اُس قیامت کے یہ نامے ہمارے نام آتے ہیں جس قیامت کو پوری قوم مل جل کر مسلسل بھگت رہی ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے انسانی حقوق‘ بنیادی حقوق‘ شہری حقوق‘ دستوری حقوق‘ فریڈم آف پریس‘ حقِ اظہار و گفتار‘ حقِ اجتماع‘ فریڈم آف موومنٹ‘ اور تو اور یہ قوم پولیٹکل جسٹس سے بھی محروم کر دی گئی ہے۔ وہ سیاسی انصاف‘ جس کی گارنٹی 1973ء کے متفقہ آئین کے دیباچے کے اندر ریاست نے شہریوں سے کیے گئے عمرانی معاہدے میں بطور سچائی لکھی ہے۔
جب سے فروری 2024ء کے الیکشن میں فارم 47 کا جادو چلا ہے‘ تب سے ''فار اینڈ اگینسٹ‘‘ ہر طرف کپتان ہے‘ عمران خان ہے اور نہ ختم ہونے والا ہیجان ہے۔ زور ہے‘ زبردستی ہے‘ اس کے باوجود احتجاج ہے اور مسلسل ہے۔ عمران خان کی تصویر پر پابندی‘ تقریر پر پابندی‘ اس کے آزادانہ ٹرائل پر پابندی‘ عدالت میں پیشی کیلئے عمران خان کی حاضری پر بھی پابندی۔ بھلا ہو برٹش لیگل ریفارمر اور سیاستدانLord Thomas Babington Macaulayکا‘ جس نے پہلے 1856-57ء میں انڈین پینل کوڈ اور پھر 1872ء میں متحدہ ہندوستان کیلئے کرمنل پروسیجر کوڈ بنا دیا۔ ہم نے لارڈ میکالے کی تعزیرات پر انڈیا کے بجائے پاکستان کا لفظ لکھا اور اسے اپنا لیا۔ اس قانون کی دفعہ 167کے ذیلی سیکشن دو میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی ملزم کو‘ جو ٹرائل کیلئے بندی خانے کی حوالات میں بھیجا جاتا ہے‘ اسے صرف اور صرف For a term not exceeding 15 days in the whole تک بند رکھا جا سکتا ہے۔ 15ویں دن اسے لازماً متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ قیدی نمبر 804 ان بنیادی قانونی‘ انسانی اور ضابطہ جاتی حقوق سے بھی محروم ہے۔ اس سارے جبروت کے باوجود تین چیزیں عمران خان کے ضبطِ خیال سے بھی ماورا ہیں۔ آپ انہیں خان کیلئے شہرِ ممنوع کہہ لیں۔
عمران خان کا پہلا شہرِ ممنوع‘ اپنے مؤقف پر سرنڈر: اسے سمجھنے کیلئے میں ایک واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ میرے ایک بڑے سیاستدان دوست نے‘ جو کڑے امتحان سے گزر رہے تھے‘ مجھے ٹیلی فون کیا۔ پوچھا: ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پھر بتایا کہ میرے سامنے صرف دو راستے موجود ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں اور تجربے میں بھی‘ آپ خود چوائس کر لیں‘ آ پ کی پارٹی کا اختیار بھی آپ کے پاس ہے۔ فرمانے لگے: مجھے پارٹی والے سارے کہہ رہے ہیں اس ملک میں مزاحمت کا کوئی مستقبل نہیں ہے‘ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اچھی شرائط پر ہم سرنڈر کر دیں۔ میں نے کہا: محترم! سرنڈر‘ سرنڈر ہوتا ہے۔ اس کیلئے شرائط چاہے جتنی بھی لذید اور دلپذیر ہوں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ اپنی باقی ساری زندگی اس سرنڈر کی وضاحتیں دینے میں گزار دیں گے۔ اسی طرح ہمارے ماضی بعید کے ایک نامور مردِ آہن خان عبدالقیوم خان ہوا کرتے تھے۔ سیاست میں ملکی سطح پہ پہچانے جانے کی سہولت رکھتے تھے اور اُس وقت کی مسلم لیگ کے سربراہ بھی تھے۔ ایک وقت میں خان عبدالقیوم خان کی ذاتی پاپولیرٹی کا یہ عالم تھا کہ بقول راوی انہوں نے اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے 50 میل لمبا جلوس نکالا۔ میں نے اپنے مہربان دوست کو یہ واقعہ سنایا اور ساتھ کہا: اس جلوس کے خاتمے نے خان قیوم کی سیاست بھی ختم کر ڈالی تھی۔ اگرچہ ان کے سرنڈر کا کوئی گواہ موجود نہیں تھا‘ اس کے باوجود ایک جملہ انہیں سیاسی طور پر مار کر رکھ گیا۔ یار لوگ کہتے تھے! خان عبدالقیوم خان کا جلوس 50میل لمبا اور معافی نامہ 60میل لمبا تھا۔ میں نے ساتھ عرض کیا سر پلیز! آپ مجھے Witness to surrender نہ بنائیں۔
ان کی گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں عمران خان سے ملنے والا پہلا وکیل میں تھا۔ اس کے بعد ہماری بہت سی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ پارٹی کا جو لیڈر یا وکیل قیدی نمبر 804 کے پاس جا کر Witness to surrenderبننے کی کوشش کرتا ہے‘ عقابی نظر رکھنے والا کپتان اسے فوراً وَن ڈاؤن پر لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ بحیثیت کپتان قیدی نمبر 804 فرنٹ سے لیڈ کرنے والا رہنما ہے اور بطورِکپتان جانتا ہے کہ کس دوڑ کیلئے کس شہسوار کی ضرورت ہے۔ امرِ واقع یہ ہے کہ عمران خان کے قیدی سیل کی باہر والی کنڈی سے زیادہ مضبوط کنڈی وہ ہے جو ہمارے کپتان نے خود اندر سے لگا رکھی ہے۔ جس کا ثبوت ان کی تین دن پہلے والی ٹویٹ سے بھی ملتا ہے۔ اس ٹویٹ میں عمران خان نے کہا: مجھے تو کیا‘ اگر میرے سارے خاندان کو بھی اٹھا لیا جائے‘ باقی ساری زندگی مجھے جیل میں گزارنا پڑے‘ تب بھی ملک میں آئین کی بالادستی‘ حقیقی آزادی اور وقارِ آدمیت کیلئے سرنڈر کے بجائے جیل میں قیدِ تنہائی گزارنے کیلئے تیار ہوں۔
عمران خان کا دوسرا شہرِ ممنوع‘ سویلین سپرامیسی: 1973ء کے دستور کو عام طور پر متفقہ کہتے ہیں‘ لیکن پارلیمانی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تین ممبرانِ قومی اسمبلی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جینیفر قاضی (بیوہ موسیٰ قاضی)‘ مشہورِ زمانہ قصوری اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ۔ اس دستور میں شروع سے لے کر آخر تک تین درجن کے قریب آئینی آرٹیکل ایسے ہیں جن میں سویلین سپرامیسی یعنی ملک پر قوم کی مرضی کی حکومت‘ مرضی کا نظام اور مرضی کے نمائندے کا راج لکھا ہوا ہے۔ اسی دستور کے آرٹیکل پانچ کی ذیلی دفعہ دو میں آئین کی تابعداری اور آئینی قوانین کی پابندی ہر پاکستانی پر فرض کردی گئی ہے‘ جس کیلئے Inviolableکا لفظ استعمال ہوا۔ پھر آرٹیکل سات میں ریاست کے معنی فیڈرل گورنمنٹ‘ پارلیمنٹ‘ صوبائی حکومت‘ صوبائی اسمبلی‘ لوکل گورنمنٹ اور اتھارٹیز‘ جن کو قانون ٹیکس یا لیوی لاگو کرنے کی اجازت دے‘ وہ ریاست کہلائیں گے۔ عمران خان جس حقیقی آزادی اور رول آف لاء کی بات کرتے ہیں وہ کیسے بغاوت ہے یا غداری۔ یہ سب تو آئین میں لفظ بہ لفظ طے ہے۔ اس سویلین سپرامیسی کو سرنڈر کرنا آئینی اصطلاح میں Abrogation اور Subversion لکھا گیا ہے۔ یہ اصول پرویز مشرف کیس میں طے ہو چکا۔
عمران خان کا تیسرا شہرِ ممنوع‘ سودے بازی سے انکار: آج سرکاری لکھنے اور درباری بولنے والے بڑے کھلے لفظوں میں عمران خان کو سودے بازی کا مشورہ دے کر کہتے ہیں ''عرقِ سیاست‘‘ یہی ہے۔ پھر کہتے ہیں نواز شریف سے سبق سیکھو۔ آئین توڑنے والوں سے مراعات لینا سیاسی سبق نہیں بلکہ قومی عبرت ہے۔ جو ایسا کرتا ہے اسے پاکستان کی نوجوان قوم نشانِ عبرت بنا چھوڑتی ہے۔ اسی لیے کچھ لال بجھکڑ‘ جو اپنے آپ کو نجومِ صحافت کہتے ہیں‘ نئی نسل کا نام ان کیلئے ذریعہ چھیڑ خانی بن چکا ہے۔
نئی نسل خان کو اور میں پاکستان کے نئے مستقبل کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں:
رات کے خواب جلے دن کی تمازت سے مگر
تُو مرے واسطے فردوسِ گماں آج بھی ہے
وہی ہر سمت ترے نام کی دیواریں ہیں
وہی آفاق کی محدود عناں آج بھی ہے
تنگیٔ دائرہِ اہلِ خرد کے باوصف
وسعتِ حلقۂ آشفتہ سراں آج بھی ہے
ساری سڑکوں پہ اجارہ ہے ہنر مندوں کا
موڑ پر عشق کی چھوٹی سی دکاں آج بھی ہے