یہ ایک المناک رپورٹ ہے۔ مگر اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان میں لوگ ایسی المناک خبروں کے عادی ہیں۔ بلکہ ایک بڑی تعداد کو اس میں کوئی المناکی یا خبر والی بات ہی نظر نہیں آتی۔ ان کے خیال میں یہ ایک عام سی بات ہے۔ رسم و رواج اور روایات کی روشنی میں قابلِ قبول حرکت ہے۔ رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کے خلاف سخت قانون سازی اور سزائوں کے باوجود، ان جرائم میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں ہوئی۔ اس موضوع پر سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹوں میں، ظاہر ہے حسبِ سابق، صرف وہ قتل شامل ہیں‘ جو منظر عام پر آئے، یا کسی نے رپورٹ کیے۔ دانشور اور محقق بڑے پیمانے پر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں غیرت کے نام پر سینکڑوں جرائم ایسے ہوتے ہیں، جو سامنے ہی نہیں آتے۔ ایسے جرائم یا تو دبا دئیے جاتے ہیں۔ یا پھر پنچایتوں کے ذریعے طے کرنے کے بہانے چھپا دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ قتلوں کو بیماری، حادثے یا خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل، ہمارے پیش کردہ اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہیں، اصل تعداد کی بحث ہی غیر ضروری ہے۔ اصل چیز اس جرم کی نوعیت اور سنگینی ہے۔ آج کے دور میں اس نوعیت کا کوئی ایک واقعہ بھی تہذیب و تمدن کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ قانون کے لیے مسئلہ ہے۔ آج بھی یہ جرم پاکستان میںکہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے۔ مگر اس جرم سے زیادہ شرمناک بات، اس جرم پر ہونے والا رد عمل ہے۔ انسان حیرت اور صدمے سے سوچتا ہے کہ ہمارے ہاں اکیسویں صدی میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو یا تو اس گھنائونے قتل کو جرم ہی نہیں سمجھتے، یا پھر کسی نہ کسی طریقے سے اس کا جواز ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے ہیں، جن میں پورے پورے گائوں اپنی پنچایتوں کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل یا اس سے ملتے جلتے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ، اس وحشیانہ عمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس کے لیے جو جواز پیش کرتے ہیں‘ ان میں روایات اور ثقافت سر فہرست ہیں۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ ہماری روایات ہیں۔ اور اس طرح جاہلانہ رسومات اور وحشیانہ رواجوں کو مقدس روایات قرار دے کر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جہاں تک روایات کا تعلق ہے، تو وحشت و بربریت سے تہذیب و تمدن تک کا انسانی سفر بڑا طویل اور پیچیدہ ہے۔ یہ سفر صدیوں پر محیط ہے۔ اس طویل سفر کے دوران انسان کا طرح طرح کی رسوم و رواج اور روایات سے پالا پڑا۔ ان میں سے کئی روایات انتہائی وحشیانہ، ظالمانہ اور غیر انسانی تھیں۔ انسان نے رفتہ رفتہ تہذیب سیکھی۔ جو رسم و رواج اور روایات غیر اخلاقی اور غیر مہذب تھیں، ان سے وقت کے ساتھ چھٹکارہ حاصل کیا۔ غیرت کے نام پر قتل کسی ایک مذہب یا تہذیب سے مختص نہیں ہے۔ قدیم رومن تہذیب میں بھی یہ رسم موجود تھی۔ اس تہذیب میں خاندان کا کوئی بزرگ یا طاقت ور مرد یہ اختیار رکھتا تھا کہ وہ کسی ایسی لڑکی کو قتل کر دے، جس نے شادی کے بغیر کسی سے جنسی تعلق قائم کیا ہو۔ خاندان کے مرد کے پاس ایسی شادی شدہ عورت کو قتل کرنے کا اختیار ہوتا تھا جس نے خاوند کے علاوہ کسی سے جنسی تعلق رکھا ہو۔ قرونِ وسطیٰ کی یورپی تہذیب میں بھی اس طرح کے رواج موجود تھے۔ اس وقت کے یہودی قوانین، زنا کار بیوی اور اس کے ساتھی کو سنگ باری کے ذریعے سزائے موت دیتے تھے۔ عرب دنیا میں غیرت کے نام پر قتل اسلام سے پہلے کی عام رسم تھی۔ اسلام کے بعد بھی، قبل از اسلام کے بیشتر رسوم و رواج کی طرح بعض عرب علاقوں اور قبائل میں اس رسم کو جاری رکھا گیا۔ بعض عرب علاقوں میں تو یہ رسم موجود تھی کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بعد قاتل مقتول کا لہو اپنے کپڑوں پر چھڑکتا تھا، اور فخر سے آلۂ قتل لہراتے ہوئے سڑکوں پر پریڈ کیا کرتا تھا۔ گویا یہ رسم کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب و تمدن میں موجود رہی ہے۔ یہ رسم اسی طرح چلتی ہوئی برصغیر میں بھی آ گئی۔ خوش قسمتی سے سماجی اور تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان نے ایسی بے شمار رسوم کو ترک کیا، جو بڑھتے ہوئے علم و شعور کی روشنی میں ناپسندیدہ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار پائیں۔ اس طرح مغربی، کچھ مشرقی اور لاطینی ممالک سمیت دنیا کے بیشتر ممالک سے یہ رسم ختم ہو گئی۔ مگر بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں میں یہ رسم اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
ان علاقوں میں اس رسم کے جاری رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رسم و رواج کے علاوہ غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کا کچھ لوگ مذہبی جواز بھی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں بہت سارے معاملات میں رسم و رواج اور مذہب کو آپس میں اس طرح گڈ مڈ کر دیا گیا ہے کہ، یہ رسم رواج بظاہر مذہب کا حصہ لگتے ہیں۔ عربوں کے اندر ابھی تک جو قبل از اسلام یا زمانۂ جہالت کی رسومات مروج ہیں، ہمارے کچھ لوگ ان رسومات کو بھی مذہب کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ ایسا کچھ ایسے پسماندہ ملکوں میں زیادہ ہے، جہاں جہالت بہت زیادہ ہے، خواندگی کی شرح کم ہے اور معاشی و سماجی پسماندگی انتہائوں پر ہے۔ تشدد اور خانہ جنگی جیسی صورت حال ہے۔ ان میں ایتھوپیا، صومالیہ جیسے ملک شامل ہیں۔ تہذیبی ترقی کے سفر میں یہ ممالک ابھی تک پندرہویں صدی میں کھڑے ہیں‘ جہاں ابھی تک وحشت ننگا ناچ ناچتی ہے۔ جہاں انسانی خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ جہاں کسی قسم کی کوئی اخلاقی قدریں موجود نہیں۔ جہاں کوئی ادارے نہیں، انصاف اور قانون نہیں۔ جہاں ابھی تک جنگل کا راج ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کے تحت جس کے پاس اسلحہ اور افرادی قوت ہے اسی کا حکم چلتا ہے۔ جہاں صدیوں پرانی قبائلی جنگ جاری ہے، جس کو وہ مذہب، روایات اور جانے کس کس کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے، جہاں حالیہ برسوں کے دوران غیرت کے نام پر قتل ایک بڑے سماجی اور قانونی مسئلے کے طور پر زیر بحث رہا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اس پر بہت گفتگو ہوئی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ملک کی سول سوسائٹی کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے؛ چنانچہ حالیہ برسوں کے دوران یہاں پر غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کافی سخت رد عمل ہوا‘ جس کے نتیجے میں متعلقہ قوانین میں زبردست ترامیم ہوئیں۔ اس جرم کے خلاف بہت سخت قوانین اور سزائیں متعارف کرائی گئیں۔ یہ ایک نمایاں قدم تھا۔ ریاست کی طرف سے اس بات کا برملا اعتراف تھا کہ یہ جرم ہمارے ہاں عام ہے، مگر ناقابل قبول ہے۔ اور کسی نرمی کے بجائے مجرم سخت سزا کا متقاضی ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ مگر تازہ ترین اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ سخت سزائوں کے باوجود اس جرم میں کوئی بڑی یا واضح کمی نہیں آئی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، کسی بھی جرم کو روکنے کے لیے سخت قوانین یا سزائیں، جرم کے خاتمے کی سمت محض ایک قدم ہے۔ جرم پر قابو پانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ ہماری مخصوص صورت حال میں اس کے لیے باقاعدہ آگہی مہم ، اور عوامی سطح پر تعلیم کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو اس پر کھل کر بولنے پر آمادہ کیا جائے، جو اس مسئلے پر معنی خیز انداز میں خاموش ہیں۔ اس میں کچھ قبائلی اور دیہی علاقوںکے سیاسی رہنما، اور مذہبی پیشوا بھی شامل ہیں۔ یہ اس موضوع پر خاموشی کی سازش میں شریک ہیں۔ اس جرم کے خاتمے میں یہ خاموشی بھی حائل ہے۔ خاموشی کی اس سازش کا خاتمہ اس مسئلے کی حل کے لیے ناگزیر ہے۔ نپولین نے کہا تھا: دنیا کے مصائب کی وجہ برے لوگوں کا تشدد نہیں، اچھے لوگوں کی خاموشی ہے۔