یہ دنیا‘ جس میں ہم رہتے ہیں، واقعی ایک گائوں بن گیا ہے۔ ایک عالمی گائوں۔ اس دنیا کو گلوبل ولیج بنانے کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ان میں ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ انٹرنیٹ ہے‘ اور اب سوشل میڈیا بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے اس گائوں کی کئی ایک بیٹھکیں بھی بنا دی ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں رونما ہونے والا کوئی چھوٹا موٹا واقعہ، ان بیٹھکوں کے ذریعے پلک جھپکنے میں ہم تک پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح انسان بہت قریب آ گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں کوئی حادثہ رونما ہو‘ کوئی ناانصافی ہو‘ ظلم ہو، یا پھر اچھی خبر ہو، ہم اسے اسی طرح سنتے اور دیکھتے ہیں، جیسے وہاں بیٹھے ہوئے لوگ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس صورت حال کو اس طرح محسوس بھی کرتے ہیں، جس طرح اس کا شکار ہونے والے لوگ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ میرے خیال میں آگہی کے اس دور میں انسانی بے حسی میں بہت بڑا ضافہ ہوا ہے۔ مردہ دلی بڑھی ہے۔ لاتعلقی پیدا ہوئی ہے۔ یہ جو مادی ترقی ہم نے کی ہے، اس کی بہت بڑی قیمت بھی ادا کی ہے۔ ہم ترقی کی دوڑ میں کود گئے۔ یہ دوڑ ایک دوسرے کے ساتھ ہے، اور ایک دوسرے کے خلاف بھی۔ ہم ایک دوسرے کے برابر ہونے یا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دھن میں بے تحاشا دوڑ رہے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم تقریباً اندھے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو غور سے نہیں دیکھ سکتے۔ آگے نکلنے کی دوڑ میں مبتلا ہم لوگ، ہر قسم کی بصیرت اور بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہمیں وہ کچھ نظر نہیں آتا، جو ہمیں نظر آنا چاہیے۔ ہم اپنے اردگرد کی تمام خوبصورتیوں اور بدصورتیوں سے بے نیاز ہوتے جا رہے ہیں۔ اس خوفناک اور بے معنی دوڑ میں اگر کبھی ہمیں چند لمحوں کی فرصت میسر آئے‘ اور ہم تھوڑی دیر رک کر اپنے گرد و پیش پر ایک نگاہ ڈالیں، تو ہمیں حیرت اور افسوس ہوتا ہے۔ ہم اس حیرت اور افسوس کے درد ناک عمل سے بچنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم رکتے نہیں۔ رک کر دیکھتے نہیں، سوچتے نہیں۔ مگر 'لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے‘ کے مصداق، کبھی کبھی ہمارے گرد و نواح کے خوفناک حقائق ہمیں اس شدت سے پکارتے ہیں کہ ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ایسی ہی ایک خوفناک حقیقت اس دنیا کی غربت ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہمارے اس عالمی گائوں میں اسی فیصد لوگوں کی آمدنی دس ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔ عالمی کساد بازاری اور کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں دس ڈالر سے زندگی کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ گویا دنیا میں صرف دس فیصد لوگ آسودہ حال ہیں۔ باقی ماندہ اسی فیصد زندگی کی گاڑی کو گھسیٹنے پر مجبور ہیں۔ یہ تو حال کی بات ہے۔ مستقبل کی تصویر بھی کوئی زیادہ خوشنما نہیں۔ دنیا کی آبادی کے اسی فیصد لوگ ایسے ملکوں میں آباد ہیں، جہاں آمدنی کے فرق میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امیر روز بروز امیر تر، اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہمارے اڑوس پڑوس میں رہتا ہے۔ گویا دنیا میں سب سے زیادہ غربت ہمارے اردگرد موجود ہے۔ چین ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو غربت سے باہر نکالتا ہے۔ مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق آج بھی ستر ملین سے زیادہ چینی ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں چین کے بعد بھارت دوسرا ملک ہے، جو تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ مگر آج بھی ستر فیصد سے زائد بھارتی آدھا ڈالر فی یوم گزارا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی غربت خوفناک شکل میں موجود ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت ستر فیصد تک بھی پہنچتی ہے۔ بعض علاقوں میں ہر چار میں سے تین لوگ غریب ہیں۔ پہلے بھی کہیں عرض کیا تھا، مکرر عرض کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فرق برق رفتاری سے بڑھ رہا ہے‘ اور بد قسمتی سے پالیسی سازوں کے زیر غور ایسا کوئی منصوبہ نہیں، جو اس عظیم خلیج کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ در حقیقت اس حوالے سے آج تک کسی بھی سنجیدہ فورم پر کوئی سنجیدہ بحث تک نہیں ہوئی۔ حکمران کبھی کبھار عوامی جلسوں میں غربت کا ذکر کر دیتے ہیں، مگر اس پیرائے میں کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ عام لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اگر غربت ختم نہ ہوئی تو انقلاب آ جائے گا۔ گویا غربت ختم کرنے کا اختیار اور وسائل عوام کے پاس ہیں‘ اور عوام ہی غربت ختم کرنے کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ ان نا گفتہ بہ حالات میں غریب کے پاس مستقبل کی کوئی ایسی امید بھی نہیں، جس کے سہارے وہ زندگی کی سختیوں کو جھیل سکے۔ دنیا میں دولت کی تقسیم خوفناک حد تک غیر منصفانہ ہے۔ صرف بیس فیصد لوگ دنیا کی کل دولت کے تیسرے حصے کے مالک ہیں‘ اور دنیا کی چالیس فیصد آبادی کے پاس اس دولت کا صرف پانچ فیصد حصہ ہے۔ دنیا میں ہزاروں بچے روزانہ غربت کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا میں تقریباً تیس فیصد بچے کم خوراکی اور بیماری کا شکار ہیں۔ خواندگی کے حوالے سے صورت حال اور بھی مایوس کن ہے۔ دنیا میں ایک بلین لوگ ایسے ہیں جو دستخط نہیں کر سکتے، یا کتاب نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ صحت کی بنیادی سہولیات سے محرومی بھی ہماری اس دنیا کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ دنیا میں چالیس ملین لوگ ایڈز جیسی مہلک مرض کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف سال دو ہزار سترہ میں ایڈز اور اس سے جڑی ہوئی بیماریوں سے ایک ملین لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ ان میں سے اکثریت غریب لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ غریب ملکوں میں آباد ہیں۔ ایڈز کے علاج کی مہنگی ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہر سال تین سو سے پانچ سو ملین تک لوگ ہماری اس دنیا میں ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔ تیسری دنیا میں ایک بلین کے قریب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ دو بلین کو صفائی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ تیسری دنیا کی کل آبادی کا نصف حصہ پینے کے صاف پانی اور صفائی کی بنیادی ضروریات سے محرومی کی وجہ سے کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ یہ محرومیوں، مصیبتوں اور ناانصافیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ اس داستان کی وجہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، غیر منصفانہ تقسیم اور غیر مساوی مواقع ہیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم اور سب کو مساوی مواقع کی فراہمی کے لیے عالمی سطح پر بنیادی تبدیلیوں اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مگر ایسا ہونے تک دنیا میں جو دولت غیر ضروری کاموں میں خرچ کی جاتی ہے، اگر اس کا نصف بھی انسانی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے خرچ کیا جائے، تو صورت حال میں خاطر خواہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا میں جتنا پیسہ صرف اسلحہ پر خرچ کیا جاتا ہے، اگر اس کا صرف ایک فیصد ہی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو ہماری اس دنیا کا ہر بچہ سکول جا سکتا ہے۔ ایک طیارے پر جتنا خرچہ آتا ہے، اس سے ایک یونیورسٹی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس تناسب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر اس دولت کا حساب لگایا جائے، جو جنگی ساز و سامان اور تیر و تفنگ خریدنے پر خرچ کی جاتی ہے، تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ایک طرف دولت کا یہ ضیاع اور دوسری طرف غربت اور پسماندگی کی حد دیکھ کر انسان حیرت اور صدمے سے سوچتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ انسان کا مقدر ہے، یا اس کے مقدر کی ڈور غلط لوگوں کے ہاتھوں میں ہے؟ امریکی مصنف اور شہری آزادیوں کے پُر جوش پرچارک فیڈرک ڈگلس نے کہا تھا کہ جہاں نا انصافی ہو، غربت ہو، جہالت کا راج ہو، جہاں کوئی ایک طبقہ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو کہ سماج ایک منظم سازش ہے، جس کا مقصد انہیں لوٹنا، ان کو دبانا اور ان کی رسوائی کرنا ہے، وہاں کوئی انسان‘ کوئی جائیداد محفوظ نہیں ہوتی۔