ہم خطرناک دور میں رہتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد فکر و اندیشے بہت ہیں۔ میرے کچھ دوست اکثر جمہوریت کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اس بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میںسینیٹر فرحت اللہ بابر کے خدشات کی طویل فہرست دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ یہ خدشات اور فکر مندی اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہمارے قانون ساز قانون بناتے بناتے بوڑھے ہو جاتے ہیں، ریٹائر ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ خود اپنے ہی خدشات دور کرنے کے لیے جو پہلا اور بنیادی قانون انہیں بنانا چاہیے، وہ نہیں بنا پاتے۔ نہیں بنا سکتے۔ اس پر مجھے مایوسی ہوئی۔ غصہ آیا۔ مگر سینیٹر نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ آج کل ہر کوئی اداروں کے بارے میں ہی بات کر رہا ہے۔ ہر کوئی اداروں کے باہمی تصادم کے خدشات ظاہر کر رہا ہے۔ عوامی سطح پر بھی ایسا ہو رہا ہے، سیاسی اور دانشور لوگ بھی اسی گفتگو میں مصروف ہیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اداروں کے درمیان تصادم بارے جو کہا تھا، اس پر ایک بزرگ دانشور نے مجھے بتایا کہ یہ محض خدشات ہی ہیں۔ بے بنیاد خوف ہے۔ اداروں کے تصادم کی بات کرنے والوں میں کئی لوگ شامل ہیں۔ ایک وہ جو واقعی دیانت داری سے ایسا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی تشویش حقیقی ہے۔ اور وہ اس کے بروقت تدارک کی بات کر رہے۔ دوسرے وہ ہیں، جو مصنوعی خوف پیدا کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے مفادات اداروں کے درمیان کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں؛ چنانچہ ان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ کشیدگی کی کوئی صورت پیدا ہو، اور یہ کشیدگی کسی مداخلت کا باعث بنے۔ حالانکہ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے، تو پاکستان میں اداروں کے درمیان کبھی تصادم نہیں ہوا۔ یہ تصادم ہمیشہ افراد کے درمیان ہوتا رہا۔ کچھ افراد اپنی بے قابو خواہشات، طاقت و اقتدار کے جنون میں یہ مہم جوئی کرتے رہے۔ اقتدار پر قبضے کا منصوبہ کبھی کوئی ادارہ بطور ادارہ نہیں بناتا۔ یہ چند لوگ ہوتے ہیں، جو ایسے منصوبے بناتے ہیں۔ البتہ اقتدار پر قبضے کے بعد یہ چند لوگ پورے ادارے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو آئین کی بالا دستی نہیں مانتے۔ اپنے آپ کو عقل کل، اور اپنی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو آئین سے بالا تصور کرتے ہیں۔ ماضی میں جتنی بھی مہم جوئی ہوئی، وہ ایسے ہی لوگوں نے کی۔ کسی آمر نے اگر آئین توڑا یا اقتدار پر شب خون مارا تو اس نے اس کام میں چند ساتھیوں کو ہی اعتماد میں لیا۔ ادارے کو اعتماد میں نہیں لیا۔ کسی جج نے اگر آئین کی روح کے خلاف فیصلے کیے تو اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ ایک دو ساتھیوں کو ساتھ ملا لیا۔ کسی آمر کے اقدامات کی قانونی و آئینی گنجائش نکالی تو اس میں بھی چند لوگ ہی شامل تھے۔ گویا چند افراد نے اپنی خواہشات کی خاطر اداروں کو بدنام کیا۔ ان کا غلط استعمال کیا۔ بی آر امبیڈکر کو عالمی سطح پر ایک قد آور جیورسٹ سمجھا جاتا ہے۔ ان کو ہندوستانی آئین کا باپ کہا جاتا ہے۔ بھارت کی پیچیدہ اور متنوع سماجی تشکیل کے باوجود اس نے لا جواب آئین بنایا، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آئین کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل کرنے والے غلط لوگ ہیں، تو وہ آئین برا ثابت ہو گا، اور آئین خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل کرنے والے اچھے لوگ ہیں، تو آئین اچھا ہی ہو گا۔ ہمارے ہاں تو آئین کے ساتھ یہی ہوتا رہا۔ ہمارا مسئلہ افراد رہے ہیں، آئین نہیں۔ ادارے نہیں۔ اس پوری کہانی میں اصل شکار آئین ہے۔ نشانہ آئین بنتا رہا۔ آئین کے اس قتل میں کچھ آمر تھے، کچھ جج۔ ان لوگوں نے آئین کو وہ اہمیت نہیں دی جو لازم تھی۔ 1973ء کے آئین میں، آئین شکنی کو غداری قرار دیا گیا تھا۔ سنگین جرم بنایا گیا۔ سخت سزا مقرر کی گئی۔ مگر یہ سخت کلاز جنرل ضیاالحق کو اقتدار پر شب خون مارنے سے نہ روک سکی۔ کچھ جج اس وقت آئین کی پاسداری کر سکتے تھے۔ لاقانونیت کو مسترد کر سکتے تھے۔ ہمیشہ کے لیے ایک مثال بن سکتے تھے۔ مگر انہوں نے جنرل ضیاالحق کا حکم ماننے کو ترجیح دی‘ اور تابعداری میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے نابغہ روزگار شخص کو پھانسی کی سزا کا فیصلہ سنا دیا۔ ایک ایسا فیصلہ جس پر آنے والے جج حیرت و افسوس کا اظہار کرتے رہے‘ اسے عدالتی قتل مانتے رہے۔ اس کے ذکر پر شرم محسوس کرتے رہے۔ آئین کے تحفظ میں یہ عدلیہ کی بطور ادارہ ناکامی نہیں تھی، یہ چند اشخاص کی ناکامی کی کہانی تھی‘ جو اپنا عہد نبھانے، اپنا فرض پورا کرنے میں نا کام رہے۔ یہ کہانی ضیاالحق اور ذوالفقار علی بھٹو پر ختم نہیں ہوئی۔ جنرل مشرف کے دور میں اس کو دہرایا گیا۔ اس دفعہ مگر اتنا ضرور ہوا کہ کچھ ججز نے نظریہ ضرورت کو غلط قرار دے دیا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں آئین کچھ آمروں کو اقتدار لینے سے، اور کچھ ججوں کو ان کی من مانی تشریح سے نہ روک سکا۔ اور شاید مستقبل میں بھی نہ روک سکے، مگر ہمارے پاس آئین پر تکیہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ آخر کار یہ آئین ہی ہے، جو سب کو اپنا اپنا کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ سب سے انصاف کر سکتا ہے۔ لیکن آئین کو صرف ججوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، جیسا کہ ہم نے ماضی میںکیا۔ آئین کے اصل وارث اور محافظ عوام ہیں‘ اور اسے مسخ ہونے سے بچانے کے لیے عوام کا بیدار ہونا ضروری ہے۔ آگے آنا ضروری ہے۔
رابرٹ کینیڈی کا میں کوئی مداح نہیں، مگر اس کی کئی بہت دانش مندانہ باتیں ہیں۔ ایک دانش مندانہ قول یہ ہے کہ انصاف کی عظمت اور قانون کی شان صرف آئین، ججوں، پولیس اور وکلا کی وجہ سے نہیں قائم ہوتی، بلکہ ان مردوں اور عورتوں کی وجہ سے ہوتی ہے، جن پر یہ سماج مشتمل ہے، وہ قانون کے محافط ہیں، جیسے قانون ان کا محافظ ہے۔ میں کینیڈی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ کسی ملک میں آئین اور قانون کو درپیش بڑے بڑے سوالات پر عوام خاموش اور لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ ایسا کرنے سے چند لوگ ان کی تقدیر کے مالک بن جاتے ہیں؛ چنانچہ عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی کی حکمرانی قائم کرنے میں سرگرم کردار ادا کریں۔ عوام یہ کردار دو طریقوں سے ادا کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے نمائندوں کے انتخاب میں سرگرم حصہ لیں‘ اور صرف ایسے لوگوں کو ووٹ دیں، جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہوں۔ علم اور تجربے کے اعتبار سے اس قابل ہوں کہ آئین و قانون سازی کے پیچیدہ عمل میں شامل ہو سکتے ہوں۔ آمریت پسند قوتوں اور مہم جو افراد کے عزائم پہچاننے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ انتخابی طریقہ ہے۔ اچھے لوگوں کا انتخاب، اچھے مستقبل کی نوید ہو سکتا ہے۔ مثبت تبدیلیوں کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ اچھی خبروں کا باعث ہو سکتا ہے۔ بُرے لوگوں کا انتخاب اس کے برعکس نتائج لا سکتا ہے۔ ماضی کے بُرے تجربات دہرانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ عوام کے پاس دوسرا طریقہ سیاسی سرگرمی یعنی پولیٹیکل ایکٹیوازم ہے۔ عوام افراد اور اداروں پر کڑی نظر رکھیں‘ اور اگر کوئی فردِ واحد یا ادارہ مہم جوئی پر اتر آئے، آئین توڑنے کی کوشش کرے، تو عوام اپنی طاقت سے اسے روک سکتے ہیں۔ وہ اس سرگرمی کے ذریعے آئین کے پاسبان بن سکتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی قائم کر سکتے ہیں۔ تاریخ میں عوام نے کئی بار یہ کردار دوسرے ملکوں میں ادا کیا ہے‘ جب عوام آمریت پسندوں کے خلاف ڈٹ گئے‘ ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ مگر ہم جس دور میں زندہ ہیں، اس میں جمہوریت پر براہ راست حملہ نہیں ہوتا۔ یہ کام اب بلا واسطہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نئی تکنیک ہے، جس میں ادارے جمہوریتوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ نئے دور میں جمہوریت کو نیا خطرہ درپیش ہے۔ یہ صرف عوام ہی ہیں، جو جمہوریت کو اس خطرے سے بچا سکتے ہیں۔