"FBC" (space) message & send to 7575

سفارت کاری اور قبائلی اخلاقیات

'میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے‘ یہ ایک قدیم کہاوت ہے۔ بعض روایات کے مطابق اس کہاوت کا استعمال چار سو سال قبل مسیح میں ہندوستان میں ہوا تھا۔ یہ کہاوت سنسکرت زبان سے نکل کر رفتہ رفتہ پوری دنیا کی زبانوں اور بولیوں تک پہنچ گئی۔ یہ کہاوت ایک خاص قسم کی قبائلی نفسیات کی عکاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قدیم کہاوت قبائلی سماجوں میں بہت ہی مقبول رہی ہے۔ قبائلی نظام کے خاتمے کے باوجود، ہماری اس دنیا میں کئی قبائلی اخلاقیات موجود ہیں۔ ان اخلاقیات کی جھلکیاں ہمیں گاہے دکھائی دیتی ہیں۔ اب بھی بڑے پیمانے پر ملکوں، قوموں کے درمیان تعلقات کے باب میں اس قدیم کہاوت پر مبنی یہ اصول کار فرما نظر آتا ہے۔ ہر جگہ سیاست اور سفارت کاری پر اس کی چھاپ بہت نمایاں ہے۔ 
یہ پرانی کہاوت ہماری اس صدی کی ابتدا میں سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بڑے پیمانے پر استعمال ہوئی۔ بیسویں صدی کی تیسری دھائی میں مغربی اتحادیوں اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں تھے‘ لیکن جب ہٹلر کی قیادت میں فاشزم نے سر اٹھایا تو مغربی اتحادی اور سوویت یونین 'دشمن کا دشمن ہمارا دوست‘ کے اصول کے تحت ہٹلر کے خلاف متحد ہو گئے۔ جب نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کیا تو ونسٹن چرچل کی یہ بات بہت مشہور ہوئی کہ اگر نازی جہنم پر بھی حملہ کرے گا تو میں برطانوی پارلیمنٹ میں شیطان کی حمایت میں کم از کم ایک قرارداد ضرور پیش کروں گا۔ 
دوسری جنگِ عظیم کے بعد آنے والے برسوں میں بھی یہ اصول بار بار اپنایا گیا۔ چین اور روس کی طرف سے کوریا اور ویت نام کی مدد اسی قدیم کہاوت کا مظہر تھی۔ 
تیسری دنیا بطور خاص بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اور گرم لڑائیوں کا مرکز رہی ہے۔ اس میدان میں بڑی طاقتوں نے 'دشمن کا دشمن میرا دوست‘ کا کھیل بڑی بے رحمی سے کھیلا۔ اس کھیل کو نظریات اور خیالات کا لبادہ اوڑھ کر کھیلا جاتا رہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یہ کھیل آزاد منڈیوں اور جمہوریت کے نام پر کھیلا۔ دوسری طرف سوشلزم، مارکس ازم اور لینن ازم اس کھیل میں سوویت یونین کے مضبوط ہتھیار رہے۔ 
'دشمن کا دشمن میرا دوست‘ کا فارمولہ سوویت یونین کے اعصاب پر بھی سوار رہا۔ اس اصول کے تحت اس نے کئی ایسی حکومتوں اور شخصیات کی مدد کی جو سوشلزم کے دوست نہیں تھے‘ اور کئی ایسے بھی جو کمیونزم کے دشمن تھے۔ انہوں نے اپنے ملکوں میں کمیونسٹوں کو قید میں ڈال رکھا تھا۔ افریقی اور عرب دنیا تو دوستی اور دشمنی کے اس اصول کی خاص اسیر، اور شکار رہی ہے۔ مصر میں سوویت امریکن سرد جنگ ہمیشہ گرم رہتی تھی۔ یہاں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے سوویت یونین نے جمال عبدالناصر کی زبردست حمایت کی۔ 
اگرچہ پوری طرح نہیں‘ لیکن ایک خاص شکل میں اس فارمولے کا اطلاق سوویت یونین اور بھارت کے درمیان تعلقات پر بھی ہوتا تھا۔ پنڈت نہرو کا جھکائو سوشلزم کی طرف ہونے کے باوجود بھارت شروع سے ہی ایک جمہوریت رہی ہے۔ سوشلزم کے ساتھ ساتھ اس میں ٹاٹا اور برلا جیسی سرمایہ دار اور تجارتی کمپنیاں بھی رہی ہیں۔ سوویت یونین نے پاکستان میں امریکہ نواز حکومتوں اور چین کے خلاف بھارت کو ہمیشہ فوجی اور معاشی امداد فراہم کی۔ سوویت یونین سے اختلاف کے بعد چین نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ اسی اصول کے تحت چین نے ایسے ممالک سے تعاون شروع کیا جو سوویت یونین کے خلاف تھے۔ اگرچہ وہ سیاست میں چینی طرز حکومت اور مائوازم کے فلسفے کو بھی نہیں مانتے تھے۔ انقلابِ ایران ایک حد تک ایک امریکہ دشمن انقلاب تھا۔ یہ انقلاب امریکہ عراق دوستی کا باعث بنا۔ ایران عراق جنگ میں امریکہ کی طرف سے عراق کی مدد بھی اسی اصول کا نتیجہ تھی۔ یہ اصول آج بھی دنیا بھر کی سیاست اور سفارت کاری میں بڑی حد تک رائج ہے۔ 
پاکستان اور بھارت کے عالمی سفارتی تعلقات میں 'دشمن کے دشمن سے دوستی‘ کا اصول بڑا اہم رہا ہے۔ یہ اصول آج بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کی نئی صف بندیوں میں پاکستان اور بھارت کی نئے طریقے سے شمولیت اسی اصول کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ، بھارت، روس، پاکستان اور افغانستان کی دوستی و دشمنی کے مدوجزر میں وہی قدیم اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ 
البتہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں قدیم قبائلی طرزِ سفارت ترک کر کے چین نے کچھ نئے اصول اپنائے ہیں۔ چین کی عالمی سفارتی پالیسی میں ان اصولوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ چو این لائی نے کہا تھا: سفارت کاری دراصل دوسرے ذرائع سے جنگ کا تسلسل ہے۔ یہ پرامن اور غیر مسلح ذرائع ہیں۔ یہ وہ ذرائع ہیں‘ جن کے تحت چین تائیوان سے تجارت کر سکتا ہے۔ انڈیا کے شدید احتجاج کے باوجود پاکستان میں سی پیک بنا سکتا ہے‘ اور سال دو ہزار سولہ میں بھارت سے پچاس ارب ڈالر کی تجارت بھی کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا 'میرے دشمن کا دشمن میرا دوست‘ کے اصول کے تحت نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو سفارتی تعلقات کے باب میں قدیم قبائلی روایات سے نکلنے کے لیے چین سے سیکھنا چاہیے۔ یہ سبق عالمی سفارت کاری میں نئے راستے کھولتا ہے۔ سن تذو نے برسوں پہلے آرٹ آف وار میں لکھا تھا کہ جنگ کا سب سے بڑا فن یہ ہے کہ دشمن کو لڑے بغیر فتح کیا جائے۔
'میرے دشمن کا دشمن میرا دوست‘ کا فارمولہ پاک امریکہ تعلقات میں خصوصی حیثیت کاحامل رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے ان تعلقات کی استواری اور تسلسل اسی فارمولے کی وجہ سے ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی شروعات کے بارے میں کئی آرا موجود ہیں۔ ہر رائے کسی ایک خاص سیاسی یا مذہبی مکتبہ فکر کے نظریات اور خیالات کی عکاس ہے۔ لیکن اپنے قیام کے فوراً بعد پاکستان کے واضح طور پر امریکہ کی طرف جھکائو کی کئی وجوہات تھیں۔ ان میں پہلی اور بڑی وجہ ظاہر ہے بھارت تھا۔ عالمی سیاست میں پنڈت نہرو کا سوویت یونین کی طرف جھکائو پاکستان کو امریکی کیمپ میں شمولیت کا جواز مہیا کرتا تھا۔ اس وقت پاکستان کی دوسری بڑی اور فوری مجبوری معاشی اور فوجی امداد بھی تھی؛ چنانچہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنا سفارتی نمائندہ امریکہ کی طرف روانہ کر دیا۔ سفارتی نمائندے کے ذریعے ارسال کردہ خط میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے دو ارب ڈالر کی معاشی و فوجی امداد مانگی گئی تھی۔ ان حالات میں ایک نو زائدہ ملک کے لیے یہ ایک خطیر رقم تھی‘ مگر اس وقت کی سرد جنگ کی خوفناک صورت حال میں امریکہ ایسے جیو پولیٹیکل اور جیو سٹریٹیجک حیثیت کے حامل ملک کو منہ مانگی رقم دے سکتا تھا۔ اس امداد کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا ایک سفر شروع ہوا۔ اس سفر میں کئی اتار چڑھائو بھی آئے۔ گاہے تعلقات میں تعطل بھی رہا‘ لیکن مجموعی طور پاکستان اس سفر میں اتنا آگے نکل گیا کہ سیٹو سینٹو تک پہنچ گیا۔ دو بلین ڈالر سے شروع ہونے والی امداد 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں عروج پر پہنچی۔ درمیان میں امداد کی معطلی اور اجرا کا سلسلہ جاری رہا۔ نائن ون ون کے بعد یہ امداد ایک نئے جوش اور نئی توقعات کے ساتھ شروع ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ میں یہ امداد تینتیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے ٹرمپ سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے اور دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کیا اور امداد بند کرنے کی تصدیق کی۔ اس طرح کھربوں ڈالر کی امداد کی یہ کہانی ستر برس بعد ایک افسوس ناک انجام کو پہنچی۔ اس امداد کی بحالی کے امکانات اب کم ہیں؛ تاہم جہاں تک دونوں ملکوں کے تعلق کا سوال ہے تو صدر ٹرمپ اور ان کی سفیر کی غیر معمولی سخت زبانی کے باوجود پاکستان کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اس ٹائی ٹینک کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پاکستان اس سلسلے میں 'میرے دشمن کا دشمن میرا دوست‘ کا رویہ اختیار کرتا ہے یا سفارت کاری کے جدید چینی طریقے اپناتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں