"FBC" (space) message & send to 7575

تاریخ بدلنے والے فیصلے

جج خود نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ یہ ایک پرانی کہاوت ہے۔ مگر یہ کہاوت آج دنیا بھر کی عدلیہ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ اس اصول کا مقصد ججوں کی غیر متنازعہ حیثیت اور احترام کو برقرار رکھنا ہے۔ اسی اصول کے تحت فیصلے اس طریقے سے لکھے جاتے ہیں کہ ان میں کوئی ابہام نہ ہو، کسی قسم کی وضاحت کی حاجت نہ ہو۔ اس طرح فیصلہ لکھنے کے بعد ججوں کو اپنے فیصلے کے دفاع یا ان کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ ججز اپنے فیصلے عوام کی رائے سے متاثر ہو کر نہیں، قانون کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان سے یہ بھی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ذاتی مفادات، خیالات اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر فیصلے کریں۔ اس لیے کسی فیصلے کی وجہ سے جج کی ذات پر تنقید کو غلط اور نامناسب سمجھا جاتا ہے۔ مگر خود فیصلے کی بات دوسری ہے۔ فیصلہ صادر ہونے کے بعد عوامی ملکیت بن جاتا ہے۔ اس پر عوام رائے دیتے ہیں۔ تنقید کی جاتی ہے۔ تبصرے ہوتے ہیں۔ کالم اور اداریے لکھے جاتے ہیں۔ لاء سکولوں اور عدالتوں میں ان پر گفتگو ہوتی ہے۔ اس سلسلۂ عمل میں ہر فیصلہ اپنی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے سماج اور تاریخ میں اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ 
کچھ فیصلے قوموں اور ملکوں کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیتے ہیں‘ اور اپنے اثرات کے اعتبار سے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ آنے والی کئی نسلوں تک ان پر بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں اس کی ایک بڑی مثال مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ ہے۔ مولوی تمیزالدین کیس پاکستان کی آئینی، سیاسی اور عدالتی تاریخ کا اہم ترین کیس ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس کہانی کا آغاز 1953 سے ہوتا ہے، جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹا کر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنا دیا۔ خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا، اس کے باوجود ان کو ہٹا دیا گیا۔ آئندہ کسی ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اس قانون ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا۔ اس بل کے تحت چونکہ گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی؛ چنانچہ گورنر جنرل اور اسمبلی کے درمیان اختلافات بڑھ گئے، اور گورنر جنرل نے قانون ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیزالدین اس وقت اس اسمبلی کے صدر تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں ایک جاندار اور خوبصورت فیصلہ دیا، اور گورنر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ جسٹس منیر اس وقت فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا گیا‘ اور گورنر جنرل کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا۔
فیصلے کے حق میں جسٹس منیر کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان ابھی تک ایک مکمل آزاد ریاست نہیں، بلکہ ڈومینین ہے؛ چنانچہ اقتدار اعلیٰ، تاج برطانیہ کے پاس ہے‘ اس لیے قانون ساز اسمبلی کے پاس اقتدارِ اعلیٰ نہیں، بلکہ گورنر جنرل کے پاس ہے، جو کرائون کا نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس قانون ساز اسمبلی کے اراکین یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ ان کے پاس ہے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ فیصلے کے لیے جسٹس منیر نے قدیم رومن، انگلش اور کامن لاء کے اصولوں کو استعمال کیا۔ ان میں بریکٹن میکسم یعنی اصول سرِ فہرست تھا۔ اس اصول کے مطابق جو کچھ قانونی نہیں ہے، وہ ضرورت کے وقت قانونی ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گورنر کے اقدام کو نظریۂ ضرورت کے مطابق قانونی سمجھا جا سکتا ہے۔ دوسرا میکسم یا اصول انہوں نے جیننگ سے لیا۔ اس اصول کے مطابق دنیا میں سب سے بڑا قانون عوام کی بہبود کا قانون ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان میں نظریۂ ضرورت کا آغاز باقاعدہ قانونی اصول کے طور پر ہوا، جو آنے والے برسوں میں تسلسل سے جمہوریت کے خلاف اور آمریت کے حق میں استعمال ہوتا رہا۔ اس فیصلے کے صرف تین سال بعد ایوب خان کے مارشل لاء کو اس قانون کے تحت درست قرار دیا گیا۔ اس کیس میں جسٹس منیر کو ہی دوبارہ نظریۂ ضرورت اور اس کی تشریح کا موقع میسر آیا۔ اس میں انہوں نے مزید واضح کیا کہ ایک کامیاب اندرونی بغاوت آئین کو بدلنے کا قانونی طریقہ ہے۔ اس کے بعد جب جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، تو اسی اصول اور نظیر کے تحت جنرل ضیا کے اقدام کو جائز قرار دیا گیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف کے مارشل لاء میں بھی یہی نظریۂ ضرورت یا قانونی اصول کام آیا۔ جسٹس منیر کے پاس مولوی تمیزالدین کیس میں رہنمائی کے لیے کوئی مقامی نظیر نہیں تھی۔ آئین و قانون میں ایسے کوئی واضح رہنما اصول نہیں تھے؛ چنانچہ اس فیصلے کے لیے انہوں نے دو قدیم رومن میکسم یا اصول استعمال کیے۔ دنیا کے کئی بڑے ماہر قانون اور جیورسٹ یہ مانتے ہیں کہ یہ دونوں اصول دو دھاری تلوار کی طرح ہیں۔ ان کو ایک مقدمے میں دونوں طرف کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان کا رخ کس طرف موڑتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کس چیز میں ہے؟ مختلف صورتحال میں اس کے مختلف جواب ہیں۔ عوام کی بہبود اس بات میں مضمر ہے کہ اختیارات ان کی منتخب شدہ اسمبلی کے پاس ہوں؟ یا پھر عوام کی بہبود اس بات میں ہے کہ عوام کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار ایک غیر منتخب شدہ فردِ واحد کے پاس ہو۔ اور نظریۂ ضرورت بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ عوام کے مفاد میں بھی استعمال ہو سکتا ہے‘ اور مقتدر قوتوں کی طاقت بھی بن سکتا ہے۔ اس وقت قدیم رومن اور انگلش لاء سے کئی ایسے میکسم موجود تھے جو طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دیتے تھے۔ کامن لاء میںکئی ایسی قانونی نظیریں اور تسلیم شدہ ضابطے بھی موجود تھے‘ جو ایک اسمبلی کو فردِ واحد پر ترجیح دینے کی بات کرتے تھے۔ ایسی کسی نظیر یا اصول کو بروئے کار لا کر پاکستان میں ہمیشہ کے لیے آمریت کا راستہ بند کیا جا سکتا تھا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا جو ضائع کر دیا گیا۔ 
اس فیصلے پر کئی مقامی اور عالمی قانون دانوں اور لکھاریوں نے کڑی تنقید کی۔ ایلن میک گراتھ سمیت کئی غیر ملکی مصنفین نے جسٹس منیر کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس فیصلے نے پاکستان کی آئینی بنیادوں کو تباہ کر دیا تھا۔ اس نے اسمبلی کے اختیارات کا انکار تو کر دیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ نہیں بتایا کہ اگر اختیارات اسمبلی کے پاس نہیں تو کس کے پاس ہیں؟ اس فیصلے سے ایک واضح خلا پیدا ہوا‘ اور اس خلا کو گورنر غلام محمد نے اپنے حق میں استعمال کیا اور طاقت پر قبضہ کر لیا۔ یہ پاکستان کے اقتدار پر نوکر شاہی کا پہلا قبضہ تھا۔ اس میں ان کو عسکری قیادت کی واضح حمایت حاصل تھی، جس کی تصدیق بعد میں جنرل ایوب خان نے انیس سو باسٹھ میں پریس کانفرنس میں کی۔ مولوی تمیزالدین کیس کے اس فیصلے سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے تصورات کو سخت دھچکا لگا۔ آنے والے وقتوں میں اس فیصلے سے عدلیہ کو غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومتوں کے حق میں فیصلے کرنے کا جواز مل گیا‘ اور نظریۂ ضرورت کئی بار نا صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت کے قتل کے لیے استعمال کیا گیا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ خود جسٹس منیر نے اپنی کتاب ہائی وے اینڈ بائی وے آف لائف میں یہ تسلیم کیا کہ ان کے اس فیصلے کو ملک کی بدنصیبی کا آغاز کے طور پر دیکھا گیا۔ اگرچہ دیر سے سہی، مگر خوش قسمتی سے عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کا راستہ خود ہی ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ اس کا مگر یہ مطلب نہیں اب جمہوریت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کئی ملکوں میں جمہوریت رو بہ زوال ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ آمریتیں نئے روپ اور نئی شکلوں میں سامنے آ رہی ہیں۔ آمریت کی نئی شکلوں سے آگہی رکھنا، اور ان سے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔


 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں