مُنشی‘ مُشدی‘ مشقتی‘ ہاشیہ بردار پہلے بادشاہوں کے دربار میں پائے جاتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ نے بہت سی ریاستیں اور بادشاہتیں پامال کر ڈالیں۔ اسی عالمی جنگ میں سے کچھ نئی قسم کے شیوخ و شاہ‘ امیر اور خلیفہ بر آمد ہوئے۔ دربار کی جگہ وزیر امورِ پروپیگنڈا نے لے لی۔ اب اس فن کا اوجِ کمال یہ ہے کہ آپ ان ماہرین کو ''نُورا‘‘ تھما دیں۔ یہ کاریگر اسے عالم پناہ اور ظلِ الٰہی بنا چھوڑیں گے۔ وطنِ عزیز میں پہلا عالم پناہ جنرل اسکندر مرزا تھا‘ پھر چل سو چل‘ چھکا چھک‘ پھکا پھک۔ اب تو ان قلم گھسیٹیوں کی حالت چھک چھکی قومی ریل سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ ان میں کچھ ایسے بھی آئے جنہیں شاعرِ عوام حبیب جالب اور آغا عبدالکریم شورش کاشمیری نے کئی کئی بار دھوبی گھاٹ میں ڈالا۔ خوب دھویا‘ اچھے سے نچوڑا‘ کِلّی پر ٹانگ کر سکھایا اور پھر دوبارہ دھو ڈالا۔
آپ تھوڑی دیر کیلئے سماجی رویوں پہ نظر ڈال لیں۔ اس طرح کی چیزیں سب کے تجربے میں ضرور آئی ہوں گی جس کی ایک مثال ان دنوں بڑی عام ہو گئی ہے۔ خاص طور سے تباہ کن‘ انسان کش سیلابی ریلوں‘ بادو باراں کے طوفانوں اور کلاؤڈ برسٹ کی سیریزکے بعد۔ مفتی و ملا سے لے کر قاضی و درزی تک‘ ہر کوئی درخت لگانے کی تبلیغ کر رہا ہے۔ یہ تبلیغ بجا ہے۔ یہ تبلیغ برسات کے موسم میں مینڈکوں کی طرح ٹراتی ہوئی سرکاری بیانات سے جنم لیتی ہے۔ درختوں کی اہمیت پر تقاریر کرنے والوں سے کوئی پوچھے‘ بھائی صاحب! آپ نے زندگی میں کتنے پودے پالے ہیں اور اس برساتی سیزن میں خود کتنے پودے لگائے ہیں؟ جواب نفی میں ہو گا۔ اچھائی کے سارے بھاشن دوسروں کیلئے ہوتے ہیں۔ خالص دوسروں کیلئے‘ خود کو نکال کر۔ وہ لوگ جو Dale Carnegieکی کتابوں سے نقل مارکر دوسروں کو کامیاب زندگی گزارنے کے گُر سکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ وہ اپنے آپ میں ناکامی کی چلتی پھرتی نعشیں ہیں۔ ایک مغربی لطیفہ ہے: ایک مصنف نے شادی کی برائیوں اور اکیلے زندگی گزارنے یعنی تجرد کے فوائد بیان کرنے پر کتاب لکھی۔ پھر مصنف نے ناشر ڈھونڈا اور اسے کتاب شائع کرنے پر راضی کر لیا۔ ناشر نے کہا: موضوع بڑا انوکھا ہے‘ کتاب بیسٹ سیلر ہو جائے گی۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے اس کتاب کی رائلٹی والی آمدنی سے کرنا کیا ہے؟ مصنف نے بڑی سادگی سے یک سطری جواب دیا: شادی کرنی ہے۔
سفارت کاری کی دنیا میں سب سے اہم عہدہ مغرب میں ہیڈ آف مشن کہلاتا ہے۔ باقی جگہ ایمبیسیڈر۔ عرب اس عہدہ کو ''سعادۃ السفیر‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن سفیروں کی ایک قسم ایسی ہے جن کے پاس نہ کوئی سفارت خانہ ہوتا ہے‘ نہ کرسی‘ نہ میز‘ نہ قلم‘ نہ دوات اس عہدے کو ایمبیسیڈر ایٹ لارج کہا جاتا ہے۔ سمجھنے میں آسانی کیلئے آپ اسے سفیرِ بے مہار بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب سے فروختنی کی وبا علمی‘ ادبی و قلمی اور صحافتی دنیا میں در آئی‘ اس کے نتیجے میں مشیرِ بے مہار کی ایک پوری فصل تیار ہو گئی۔ ایسے بے مہاریے مفت کے مشورہ بر ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے دربار میں جگہ پانے کیلئے ایسے ہی بہت سے ایڈوائزر ایٹ لارج عمران خان اور پی ٹی آئی کو مشورہ دیتے دیتے عزتِ سادات کھو بیٹھے۔ کم اچھے زمانے میں ماں باپ بچوں کی عملی تربیت مشورے سے نہیں‘ حکم صادر کر کے کیا کرتے تھے۔ جو مؤثر تھی اور آج بھی ہے۔ اب مشورے دھمکیوں تک آن پہنچے۔ مشوروں کی دھمکی آمیز انڈسٹری کا بنیادی نعرہ سیاست میں مقبولیت مسترد کرکے قبولیت کیلئے ''کوالیفائی‘‘ کرنے کے مشورے سے شروع ہوا۔ یہ مشورہ دینے والے خود کو جمہوری کہلانے پر بضد ہیں۔ ان مشوروں پر تبصرہ آرائی سے بہتر ہو گا کہ 1973ء کے دستورِ پاکستان کے اساسی ڈاکیومنٹ Preamble سے رائے لیں۔ یہ رائے مقبولیت کو‘ قبولیت کا آئینی تقاضا سمجھتی ہے۔ اس کی کلاز نمبر دو میں One man one vote سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ریاست اور عوام کے درمیان ان لفظوں میں عمرانی معاہدہ کا آغاز کیا:And whereas it is the "will of the people" of pakistan to establish an order۔
(اور ہر کوئی آگاہ ہو!) یہ صرف اور صرف پاکستان کے لوگوں کی مرضی ہو گی جس کے ذریعے پاکستان میں نظام تشکیل پائے گا۔ یعنی ووٹ میں مقبولیت کی اکثریت۔
اب اگر آپ ایڈوائزر ایٹ لارج کی ایڈوائس دیکھیں تو اس میں لکھ کر مشورہ دیا گیا۔ آپ معافی مانگیں اور جان بچا لیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضیا آمریت کے دور میں جبری جلا وطنی اور گرفتاری کے تمغے حاصل کرنے والے انقلابی شاعر احمد فراز نے ایسے موقع پر کیا کہا‘ آئیے دیکھ لیتے ہیں:
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
ایک اور منظر نامہ بھی سب کے سامنے ہے جس کے دو حصے ہیں۔ پہلا‘ وہ پنجاب جو نذرِ سیلاب ہو گیا۔ ہزاروں ڈھور ڈنگر‘ گائیں بھینسیں‘ بکریاں اور مرغیاں پانی میں بہہ گئیں۔ کروڑوں نہیں تو ملٹی ملین لوگ اس سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دوسرا‘ ان کے ہمدرد جن کو فارم 47 کے ذریعے اچھی گورننس کا ماڈل بنا کر ڈیوٹی لگائی گئی تھی‘ وہ سرزمینِ پنجاب سے غائب ہیں۔ اس وقت پانی میں ڈوبے ہوئے وی لاگرز‘ رپورٹرز‘ پبلک کی آواز متبادل سوشل میڈیا پر بلند کررہے ہیں۔ لیکن یہ آواز پچھلے دروازے سے آنے والوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قبولیت والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جوابدہی سے عاری۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ایسا ہی سیلاب 2010ء میں آیا تھا۔ پھر ایسا ہی سیلاب 2012ء میں بھی آیا۔ ہر سال شمالی پاکستان گلیشیر پگھلنے سے سیلابوں کی زد میں آتا ہے۔ پچھلے 15سال میں پانچ ہلاکت خیز سیلاب بلوچستان کے طول و عرض میں بربادی کی داستانیں لکھ کر چلے گئے۔ اربوں ڈالر کا پانی سندھ پہنچ کر سمندر برد ہو جاتا ہے لیکن پکے کے جن لوگوں کا کچے کے ڈاکوؤں کے ذریعے لاکھوں ایکڑ زرخیز مفت زمین کا قبضہ ہے‘ وہ ڈیم بنانے کے بڑے مخالف ہیں لیکن کراچی کو ہر سال غسلِ سیلاب دینا نہیں بھولتے۔ شمالی پاکستان میں صرف ساڑھے تین سال کے عرصے میں عمران خان نے درجن کے قریب ڈیم بنانے کی بنیاد رکھی تھی۔ کوئی پوچھے! وہ ڈیم بنانے والے بابے یا وہ ڈیم بنانے والی حکومت کو رخصت کرنے والے گڈ گورننس کے دعویدار آج کل کدھر ہوتے ہیں؟
سادہ سی بات ہے! جو ہمارے دستور کے دیباچے کے ضمن تین میں کہتی ہے: بنیادی حقوق کی گارنٹی دو۔ سب کو برابر مواقع اور قوم کو پولیٹکل جسٹس دو۔ سوچ اور آواز اٹھانے کی آزادی بھی۔ جب تک دستور راج نہیں کرے گا پھیری لگانے والے آتے رہیں گے۔ وہ پھیری والے جن کی چار نسلیں پاکستان سے باہر پل رہی ہیں۔