انسان سماجی جانور ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے یونانی فلسفی ارسطو نے یہ بات اپنی کتاب سیاست میں بڑی وضاحت سے لکھ دی تھی۔ اس نے لکھا کہ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اسے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھل مل کر رہنا پڑتا ہے‘ اور سماج فرد سے مقدم ہے۔ مل جل کر رہنے کی خواہش نے انسانوں کو خاندان اور قبائل کی شکل میں متحد کیا۔ یہ سلسلۂ عمل تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف شکلوں سے گزرتا ہوا ریاست پر منتج ہوا۔ جس دن سے انسان ریاست کی عملداری میں آیا، اسی دن سے اس کا ریاست کے ساتھ تضاد بھی پیدا ہو گیا۔ یہ تضاد معاشی، سیاسی اور سماجی تھا؛ چنانچہ پہلے دن سے ہی ریاست اور فرد کے درمیان حقوق و فرائض کی بحث چل پڑی۔
ریاست اور فرد کا کیا تعلق ہے۔ انسانی حقوق کے باب میں ریاست کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں؟ دانشور اور فلسفی برسہا برس تک اس بحث میں الجھے رہے۔ پھر یہ بحث فلسفے کی دنیا سے نکل کر عام آدمی تک پہنچی۔ رفتہ رفتہ ریاستوں اور حکومتوں نے سرکاری سطح پر انسان کے بہت سارے سیاسی سماجی اور معاشی حقوق کو تسلیم کر لیا۔ عالمی سطح پر اس کا متفقہ اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے ہوا۔ 10 دسمبر 1948کو اقوام متحدہ نے پیرس میں انسانی حقوق کا تاریخی اعلامیہ جاری کیا۔ یہ اعلامیہ معاشی و سیاسی نظریات کی بنیادوں پر تقسیم شدہ دنیا نے تقریباً متفقہ طور پر تسلیم کیا۔ اس اعلامیے کی ابتدا میں ہی تسلیم کیا گیا کہ انسان فطری وقار اور ناقابل انتقال حقوق رکھتا ہے۔ یہ حقوق آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہیں‘ اور ان کی حفاظت قانون کی حکمرانی کے ذریعے لازم ہے۔ اعلامیے میں مانا گیا کہ ہر انسان اپنی زندگی، آزادی اور تحفظ کا حق رکھتا ہے۔ اس حق کی وجہ سے کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی کو غیر قانونی طور پر گرفتار، قید، جلاوطن نہیں کیا سکتا۔ ہر کسی کو ایک آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں اپنے دفاع کا حق ہے۔ ہر کسی کو پُرامن جلسے، جلوس اور تنظیم سازی کی آزادی ہے۔ قانون کی نظر میں سب انسان برابر ہیں‘ اور قانون کی طرف سے مساوی تحفظ انسان کا حق ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے، مذہبی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی انسان کا حق ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراداد نمبر 217 کے تحت یہ اعلامیہ جاری کرکے وہ تمام حقوق تسلیم کر لیے، جس کے لیے بنی نوع انسان نے ہزاروں سال تک، خواب دیکھے تھے، جہدوجہد کی تھی۔ انسانی حقوق کے اس اعلامیے کے آرٹیکل نمبر 25میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ہر آدمی ایک ایسے معیارِ زندگی کا حق دار ہے، جہاں اس کو اور اس کے خاندان کو روٹی، کپڑا، مکان اور صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ اس طرح اس اعلامیے کے معاشی حقوق کا کچھ حصہ اشتراکی ممالک اور سیاسی حقوق کا کچھ حصہ مغرب کی آزاد جمہوریتوں نے کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کر لیا۔ یہ عام آدمی کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ایک سنجیدہ عالمی فورم پر دنیا بھر کی ریاستوں کے سرکاری نمائندوں نے ایک ایسی قرارداد کے حق میں ووٹ دیے، جس میں انسان کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کو اتنے واضح، واشگاف اور دو ٹوک انداز میں تسلیم کیا گیا تھا۔ آنے والے دنوں یعنی پچاس اور ساٹھ کی دھائی میں دنیا کی کئی ریاستوں نے انسانی حقوق کے اس عالمی منشور کی روشنی میں کئی اقدامات کیے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس عرصے میں شخصی اور آمرانہ حکومتوں کی وجہ سے انسانی حقوق کے اس عظیم اعلامیے کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ آمریتوں کے بیشتر ادوار میں بنیادی حقوق معطل رہے۔ بالآخر طویل مدت بعد، پہلی منتخب عوامی حکومت نے 1973 کے آئین میں انسانی حقوق کے اس عالمی منشور کو بڑی حد تک جگہ دی‘ اور بیشتر بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق‘ جو اس عالمی اعلامیے میں درج تھے، کو آئین میں شامل کر لیا گیا۔ معاشی حقوق آئین میں شامل تو نہ ہوئے، مگر ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو عوامی نعرے کی شکل میں ملک کے طول و عرض میں متعارف کرا دیا۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کے پیچھے اگرچہ مارکسسٹ اور مائواسٹ فکر کار فرما تھی، مگر یہ نعرہ اقوامِ متحدہ کے اس اعلامیے کے آرٹیکل پچیس کی روح کے عین مطابق تھا۔ اس کے بعد آنے والی طویل آمریتوں کے دور میں بیشتر اوقات بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر پابندی رہی۔ جمہوری اور سیاسی حقوق کو سلب کیا جاتا رہا۔ معاشی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ اس عمل میں پاکستان معاشی پسماندگی اور سماجی فرسودگی کا شکار ہو گیا۔ یہاں طبقاتی تقسیم بہت گہری ہو گئی۔ ایک طرف بے تحاشا مال و دولت اور جاگیروں کا مالک طبقہ اشرافیہ ابھرا، اور دوسری طرف بھوکے، ننگے، بیروزگار بدحال عوام کا ایک ہجوم، جن کا کوئی پُرسان حال نہیں۔
پاکستان میں اگر اقوام متحدہ کے اس اعلامیے کے آرٹیکل پچیس کو بنیاد بنا کر معیارِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو نتائج زیادہ خوشگوار نہیں نظر آتے۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں سرِ فہرست خوراک ہے۔ پاکستان میں قحط سالی نہیں، خوراک کی شدید قلت بھی نہیں۔ مگر دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے خوراک تک سب کی رسائی بھی نہیں۔ آبادی کا ایک حصہ ایسا ہے جسے ضرورت کی کم از کم خوراک بھی میسر نہیں، اور ایک حصہ فاضل پیداوار کا مالک ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 37 ملین سے زائد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لیے جو کچھ میسر ہے، اسے خوراک نہیں کہا جا سکتا۔ اب عالم یہ ہے کہ ایک طرف فاضل خوراک موجود ہے‘ اور دوسری طرف لاکھوں انسان ہیں، جو بھوک کا شکار ہیں، یا مضرِ صحت خوراک کھانے پر مجبور ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بچے متاثر ہو رہے ہیں، اور عورتیں خون کی کمی کی وجہ سے کئی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ خوراک سے بھی زیادہ اہم اور ناگزیر ضرورت پانی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آبادی کی ایک بڑی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آبادی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے‘ اگلے دس سالوں بعد مسئلہ یہ نہیں ہو گا کہ پانی صاف ہے یا گندا، مسئلہ یہ ہو گا کہ پانی کہاں سے، کیسے، اور کس قیمت پر حاصل کیا جائے، یہ ایک خوفناک صورت ہو گی۔ پاکستان میں آبرودار رہائش یا محفوظ پناہ گاہ کا مسئلہ بھی کم گمبھیر نہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً بیس ملین لوگ بے گھر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو باقاعدہ بے گھر ہیں‘ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، جن کو بے گھر تو نہیں سمجھا جاتا، مگر وہ مضر صحت یا ناقابلِ رہائش جگہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ایسی رہائش گاہیں‘ جن میں باد کشی کا انتظام نہیں، اور طبی نقطۂ نظر سے جو قابل بود و باش نہیں۔
پاکستان میںصحت کا قصہ اس بھی زیادہ دردناک ہے۔ اس محاذ پر حکومتوں کی کارکردگی ناقص رہی ہے۔ صحت کے باب میں ملک کی کم خوش قسمت آبادی کو بہت بے رحمی سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ غربت، بھوک اور بیماری کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں 39 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ اس طرح یہ تقریباً 60 ملین لوگ ہیں جو غریب ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد دیہی علاقوں میں آباد ہے، جہاں ان کو صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں۔
اس طرح اقوام متحدہ نے کم از کم انسانی معیارِ زندگی کے لیے جن ضروریات کو لازمی قرار دیا ہے، پاکستان میں حکومتیں ان میں سے کوئی ایک بھی پوری کرنے میں نا کام رہی ہیں۔ ان حالات میں ضرورت ایک ایسی سیاسی قوت کی ہے‘ جو روٹی، کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم جیسی پانچ لازمی ضروریات کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کرنے کا مطالبہ کرے۔ ان ضروریات کو بنیادی انسانی حقوق قرار دینے سے ریاست قانونی طور پر ان ضروریات کو پورا کرنے کی پابند ہو جاتی ہے۔ غربت و افلاس کے گرداب سے باہر نکلنے کا یہی ایک راستہ ہے۔