"FBC" (space) message & send to 7575

امن: طاقت یا تفہیم

عظیم دماغ خیالات پر بات کرتے ہیں، اوسط دماغ واقعات پر گفتگو کرتے ہیں، اور چھوٹے دماغ شخصیات پر بحث کرتے ہیں۔ یہ پرانا اور سنا سنایا مقولہ کئی لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان میں یونانی فلاسفر سقراط سے لے کر امریکی سابق خاتون اوّل علینار روزویلٹ تک کئی لوگ شامل ہیں‘ مگر قول کسی کا بھی ہو، اس کے اندر بڑی دانش چھپی ہے۔ جب سے امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کیا ہے‘ اس مقولے کی ترتیب اور معنی کچھ بدل گئے ہیں۔
دنیا کے بڑے بڑے دماغ چھوٹے دماغوں کی طرح شخصیت پر بحث پر مجبور ہیں۔ یہ دماغ اپنا زیادہ تر وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت پر غور کرنے میں گزار رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی دنیا کے بڑے بڑے دماغوں کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں یہ تاثر دے دیا تھا کہ ان کے بارے میں کوئی شخص یقین سے کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ وہ کسی موقع پر اپنی مخالف امیدوار کے خلاف کیا رد عمل دیں گے۔ کسی اعتراض یا تنقید پر ان کا کیا رد عمل ہو گا۔ اپنے کسی حامی یا ووٹر کے سوال کا کیا جواب دیں گے۔ ان سب باتوں کے بارے میں کوئی بھی کسی قسم کی پیش گوئی کا خطرہ نہیں مول لینا چاہتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی گفتگو، انداز گفتگو اور ان کی بدن بولی کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ امریکی اتنے اہم عہدے کے لیے ایسی شخصیت کو منتخب کر لیں گے۔ صرف نوم چومسکی جیسے
چند دانشوروں کو یہ خدشہ تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا کے انتخابی کلچر میں مسٹر پرفیکٹ کا تصور بہت پختہ ہے۔ ان ملکوں میں امیدواروں کے بارے میں عام لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ عام طور امیدواروں کی بہت باریکی سے چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ امیدوار کا ماضی عوامی د ل چسپی اور صحافیانہ کھوج کا مرکز ہوتا ہے۔ ماضی میں امیدوار کا طرز زندگی کیا رہا ہے؟ یہ طرز زندگی اشرافیہ کے طرز زندگی سے مختلف یا متصادم تو نہیں رہا ہے۔ ذاتی زندگی میں اس کا کیا کردار اور کیا اخلاق ہے۔ امیدوار کا بیوی بچوں کے ساتھ کیا سلوک اور رشتہ رہا ہے۔ کیا امیدوار ایک فیملی پرسن ہے؟ امیدوار کا ذریعہ معاش کیا تھا۔ اس نے کاروبار میں کوئی ناجائز یا نامناسب طریقے تو نہیں استعمال کیے۔ اس کا کاروبار اشرافیہ کے طے شدہ کاروباری اخلاقیات کے مطابق تھا یا نہیں۔ امیدوار نے پورے ٹیکس ادا کیے؟ غیر مناسب تجارتی سرگرمیوں سے اجتناب کیا؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے کئی سوالات عوام کے لیے اہم ہیں۔ مگر ان میں سے کسی سوال کا بھی درست جواب ٹرمپ کے لیے سود مند نہ تھا۔ ذاتی زندگی سے کاروباری زندگی تک اس پر کئی اعتراضات تھے۔ کچھ اعتراضات بڑا وزن رکھتے تھے۔ کئی داغ اور دھبے تھے۔ عام روایات کے مطابق کوئی سیاست کار شاید ان اعتراضات کی وجہ سے میدان سیاست میں قدم رکھنے کی جرأت ہی نہ کرتا‘ مگر ٹرمپ نے ان اعتراضات کو ہنسی مذاق میں اڑایا۔ کچھ اعتراضات پر غصے اور حیرت کا اظہار کیا‘ اور چند ایک کے ایسے جوابات دیے جن کی کوئی توقع بھی نہ کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر ٹیکس کی عدم ادائیگی کو اپنی ذہانت اور ہوشیاری قرار دینا وغیرہ۔ ان سب اعتراضات اور ان کے غیر تسلی بخش جوابات کے باوجود ٹرمپ نے وائٹ ہائوس تک اپنا راستہ بنا لیا۔ یہاں قدم رکھتے ہی اس نے دنیا کے بڑے بڑے دماغوں کی توجہ اپنے طرف مبذول کروا لی۔ اپنے غیر متوقع بیانات اور اقدامات کی وجہ سے دنیا کی دل چسپی اور پریشانی کا مرکز بن گئے۔ 
انتخابات کے دوران بہت سارے دانشور اس بات پر متفق تھے کہ منتخب ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے بارے میں انتہائی سخت پالیسی اختیار کرے گا۔ ان کا پہلا بیان مگر ان توقعات کے برعکس تھا۔ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی لوگوں کو تصوراتی حد تک بہترین لوگ قرار دے دیا۔ اس کے بعد ایک سال تک ان کی افغانستان پر پاکستان سے کھلی اور خفیہ سفارت کاری چلتی رہی۔ اس دوران وہ خود اور دیگر امریکی اہلکار پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار اور قربانی کا اعتراف بھی کرتے رہے۔ مگر پھر اچانک نئے سال کی صبح موصوف نے ایک بیان داغ دیا۔ یہ بیان دو دھاری تلوار کا وار تھا۔ ایک طرف اس نے ان امریکی رہنمائوں کو احمق قرار دیا جو گزشتہ پندرہ سال سے امریکہ کی پاک افغان پالیسی بنانے اور اس پر فیصلے کرنے کے مجاز تھے۔ اس کے خیال میں یہ ان لوگوں کا احمقانہ پن تھا کہ انہوں نے 33 بلین ڈالر کی خطیر رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں پاکستان کو ادا کی۔ دوسری طرف اس نے پاکستانی پالیسی سازوں اور رہنمائوں کو جھوٹ اور دھوکہ دہی کا مرتکب قرار دیا، جنہوں نے ٹرمپ کے خیال میں اس رقم کے عوض کچھ نہیں کیا تھا۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ پر گہری نظر رکھنے والوں کی رائے تھی کہ یہ کوئی بڑا سنجیدہ اعلان نہیں ہے۔ امریکی صدر اتنا بڑا اور نازک اعلان ٹویٹر پر کیسے کر سکتا ہے۔ یہ اعلان ایک اعلان ہی رہے گا اور امریکہ اس باب میں کوئی عملی اقدامات نہیں کرے گا۔ مگر آنے والے دنوں میں امریکی وزیر خارجہ، اقوام متحدہ میں اس کے نمائندوں اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمانوں نے صدر ٹرمپ کی اس معاملے میں سنجیدگی کی تصدیق کر دی۔ اس تصدیق کے بعد اب سنجیدہ سوال یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ حسب سابق اس سوال پر بھی انہوں نے خاموشی اور رازداری کی پالیسی برقرار رکھی۔ دوسری طرف امریکی عہدے داروں نے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں یہ واضح کیا کہ امداد مشروط طور پر معطل کی گئی ہے‘ اور ان شرائط کے پورے ہونے پر یہ امداد بحال کی جا سکتی ہے۔ جواب میں پاکستان کی فوجی اور سول قیادت نے امریکیوں کو بتایا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے، اور اب اس سلسلے میں مزید کوئی شرط پوری نہیں کی جا سکتی۔ تب سے دونوں طرف سے خاموشی ہے، مگر پس پردہ سفارتکاری جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعطل ختم نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو مشکل صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکہ دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے بہانے پاکستان کے اندر ڈرون حملے کر سکتا ہے، یا پھر افغانستان اور بھارت کے ذریعے ان ٹھکانوں پر حملہ کروا سکتا ہے۔ 
خارجہ پالیسی پر صدر ٹرمپ کا یہ اضطراری انداز صرف پاکستان کے بارے میں ہی نہیں تھا۔ شمالی کوریا پر وہ ایک قدم آگے تھے۔ نیوکلیئر بٹن کے ذکر پر وہ ہیجان کا شکار ہو گئے‘ اور کورین لیڈر کو اس سے بڑے اور خوفناک بٹن پر انگلی رکھنے کی دھمکی دے دی۔ اگرچہ بعد ازاں پُراسرار خاموشی اختیار کر لی۔ حالانکہ کئی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ شمالی کوریا کی تمام اہم لیڈرشپ کی موت اور ان کے کئی بڑے شہروں کو ملیامیٹ کرنے کا منصوبہ ترتیب دے چکے ہیں۔ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کے سوال پر بھی ان کی پالیسی ڈھل مل کا شکار ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے اور پھر جاری رکھنے کا عمل اسی کیفیت کا مظہر ہے۔ یروشلم کو لے کر فلسطینیوں کی امداد بند کرنے کے اعلان کے بعد ایک بار پھر وہ فلسطینی رہنمائوں کے ساتھ خاموش سفارت کاری میں مصروف ہیں۔ پاکستان ،کوریا، ایران اور فلسطین کے ساتھ صدر ٹرمپ کے سلوک سے یہ بات عیاں ہے کہ وہ گاجر اور چھڑی کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ناقابل پیش گوئی شخص ہیں اور ایسا رہنا پسند کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بات صدر ٹرمپ کے ایک پڑوسی اور قریبی حلیف کی حیثیت سے اپنے تجربے کی روشنی میںکہی ہے۔ صدر ٹرمپ کا مقصد اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو انہیں دنیا کے لیے قابلِ پیشین گوئی اور قابل اعتماد بننا ہو گا۔ دولت اور طاقت کا دبائو کم کرنا ہو گا۔ آئن سٹائن نے بہت پہلے کہا تھا، اور کیا خوب کہا تھا، امن طاقت سے نہیں، تفہیم سے قائم ہوتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں