"FBC" (space) message & send to 7575

تشدد کی نفرت انگیز ریت کیوں؟

تشدد ظالمانہ ماضی کی باقیات ہے۔ ایک بھیانک یاد ہے۔ دنیا کے ہر عالمی ادارے اور قابل ذکر ملک نے بار بار اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ تشدد ایک بے جا، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھیار ہے۔ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی شکل میں با قاعدہ عالمی معاہدہ موجود ہے۔ اب تک ایک سو ساٹھ سے زائد ریاستیں اس کی فریق ہیں۔ کئی ممالک کے آئین اور قوانین میں تشدد کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی اس کے خلاف ہے۔ آج کا انسان ہر جگہ اور ہر ملک میں اس بھیانک ماضی اور اس کی پر تشدد یادوں کو بھول جانا چاہتا ہے۔ تشدد جیسی بھیانک باقیات کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں انسان اپنی ان کوششوں میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہا تھا‘ مگر بدقسمتی سے دنیا میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہونے کی وجہ سے یہ کوشش کمزور پڑ گئی‘ اور دنیا میں تشدد کے خلاف اٹھنے والی آوازیں کچھ مدھم ہو گئیں۔
نائن الیون سے پہلے لگتا تھا کہ دنیا عالمی فورمز پر تشدد کے خاتمے پر متفق چکی ہے‘ مگر اس واقعے کے بعد دنیا میں اس حوالے سے کئی مایوس کن واقعات ہوئے۔ ان واقعات سے لگتا ہے کہ تشدد کے خلاف پوری کامیابی کے لیے انسان کو ابھی اس سمت میں لمبا سفر اور کٹھن جہدوجہد کرنی ہے۔ دہشت گردی کے رد عمل میں امریکہ سمیت ترقی یافتہ دنیا کے کچھ ملکوں میں تشدد کو دوبارہ متعارف کروایا گیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ملک کے اندر قانونی کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں سرکاری تحویل میں تشدد کا حربہ اختیار نہیں کر سکتا تھا؛ چنانچہ اس نے اپنی سرحدوں سے باہر افغانستان، عراق اور گوانتانامو بے جیسی جگہوں پر تشدد کا بے تحاشا استعمال کیا‘ گو کہ یہ عمل بڑی حد تک دہشت گردی اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں تک محدود رہا ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے سوال پر امریکہ سمیت ترقی یافتہ دنیا کی سوچ میں بڑی تبدیلیاں آئیں، لیکن اس حد تک نہیں کہ ملک کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے شہریوں پر تشدد یا بدسلوکی کی اجازت مل جائے۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر دنیا نے اس بدلتی ہوئی فضا اور سوچ کو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر مزید سخت پابندیوں کے لیے استعمال کیا‘ اور تشدد کا وہی پرانا بھیانک رواج اپنی وحشیانہ شکل میں برقرار رکھا۔ 
پاکستان آج ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے‘ جہاں تشدد عام ہے۔ یہاں تشدد کا رواج سماج کی ہر پرت میں نمایاں ہے۔ تشدد کے مختلف مظاہر آئے روز دکھائی دیتے ہیں۔ بعض گھروں میں بڑوں کے ہاتھوں چھوٹوں، مردوں کے ہاتھوں عورتوں، عورتوں کے ہاتھوں بچوں، یا پھر سکولوں میں استادوں کے ہاتھوں شاگردوں، مالکان کے ہاتھوں مزدوروں پر تشدد کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ تشدد کے الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے واقعات آگے جا کر سماج کو بحیثیت مجموعی پُرتشدد بناتے ہیں۔ سیاسی زندگی میں تشدد، دہشت گردی اور ریاستی تشدد اسی سلسلے کی الگ الگ شکلیں ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر تشدد کی موجودگی اس کو ایک قابل قبول قدر کی حیثیت دیتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال پاکستان کے موجودہ قوانین ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو یہ جان کر افسوسناک حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں پولیس اور ریاستی تشدد کے خلاف کوئی واضح قوانین موجود نہیں ہیں۔ تعزیرات پاکستان میں تشدد کے خلاف کوئی واضح دفعات نہیں ہیں۔ پاکستان کریمینل کوڈ بھی اس سلسلے میں خاموش ہے‘ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کے آئین میں تشدد کے خلاف کلاز موجود ہے‘ اور پاکستان تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر چکا ہے۔ پاکستان نے اس کنونشن پر دستخط اور اس کی توثیق تو دو ہزار آٹھ میں کر دی تھی، لیکن اس سلسلے میں عملی اقدامات سے گریز کی پالیسی اختیار کی، جو اب تک جاری ہے۔ کنونشن پر دستخط اور اس کی توثیق کے بعد یہ قومی اسمبلی کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملکی قوانین کو اس کنونشن کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے‘ مگر بدقسمتی سے ہماری قانون ساز اسمبلیوں میں جو کام سب سے کم اور بہت دیر سے ہوتا ہے، وہ قانون سازی ہے۔ اس گمبھیر صورت حال کا واضح عکس قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خصوصاً پولیس کے طرز عمل میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ملزموں سے اقرار جرم کرانے کے لیے پولیس تشدد کے واقعات عام ہیں‘ بلکہ عام طور پر پولیس تشدد کو ہی ملزم سے معلومات لینے کا واحد اور مؤثر ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اقرارِ جرم کرانے کے لیے تشدد کا استعمال اور پھر عدالتوں کا اس اقرارِ جرم کو تسلیم کرنا‘ اس صورت حال کو مزید بھیانک بناتا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے متعدد اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ہر سال پاکستان میں ہزاروں لوگ پولیس تحویل میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ تشدد کے سینکڑوں ایسے واقعات بھی ہوتے جو منظر عام پر نہیں آتے‘ اور اعداد و شمار کا حصہ نہیں بنتے۔ عام شہریوں کا پولیس کے ہاتھوں یوں تشدد کا نشانہ بننا ایک پریشان کن عمل ہے۔ بلا استثنا جب بھی کوئی عام شہری گرفتار ہوتا ہے اسے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ تفتیشی آفیسر تفتیش کے عالمی طور پر مسلمہ جدید طریقے استعمال کرنے کے بجائے تشدد کے روایتی‘ رجعتی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ غیر انسانی تشدد کے ذریعے ملزم کو اقرارِ جرم پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تشدد کے ایسے واقعات منظر عام پر آنے پر پولیس کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں ہوتی۔ انتہائی غیر معمولی صورت حال میں، یا کسی ہائی پروفائل کیس میں زیادہ سے زیادہ تشدد کرنے والے پولیس آفیسر کا کسی دوسری جگہ تبادلہ کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنی سابقہ روش برقرار رکھتا ہے۔ 
ترقی یافتہ دنیا میں تشدد پر قابو پانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کا انتہائی سنجیدہ نوٹس لیا جاتا ہے اور سخت رد عمل ہوتا ہے۔ تشدد کرنے والا پولیس آفیسر کسی صورت میں سزا سے نہیں بچ سکتا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں کی عدالتیں پولیس کے سامنے دئیے گئے اقراری بیان کو اہمیت نہیں دیتیں۔ اس طرح تشدد کے ذریعے اقرارِ جرم کی ریت تقریباً دم توڑ رہی ہے۔ تفتیشی آفیسر کو محنت سے ملزم کے خلاف ثبوت اور شہادتیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔ پاکستان میں پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اور مسلح اداروں پر بھی تشدد کے متعدد الزامات سامنے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے عقوبت خانوں کی موجودگی کی رپورٹیں دی ہیں۔ ان میں سے کئی عقوبت خانے ذاتی گھروں میں قائم ہیں۔ یہ ساری صورت حال ایک ایسے سماج کی عکاس ہے، جس میں تشدد ایک گہرے روگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس روگ سے چھٹکارہ پانے کے لیے چند بنیادی نوعیت کے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ملزموں کے پولیس کے سامنے دئیے گئے اقبالی بیانات کو عدالتوں میں ناقابل قبول قرار دیا جائے۔ پاکستان پینل کوڈ اور کریمینل کوڈ میں ریاستی تشدد، پولیس تشدد اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے ہاتھوں تشدد کی واضح تعریف درج کی جائے اور اس کی کڑی سزا مقرر کی جائے۔ عام شہری کی طرف سے تشدد کی ہر شکایت کی مکمل تحقیق اور تفتیش کا میکانزم ترتیب دیا جائے۔ اس کے لیے ایک آزاد و خود مختار ایجنسی یا ادارہ ہو، جس کے پاس سرکاری اداروں کی تحویل میں تشدد یا بدسلوکی کی تحقیق و تفتیش کے مکمل اختیارات ہوں۔ اس سلسلے میں عوامی سطح پر تعلیم کی بھی اشد ضرورت ہے۔ پرائمری سے لے کر نصاب میں تشدد بطور نفرت انگیز اور ناپسندیدہ حربہ شامل کیا جائے‘ اور متعلقہ اداروں کو اس سلسلے مکمل تربیت دی جائے، ورنہ سماج دن بدن تشدد کی اس خوفناک دلدل میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں