اب تو امریکہ بہادر سے ''ڈنکی لوڈ‘‘ کے حساب سے ایسی معلومات پبلک ہو چکی ہیں جن کو ماضی میں Covert امریکی آپریشنز کا نام دیا گیا۔ ان آپریشنز سے تین نتائج نکالے گئے۔ لیکن ان کے بنیادی نصاب کے طور پر تینوں جگہ ایک ہی ہتھیار استعمال ہوا۔ اس ہتھیار سے تین طرح کے بڑے شکار کیے گئے‘ جن میں پہلا شکار مسلم اور غیر مسلم دنیا کے مختلف باغی لیڈروں کو سبق سکھانے کیلئے ہوا۔ جیسے شاہ فیصل‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ کرنل معمر قذافی‘ ہوگو شاویز اور بے شمار ایفرو لاطینی امریکہ کے آزاد منش لیڈرز۔ یہ لیڈر امریکہ کے مخالف نہ تھے مگر وہ امریکہ کے ماتحت نوکری اور وطن فروشی پر کبھی تیار نہ ہوئے۔ امریکی سپر پاور کو داد دینا پڑے گی جس نے کھل کر ان لیڈروں کو اپنے جمہوری ایجنڈے کے لیے روڑے اٹکانے والا قرار دیا۔ دوسرا شکار بہارِ عرب جیسی تحریکوں کو ہائی جیک کر کے کیپٹل ازم کی عالمی استعماریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے تھا۔ یہ حربہ بار بار آزمایا گیا۔ دنیا کے مختلف براعظموں میں‘ جہاں بلیک گولڈ‘ یورینیم‘ سونا‘ پلاٹینم‘ ٹائٹینیم‘ پلاڈیم جیسی قیمتی معدنیات اور ڈائمنڈ کے بڑے ذخائر موجود تھے‘ وہاں شکار کا تیسرا طریقہ واردات استعمال ہوا۔ ملکوں کے نام نہ لیں تب بھی طے ہے کہ امریکی سپانسرڈ مذہب کارڈ سے بے شمار ریاستوں اور حکومتوں کے بخیے اُدھیڑے گئے۔ یہ کام امریکہ یا کوئی دوسرا استعمار اکیلا نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ ڈالروں کی برسات کے ذریعے مقامی آپریٹر ز کی فصلیں اُگائی گئیں جنہوں نے اس بے رحم کارڈ برداری کی پِیڈ بار برداری سنبھالی۔ حال ہی میں ایک معروف فکاہیہ شاعر نے پوڈ کاسٹ انٹرویو میں مذہب کارڈ کے لیے استعمال ہونے والوں کے نئے نام قوم کے سامنے رکھے۔
ہماری ریاست کے منیجرز نے ایک آسان حل نکال لیا۔ ہر چال بازی کے پیچھے بیٹھی ہوئی طاقت کا نام لینے کے بجائے اسے یہودی سازش کہا گیا‘ یا انڈیا کی سازش قرار دیا گیا۔ یہی بیمار اور معذور ذہنیت ایک بار پھر سامنے آئی ہے۔ اس سازش کے موضوع پر فارم 47حکومت کے وزیروں کے بیانات آپ دیکھ چکے۔ مجھ سے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہی سوال پوچھا گیا۔ جواب تھا: بھارت تو ویسے ہی ہمارا مخالف ہے لیکن یہ بتائیں‘ پانی کے ذخائر تعمیر کرنے‘ اپنے لوگوں کو سیلابِ مرگ سے بچانے کے بجائے کیا ہمیں بھارت نے کہا تھا کہ آبی راستے بند کرکے اُن پر ہائوسنگ کالونیاں بنا دو؟ کون نہیں جانتا کہ بھارت سے پانی جموں‘ اجنالہ اور چڑھدے پنجاب کے ذریعے برکی وغیرہ کے قرب وجوار سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ آپ سازشی سیلاب کا جائزہ لینے کے لیے گوگل میپ نکالیں‘ جس میں پاک بھارت بارڈر پر انڈیا نے آہنی دیوار کھڑی کر رکھی ہے ۔ اس لیے اُسے گوگل کر کے ٹریس کرنا انتہائی آسان ہے۔ اس بارڈر لائن کے مغربی طرف جتنی ہائوسنگ سوسائٹیاں لاہور‘ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں نظر آئیں گی اتنی ہائوسنگ کالونیاں یا سوسائٹیاں آپ کو شاید پورے انڈیا میں زرعی رقبوں پر نہیں دکھائی دیں گی۔ میری آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے‘ سازشی سیلاب کس نے برپا کیا یہ جاننے کے لیے گوگل سے ضرور رابطہ کریں۔
2025ء کا سال پاکستان میں تین طرح کے سیلاب لے کر آیا۔ ان میں سے پہلا سیلاب دہشت گردی کے الزام میں عمران خان کے سیاسی کارکنوں اور پارٹی عہدیداروں کو عشروں لمبی سزائیں دینے کا برپا ہوا۔ ان میں ایسے لوگ جو سڑک پہ آتے جاتے پکڑے گئے‘ اُن کی بھاری اکثریت ہے۔ اس سے پہلے ملٹری ٹرائل کورٹس نے بھی بیسیوں افراد کو قید وبند کی سزائیں سنائیں۔ عشروں لمبی قید کے اس سیلاب کے متاثرین کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد آیا سازشی سیلاب‘ جس کی وجوہات کے بارے میں ہر کسی نے اپنے اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑائے۔ ہنرمندوں نے قوم کو گنہگار قرار دیا اور سازشی سیلاب کے گنہگاروں کو ایڈوانس بری کیا۔ سیلاب میں جان گنوا بیٹھنے والوں کی تعداد کوئی 800 بتاتا ہے‘ کوئی 850 اور کوئی 900۔ لیکن یہ تعداد جب تک سیلابی پتھر اور ملبے نہیں ہٹتے‘ بڑھتی رہے گی۔ یہ شہید بھی تقریباً ایک ہزار پاکستانی ہیں۔
آئیے! ہماری قومی ترجیحات ملاحظہ فرمائیں۔ نعرہ مارنے والے کو 10 سال قید اور سیلاب کا باعث بن کر بندے مارنے والے کو تمغۂ خدمت۔ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ1997ء کی دفعہ 6 دیکھ لیں۔ آپ کو اتنی بڑی تعداد میں نہ مقدمے ملیں گے‘ نہ ایک سال میں دہشت گردی سے شہید ہونے والے بے گناہ سرکاری‘ غیر سرکاری پاکستانی! جتنے ایک سیلاب میں مارے گئے۔ لیکن آج دس بارہ قسم کی پولیس‘ FIA‘ SIU‘ سپیشل برانچ‘ نیب‘ صوبائی انسدادِ رشوت ستانی پولیس‘ سب خاموش ہیں۔ پاکستانیوں کی اتنی بڑی‘ Mass Killing پر نہ کوئی ایف آئی ہوئی‘ نہ کرمنل انکوائری‘ نہ تفتیش اور نہ ہی گرفتاری۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ پِیا ہوئے کوتوال... پھر ڈر کاہے کا؟
سازشی سیلاب کے تناظر میں اُٹھنے والے سوالات پر تین ایکشن نہ لیے گئے تو اگلے برس اس سے زیادہ خوفناک صورتحال ہو گی۔ اس لیے کہ دریا کسی کو اپنا راستہ بند کرنے کا NOC جاری نہیں کرتا۔ لہٰذا جب دریا بپھر جائے تو وہ اپنا راستہ واپس لینے کے لیے کسی کا لحاظ کرتا ہے نہ پروا۔
سازشی سیلاب روکنے کا پہلا ایکشن: بلوچستان‘ کراچی‘ شمالی پاکستان بشمول جی بی‘ کے پی‘ لاہور‘ سیالکوٹ‘ چنیوٹ‘ جھنگ میں بربادیوں پر 30 روزہ آزاد فلڈ کمیشن آف انکوائری بٹھایا جائے‘ جو پتا چلا سکے کہ کن بڑوں نے اپنی شوگر ملوں اور فارمنگ لینڈز کو بچانے کے لیے چھوٹے گھروندے‘ بستیاں اور لاکھوں خاندانوں کی کُل متاعِ حیات پانی میں بہا دی۔
سازشی سیلاب روکنے کا دوسرا ایکشن: 1947ء کے نقشے سامنے رکھ کر پانی کے راستے ٹریس کر کے بحال کیے جائیں۔ آئندہ سیلاب کو روکنے کے لیے فوری طور پر سارے وسائل اینٹی فلڈنگ کے منصوبوں کی طرف موڑے جائیں۔ جاپان میں ہر روز کئی زلزلے آتے ہیں لیکن نقصان معمولی سے بھی کم ہے۔
سازشی سیلاب روکنے کا تیسرا ایکشن: کبھی کبھی مجھے واقعی یہ لگتا ہے کہ یہ سازشی سیلاب افرنگی سازش سے آیا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ سیلاب نے فرنگیوں کے 200 سال پرانے بنائے ہوئے پُل چھوڑ دیے اور ہمارے شریف اور معتبر ٹھیکیداروں کے بنائے ہوئے تازہ پل اُڑا کر رکھ دیے۔
یاد رکھنا! آئندہ بھی راوی‘ ستلج‘ بیاس‘ لئی اور سواں اپنے راستے کھلوانے کے لیے تحصیلدار کو درخواست نہیں دیں گے۔ وہ اپنی زمین واگزار کرانا خوب جانتے ہیں۔ ان دریائوں کو سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل ہے‘ جو پوری کائنات کا نظام چلاتی ہے۔
اکرام عارفی نے اپنے تازہ اشعار سے یوں تیسرا سیلاب برپا کیا:
کب کہا یاریوں سے ڈرتا ہوں
پیڑ ہوں! آریوں سے ڈرتا ہوں
دل کے تحصیلدار ہو صاحب
میں تو پٹواریوں سے ڈرتا ہوں
کل خلیفہ کا خوف تھا اکرام
آج تاتاریوں سے ڈرتا ہوں