ہمارے ہاں سیاست کا ایک اہم نقطۂ بحث بدعنوانی ہے۔ ہر قابل ذکر فورم پر یہ نقطہ زیر بحث ہے۔ اخبارات کے ادارتی صفحات سے لے کر سوشل میڈیا تک اس موضوع پر ہر طرح کے خیالات کا اظہار ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق ہماری سیاسی اخلاقیات سے ہے۔ اخلاقیات کا سیاست سے گہرا تعلق ہے۔ علم الاخلاق سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ اخلاقیات کے تابع اور اصولوں پر مبنی سیاست کا تصور مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہے۔ تیسری دنیا کے کچھ پسماندہ ممالک میں مگر سیاست کاروں اور سیاسی جماعتوں کی کچھ سرگرمیوں سے اس تصور کو شدید دھچکا لگتا رہا ہے۔ ایسے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے۔
یہاں گزشتہ کچھ عرصے سے بعض رہنمائوں اور سیاسی گروہوں کے طرز عمل اور رویوں سے لگتا ہے کہ وہ سیاست کے اخلاقی تقاضوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ چنانچہ وہ کثرت سے ایسے عمل اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں جن میں اخلاقی تقاضوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان سیاست دانوں کی ایسی سرگرمیوں پر اعتراض کو مسترد کر دیا جاتا ہے، اور اس پر سوال اٹھانے والوں کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا۔ یہ طرز عمل اس حقیقت کا عکاس ہے کہ یہاں سیاست کے لازمی اور بنیادی اصولوں کو غیر ضروری اور غیر متعلق سمجھا جاتا ہے۔ اس طرز عمل سے سیاست کے اندر پہلے سے بڑے پیمانے پر موجود بے اصولی اور بدعنوانی کے رویوں کو فروغ ملتا ہے۔ حکمرانوں اور رہنمائوں کے وعدوں اور دعووں کے باوجود اس طرز عمل میں تبدیلی کے بغیر ایک شفاف اور منصفانہ سماج کا قیام ممکن نہیں ہے۔
ہماری سیاسی اخلاقیات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ ستر برسوں سے یہ اخلاقیات بہت تیزی سے رو بہ زوال ہیں۔ تحریک پاکستان کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والے لیڈروں کی سیاسی اخلاقیات، اصولوں اور کردار کا مقابلہ بعد میں آنے والے لیڈروں سے نہیں کیا جا سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ خان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو جیسے رہنما ایک استثنا ہیں۔ یہ ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو اپنے سیاسی اصولوں اور سیاسی نظریات کے لیے کھڑے ہونے کی جرأت رکھتے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے لیڈروں کی اس آخری نسل میں ہوتا ہے‘ جنہوں نے اقتدار کو دولت جمع کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا۔ یہ لوگ بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ سے دور رہے۔ اس کے بعد ہم زوال کی ان پستیوں تک پہنچے کہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم رہنما کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ سیاست کے لیے پیسہ ناگزیر ہے، اور سیاست میں پیسہ بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں؛ چنانچہ ہمارے ہاں ایسے رہنما سامنے آئے‘ جنہوں نے پیسے سے سیاست خریدی یا سیاست سے پیسہ بنایا۔ عوام کو یہ باور کروایا گیا کہ سیاست پیسے کا کھیل ہے اور جس کے پاس پیسہ ہے وہی قیادت و اقتدار کا حقدار ہے۔
ہمارے ہاں کرپشن صرف پیسے تک ہی محدود نہیں۔ سیاسی اخلاقیات کے زوال سے بدعنوانی کی کئی شکلیں، کئی چہرے سامنے آئے۔ ان میں سے کئی شکلیں مالی بدعنوانی یا معاشی بددیانتی سے بھی کہیں زیادہ خوفناک اور زہریلی ہیں۔ ان میں سے ایک شکل بدعنوان سیاست دانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا اور ان کو پارٹی کے کلیدی عہدے عطا کرنا ہے۔ یہ عمل منی لانڈرنگ یا پیسہ سفید کرنے جیسا ہے۔ جن سیاست کاروں نے سر عام بدعنوانیاں کی ہوں۔ جنہوں نے زندگی بھر کوئی کاروبار نہ کیا ہو۔ کوئی منافع بخش کام کاج نہ کیا ہو۔ کبھی برسر روزگار نہ رہے ہوں۔ وہ اگر ایک دن ملک کے چند سو گنے چنے امیر ترین لوگوں کی صفوں میں شامل ہو جائیں تو ان کو بدعنوان یا بددیانت ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت یا عدالتی کارروائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ عوام کی آنکھوں کے سامنے ایک دن کوڑی کوڑی کے محتاج ہوتے ہیں، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کسی روز کروڑ پتی کے روپ میں سامنے آ جاتے ہیں۔ ان کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہوتے ہیں۔ اور جس دن یہ قصے گلیوں محلوں میں پھیل جاتے ہیں‘ اس روز ایسے سیاستدان کھوٹے سکے بن جاتے ہیں۔ سیاست میں ان کا کوئی بہائو نہیں رہتا۔ ان کی حیثیت کالے دھن جیسی ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی صاف دامن، باکردار سیاست دان ان لوگوں کو اٹھا کے اپنے پاس بٹھائے، اگلی صفوں میں جگہ دے تو یہ عمل کالے دھن کو سفید کرنے جیسا ہے۔ ان کو مکمل طور پر مٹنے اور مرنے سے بچانا ہے۔ یہ منی لانڈرنگ سے زیادہ برا ہے۔ یہ ان لوگوں کو کیچڑ سے اٹھا کر نہلا دھلا کر دوبارہ عوام کے سامنے رکھنے والی بات ہے۔
ہمارے ہاں ان کھوٹے سکوں کو دوبارہ چلانے کے عمل میں کوئی ایک پارٹی یا ایک شخصیت شریک نہیں۔ اس میں وہ ساری پارٹیاں اور شخصیات شامل ہوتی ہیں جن کی نظر اقتدار کے ایوانوں پر ہے۔ وہ ان کی دولت اور ماضی کے تجربے کو اپنے اقتدار کی سیڑھی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ان کو قابل انتخاب اسامی سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو رہنما ان کھوٹے سکوں کو دوبارہ چلاتے ہیں ان کے پاس ان کے اس عمل کی وضاحت کے لیے دلائل بھی ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ان بدعنوان لوگوں کو کسی اہم عہدے پر فائز نہیں کریں گے‘ یا وہ خود اتنے صاحب کردار ہیں کہ ان کی موجودگی میں یہ کرپشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور یہ کہ ان ناگوار لوگوں کو ایک بڑے مقصد کے لیے برداشت کیا جا رہا ہے اور وہ بڑا مقصد اقتدار میں پہنچ کر عوام کی بھلائی کے لیے وسیع اقدامات کرنا ہے۔
ان کی ایک دوسری منفرد وضاحت بھی ہے۔ کہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے کوئی ایسا چھوٹا موٹا سمجھوتہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ دلیل ہمیں فلسفے کی بحث میں لے جاتی ہے۔ یہ بحث ہزاروں بار ہو چکی۔ اہل فلسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ عظیم مقاصد کے حصول کے لیے گھٹیا ہتھکنڈوں کا استعمال غیر اخلاقی بات ہے۔ یہ چھوٹی برائی اور بڑی برائی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں کوئی انتخاب ہے ہی نہیں۔ یہ سیدھا برائی کو گلے لگانے والی بات ہے۔ یہ عمل واضح طور پر سیاسی اخلاقیات سے متصادم ہے۔ یہ عمل کرنے والی پارٹی یا شخصیت قانونی اور اخلاقی اعتبار سے بدعنوان شخص کی کارگزاریوں کی ساجھے دار بن جاتی ہے‘ اور اس عمل سے وہ خود اپنے حق حکمرانی کو چیلنج کرتی ہے اور بدعنوانی کے خاتمے کے ایجنڈے کو غیر معتبر بنا دیتی ہے۔ جس پارٹی میں جتنے زیادہ بدعنوان یا داغدار ماضی رکھنے والے لوگ ہوں گے اس پارٹی کا کرپشن دشمن ایجنڈا اتنا ہی کمزور اور مشکوک ہو گا۔ ایسے لوگوں کو اپنا ساتھی بنانا بذات خود ایک غیر اخلاقی عمل ہے‘ جو کرپشن کے بارے میں لیڈر کے نرم رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بدعنوان لوگ کسی ایک شخصیت یا پارٹی تک محدود نہیں۔ یہ لوگ تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے بہت سے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ ملک میں بدعنوانی سے پاک سماج کے قیام کی دعویدار پارٹیوں کو صفائی کے اس عمل کا آغاز اپنی صفوں سے کرنا چاہیے۔ اس عمل میں اپنی صفوں پر نظر زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ نشٹے نے کیا خوب کہا تھا کہ جو عفریت سے لڑ رہا ہے اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ اس عمل میں خود عفریت نہ بن جائے۔ اگر آپ زیادہ دیر تک غار میں گھورتے ہیں تو غار آپ کو واپس گھورے گی۔
سیاسی اخلاقیات کے کچھ اور بڑے ضابطوں اور اصولوں کی خلاف ورزی سیاسی زندگی میں ایک خاص قسم کے دھرنوں کا تعارف ہے۔ دھرنا احتجاجی عمل کی ایک شکل ہے۔ یہ ایک جمہوری حق ہے۔ جو جمہوریت کے تابع ہوتا ہے۔ جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں، یہ ایک کلچر کا نام ہے جس کے کئی لازمی اور ناگزیر عناصر ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بنیادی عنصر قانون کی حکمرانی ہے۔ (باقی صفحہ 13 پر )
قانون کی حکمرانی کا مطلب ہے کہ ریاست اور عوام‘ دونوں پر قانون کا احترام لازم ہے۔ پھر قانون کے تحت ہر شہری کے کچھ انفرادی کچھ اجتماعی حقوق ہوتے ہیں۔ ان حقوق کا استعمال کرتے ہوئے ہر شہری کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے شہریوں کے حقوق کا پورا خیال کرے۔ جس طرح دھرنا اور احتجاج شہریوں کا حق ہے اسی طرح، سکون سے زندگی گزارنے کا حق، نقل و حرکت کی آزادی کا حق، روزگار اور علاج کا حق بھی ہر شہری کو حاصل ہے۔ جمہوریت شہریوں کو احتجاج کا حق دیتی ہے‘ لیکن دوسرے شہریوں کا راستہ روکنے، ان کے روزگار یا علاج میں رکاوٹ بننے، ان کا سکون برباد کرنے، شاہراہوں پر قابض ہونے، غنڈہ گردی پر اتر آنے یا گالی گلوچ کی آزادی نہیں دیتی۔ احتجاج کے نام پر یہ حرکات قانون کی حکمرانی کے بنیادی تقاضوں سے متصادم ہیں‘ سیاسی اخلاقیات کے خلاف ہیں۔ یہ حرکات تشدد، افراتفری اور طاقت کے استعمال کا موجب بنتی ہیں‘ جس سے جمہوریت کو ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس سے ریاست کو تشدد اور طاقت کے استعمال کا جواز مہیا ہوتا ہے۔ اس سے بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیاں کمزور ہوتی ہیں۔ آمریت پسند اور رجعتی قوتیں مضبوط ہوتی ہیںلیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ناانصافیوں پہ خاموش رہا جائے۔ خاموشی بدترین سمجھوتہ ہے۔ اس سے ظلم اور ناانصافی بڑھتی ہے۔ بقول شخصے خاموشی سے زیادہ کوئی چیز حکمرانوں کو طاقت نہیں بخشتی۔ اس لیے مقصد ترکِ احتجاج نہیں، احتجاج کے وہ طریقے اختیار کرنا ہے جو عوام کے بجائے حکمرانوں کے لیے پریشانی اور ندامت کا باعث ہوں۔