افغانستان کے ساتھ پہلی جنگ بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے خود لڑی تھی۔ جسے پاوندہ وار اول کہا جاتا ہے۔ آج پون صدی سے زیادہ کا وقت گزر نے کے بعد 2025ء میں بھی پاک افغان کشیدگی جاری ہے۔ جب شہرِ اقتدار میں وکالت نامے کی یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تب پاک افغان بارڈر پر کشیدگی کا دوسرا دن تھا۔ ہمارے علاقائی امور اور پاکستان کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اتنے بُرے کبھی نہیں رہے جتنے برے وہ اُس وقت ہو جاتے ہیں جب USA بہادر پاکستان پر مہربان ہوتا ہے۔ اس کشیدگی کے بطن سے ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوا۔ وہ ہے‘ پاک افغان بارڈر سے پیدا ہونے والی یا اُس کے ذریعے امپورٹ ہونے والی پراڈکٹ آف ٹیررازم۔ اچھا ہوا دو دن پہلے پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد ایک اہم بحث پھر شروع ہوئی جس کے تانے بانے پہلی امریکن پراکسی جنگ سے جا ملتے ہیں اس لیے ضروری ہو گا بات وہاں سے شروع کی جائے جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وبا پھوٹی تھی۔
پاکستان میں دہشت گردی کا فیز نمبر ون: 1948ء سے 1976ء تک کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ وطنِ عزیز میں نہ تو کوئی منظم دہشت گرد تنظیم تھی اور نہ ہی دہشت گردی کی ملک گیر کوئی لہر دیکھنے میں آئی۔ مشرقی پاکستان میں جب بھی برادرانِ بنگال اپنی محرومی‘ امتیازی سلوک اور اکثریت کی رائے کو نظر انداز کرنے کی شکایت کرتے وہاں 'مٹھی بھر شر پسندوں‘ کے خلاف آپریشن شروع ہو جاتا ۔یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان چوائس کر کے جرگے کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوا۔ اُس کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ کے دور میں اچھوت والا سلوک کیا گیا۔ معروف سیاسی اور قبائلی لیڈروں کو مذاکرات کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اُتار کر شخصی قوت اور فردِ واحدکی من مرضی کے مطابق پھانسیاں دے دی گئیں۔ تب تک بھی پورے پاکستان کے لیے ملکی سطح کے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی نہ ضرور ت تھی‘ نہ یہ قانون بنا۔ پاکستان کی Legislative History میں دہشت گردی کے حوالے سے بننے والے پہلے قانون کا نام Suprresion of Terrorit Activities Act 1975 تھا۔ پھر 1990ء میں Terrorists Affected Areas Act کی شکل میں ایک قانون نافذ کیا گیا۔ قانون کے عنوان اور ٹیکسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف اُن علاقوں میں لاگو اور مؤثر کیا گیا جہاں کوئی دہشت گردی کی واردات ہو۔
پاکستان میں دہشت گردی کا فیز نمبر ٹُو: دہشت گردی کے دوسرے فیز کا آغاز 1979ء میں ضیا الحق کے مارشل لاء سے ہوتا ہے۔ چونکہ فیصلہ سازی ایک آدمی کے پاس تھی جس نے اقتدار اور اختیار کی ساری ٹوپیاں زبردستی اپنے سر پر سجا لیں۔ یو ایس ڈالرز اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے جو پراکسی جنگ ا س فردِ واحد نے شروع کی تھی اُس کا جواب پہلی دہشت گردی‘ راولپنڈی کے کشمیری بازار میں خوفناک دھماکے سے ہوا‘ جس میں ہاتھ سے بنی فینسی چپلوں‘ جوتوں اور لیڈیز ویئرکے لیے مشہور یہ تاریخی بازار آگ وخون میں نہا گیا۔ دکاندار‘ خواتین‘ بچے‘ گاہک اور اردگرد کے محلے دار جل کر بھسم ہو گئے۔ جن کی سرکاری تعداد 380 سے زائد بتائی گئی تھی۔ تب نہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز تھے نہ سوشل میڈیا تھا‘ اس لیے سرکاری ٹی وی سے انفارمشین تک رسائی سے محروم عوام کے لیے امریکی سپانسرڈ بیانیہ بیچا گیا‘ جو یہ تھا کہ کشمیری بازار پنڈی میں روس نے سکڈ میزائل سے حملہ کیا ہے۔ یہ پراکسی جنگ خوشی خوشی ہمارے آنگن میں لانے اور سجانے والا خود تو نہ رہا مگر ہیروئن‘ کلاشنکوف‘ فرقہ واریت‘ بارڈر ٹریڈ کے نام پر بدترین سمگلنگ‘ گوریلا وار فیئرکے تربیت یافتہ ہزاروں نان سٹیٹ ایکٹرز کو باقیات سمیت چھوڑ گیا۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے کہنا پڑے گا کہ اسی دور میں 35 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ افغانوں کو مہاجر بنا کر اُن کے لیے سرزمینِ پاکستان کے مغربی بارڈر کھول دیے گئے۔ کسی نے کوئی سیکورٹی چیک یا واچ نہ کیا۔ جو لوگ افغانستان سے آ رہے تھے اُن کا بیک گرائونڈ نامعلوم تھا۔ نہ ہی اُن کی دستاویزات چیک کی گئیں نہ یہ نوٹ کیا گیا وہ اپنے ساتھ کیا کچھ لے کر ہمارا بین الاقوامی بارڈر پامال کرتے چلے آتے ہیں۔ ان مہاجرین کو پورے ملک میں آنے جانے‘ کاروبار بنانے‘ شادیاں کرنے اور روزگار لینے کی آزادی دی گئی۔ یہ آزادی ان کے میزبان ضیاالحق نے دی۔ جن کے ویلکم کو قبولِ عام کی سند بخشنے کے لیے افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگ کو 'ہولی وار‘ بنایا گیا‘ جس کے لیے ملک بھر میں ہزاروں لانچنگ پیڈز تیارہوئے۔ کوئی تعصب کی آنکھ کے بغیر دیکھے تو آج بھی وحشت گری‘ دہشت گردی‘ منظم جرائم کے لیے سارے کا سارا ہیومن ایندھن انہی لانچنگ پیڈز کے ذریعے لانچ ہوتا ہے۔
یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ اسی دور میں گوریلا وار فیئر کے لیے پاکستان میں پرائیویٹ ملٹری کی بنیاد ڈالی گئی۔ حالانکہ 1973ء کے دستور میں پاکستان کی ریگولر فوج کے علاوہ کسی جماعت‘ شخص یا گروہ کو پرائیویٹ آرمی بنانے کی اجازت نہیں۔ اس دستوری پابندی کے حوالے سے ملاحظہ کریں آئین کیا کہتا ہے: 256. No private organisation capable of functioning as a military organisatioin shall be formed, and any such organisation shall be illegal.
ضیا الحق آئینی نظام سے منکر تھا اس لیے اس کے دور میں کراچی سمیت پورے ملک میں ریاست کے اندر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن گئیں۔ ان ریاستوں کو چلانے اور اس بزنس سے کمانے کے لیے پرائیویٹ لشکر ترتیب دیے گئے جنہوں نے سرکاری زمین پر قومی وسائل سے اپنی اپنی حد بندیاں کر لیں۔ اپنے زیرِ قبضہ حدود اور علاقوں کو اپنے لوگوں کے علاوہ پورے پاکستان کے عوام اور اداروں کے لیے نو گو ایریا ڈکلیئر کر دیا۔ ایسے شخصی راج کو پشتو میں أخپل بادشاہی کہتے ہیں۔ ہر نو گو ایریا کے اندر ریاست میں داخل ہونے کے لیے پبلک علاقوں میں پرائیویٹ چیک پوسٹیں اور گیٹ لگ گئے۔ اسلحہ وبارود لے کر مورچوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنی راج دھانی میں نہ صرف اپنا قانون چلاتے بلکہ جسے وہ مخالف سمجھ کر پکڑتے اُسے نجی جیلوں میں بند رکھتے۔ بدترین جسمانی ٹارچر کے بعد بوری بند لاشیں ندی نالوں میں پھینک دی جاتیں۔ اس سب کا بدترین نتیجہ یہ تھا‘ اس طرح کے جرائم میں ملوث جو کوئی گروہ ضیا الحق کو مردِ حق کہتا‘ ریاست کے خرچے پر اُس کی پرورش شروع ہو جاتی۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں۔ یہ سب اس بدقسمت زمین پر اس کے بدبخت باسیوں کے ساتھ سرِ عام ہوتا آیا ہے۔ بقولِ شاعر حالت یہ ہوئی:
ہجومِ اشک‘ ضبطِ غم جبیں لہولہان ہے
اے آسمان دیکھنا‘ زمیں لہولہان ہے
یہ کون سا جہان ہے مکاں ہیں دلنشیں‘ مگر
ہر اک مکاں ہے بے آماں مکین لہولہان ہے
(جاری)