انصاف کی دنیا کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ ایسے بہت سے ملزم جو دہشت گردی کی عدالتوں کے سامنے ریاست کی طرف سے داخل کی گئی ایف آئی آر میں نامزد تھے‘ ان ملزموں کے نام جو پولیس رپورٹ زیر دفعہ 173ض ف میں تحریری طور پر جوڈیشل ریکارڈ پر بھی آگئے‘ انہی ملزموں کے خلاف کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دفعہ 161 کے تحت جن گواہوں کو سرکاری گواہ کے طور پر بلایا گیا‘ ان کے جوڈیشل بیانات میں ایسے سارے ملزموں کے نام‘ ولدیت‘ قوم اور رہائشی پتا جات شامل تھے‘ لیکن بھلا ہوکچھ ایسے ٹینکرز کا جن کی ٹونٹیوں کے نیچے بیٹھ کر ایسے ملزموں کے انٹرویو نے ان نامزد ملزموں کو بے گناہی کا ایسا اَشنان کروایا کہ ان پہ لگے سارے الزامات دودھوں دھل گئے۔
آج کا وکالت نامہ پاکستان کے 78ویں یو م آزادی کو شہرِ اقتدار میں قلم زد ہوا۔ یہیں گروہِ اقتدار کی ایک تقریب میں فلمی اداکاروںکی جوڑی نے کمال کی گفتگو کی۔ اداکارہ نے رات پونے 12بجے کہا: اس وقت ملک کے کسان لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں خوشی سے سرشار ناچ رہے ہیں۔ پچھلے روز ہونے والی تمام تقریبات بالکل ویسی ہی خوشخبریاں لے کر آئیں جیسی خوشی بی بی حاجن کے خط سے آیا کرتی تھی۔ یہ فوٹو سٹیٹ کا دور آنے سے پہلے کی بات ہے‘ جب بی بی حاجن کا خط محلے کی کوئی پارسا ہستی مسجد کے ارد گرد نیم خواندہ لوگوں میں بانٹتی۔ ایک کاغذ پر بی بی حاجن کا خواب درج ہوتا تھا۔ جس کا خلاصہ یہ کہ جو شخص اس خط کی 31 کاپیاں لکھ کر 31 لوگوں میں تقسیم کرے گا اسے جنت میں 31 منزلہ محل ملے گا۔ بی بی حاجن کے خواب دکھانے والے اب خط لکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ دورِ حاضر کسی اور کا لکھا ہوا سکرپٹ پڑھنے کا ہے۔ ایسا سکرپٹ جس میں ہر طرف شہد اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔
یومِ آزادی کی تقریبات‘ بل بورڈز اور اشتہار بازی میں بانیانِ پاکستان کی جگہ پاکستان کے نئے ''بلڈرز‘‘ کی بڑی بڑی تصویریں چھاپی گئیں۔ لاہور میں کسی بل بورڈ پر قائداعظم کی تصویر تھی نہ مادرِ ملت کی۔ اگر میری یاد میں تاریخ درست نہیں تو قارئین براہِ کرم اصلاح فرما دیں‘ 23مارچ کا دن خالصتاً سویلین سپرمیسی کا دن ہے۔ اس روز وکلا‘ علما‘ سیاستدانوں اور دانشمندوں نے قرار دادِ پاکستان منظور کی۔ 23مارچ کو بیلچوں سے مسلح خاکساروں کا اینگلو انڈین سرکار سے کوئی معرکہ نہیں ہوا۔ عین اسی طرح 14اگست بھی برصغیر کے عام مسلمانوں کی سپرمیسی کا عظیم دن ہے۔ اب اس دن سڑکوں پہ صرف باجا یا بِگل بجایا جا سکتا ہے۔ کوئی جلسہ نہیں کر سکتا‘ مذاکرہ برپا نہیں ہو سکتا‘ کوئی نعرہ نہیں لگا سکتا‘ نہ ہی آزادی چھیننے والی اشرافیہ پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ نصرت صدیقی نے 78 سال کو چند لائنوں میں بیان کرڈالا۔
خواہشیں نہیں مرتیں‘ خواہشیں دبانے سے
امن ہو نہیں سکتا‘ گولیاں چلانے سے
ایک ظلم کرتا ہے‘ ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے‘ کون سے گھرانے سے؟
چاند آسماں کا ہو یا زمین کا نصرتؔ
کون باز آتا ہے انگلیاں اٹھانے سے