ہم عجیب لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں ان امور پر اختلاف رائے ہے، جن پر ساری جمہوری دنیا میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ ریاست میں کون بالا دست ہے۔ آئین کی تعبیر و تشریح کا اختیار کس کو ہے۔ پارلیمان آئین میں تبدیلی کرنے کی کس حد تک مجاز ہے؟ یہ اور اس طرح کے چند بنیادی سوالات، جن کے جوابات ایک فقرے میں دئیے جا سکتے ہیں۔ یہ جوابات واضح اور دوٹوک انداز میں آئین میں درج کیے جا سکتے ہیں۔ یہ جوابات سنہری فریموں میں عدالتوں کی راہداریوں میں آویزاں کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں ان سوالات پر اختلاف ہے۔ اور کبھی کبھی یہ اختلاف حد سے گزر کر تصادم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم اس قابل نہیں کہ ان سوالات کے کوئی واضح جوابات دے سکیں‘ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کے تصورات بہت کمزور ہیں۔ افراد اپنے آپ کو قانون سے اہم اور بالا سمجھتے ہیں۔ اپنی رائے کو مقدس سمجھتے ہیں۔ اور کسی مسئلے پر جو پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں، اسے بدلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ قانون کی حکمرانی کے تصورات کے خلاف ہے۔
میں اکثر قانون کی حکمرانی پر لکھتا ہوں۔ میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کہ لوگ مجھ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔ یہ سوالات دو قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ ایک وہ جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے بارے میں سخت مایوس ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں عام طور پر قانون کا کوئی احترام نہیں ہے۔ سماج کی ہر سطح پر اور ہر پرت میںکھلم کھلا قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ قانون کا وہ احترام اور ڈر جو عام طور پر ایک مہذب سماج میں ہوتا ہے، اس کا فقدان ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے قانون اور دوسرے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے قصے عام ہیں۔ ملک میں پے در پے مارشل لاز اور مطلق العنان حکومتیں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ عوامی سطح پر کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کے مظاہرے ، آئے روز عام دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے حکومتی سطح پر ہونے والی لاقانونیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ ملک میں طویل مارشل لائوں کے خلاف عام لوگوں کا رد عمل ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک سے آنے والے لوگوں کو یہ صورتحال بڑی عجیب، بلکہ مایوس کن لگتی ہے۔ جاپان سے گئے ہوئے ایک دانشور دوست نے مجھے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں بہت سارے لوگوں کے انٹرویوکیے ہیں، قانون کی حکمرانی پر سوالات پوچھے ہیں۔ قانون پر کچھ لوگوں کے نظریات اور خیالات سن کر لگتا کہ کہ یہ لوگ باقاعدہ نظریاتی قسم کے انارکسٹ ہیں۔ حالانکہ وہ انارکی کے بارے میں بطور نظریہ کچھ نہیں جانتے۔ میں اس دانشور دوست سے اتفاق کرتا ہوں۔ میرا ذاتی تجربہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے کئی لوگ دل سے قانون پسند نہیں کرتے۔ ان کے دل میں قانون کا احترام نہیں ہے۔ اگر وہ قانون کی پابندی کرتے ہیں تو اس کی وجہ قانون کی تعظیم نہیں، سزا کا ڈر یا پکڑے جانے کا خوف ہے۔ گویا یہاں اگر تھوڑا بہت قانون پر عمل ہو رہا ہے تو وہ بہ امر مجبوری ہے، رضاکارانہ نہیں۔
ہمارے ہاں ایک مقولہ بہت مشہور ہے۔ ہر خاص و عام کہیں نہ کہیں اسے دہراتا رہتا ہے کہ جس نظام میں ہم رہتے ہیں، اس میں چھوٹے موٹے چور جیل میں ڈال دئیے جاتے ہیں، اور بڑے ڈاکو حکمران بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ مقولہ زینگ زو سے منسوب کرتے ہیں۔ زینگ زو چوتھی صدی قبل مسیح کا فلسفی ہو گزرا ہے۔ یہ قدیم چین کا ایک بااثر دانشور تھا۔ زینگ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انارکسٹ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اسے خود یہ علم نہ ہوا ہو‘ مگر آنے والے دانشوروں نے اس کو انارکسٹوں کا باوا آدم قرار دے دیا۔ ان کا خیال ہے کہ وہ انارکزم کا بانی تھا۔ اس کے کئی قول زبان زد عام ہیں۔ چین میں تو وہ اتنا مقبول نہیں‘ لیکن ہمارے ہاں وہ مقبول کیوں ہے؟ میں نے کئی لوگوں سے اس کے اقوال سنے ہیں۔ یہ صدیوں پرانے اقوال ہمارے دور میں نئے لگتے ہیں۔ اور آج بھی کئی ریاستوں اور ملکوں پر صادق آتے ہیں۔ زینگ زو دھرتی پر انسان کے اختیار، اقتدار کے خلاف ہے۔ وہ ریاست کی تشکیل کو انسان کے خلاف سازش قرار دیتا ہے۔ زینگ کے اقوال ہمارے ایسے لوگوں میں مقبول ہیں، جن کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شکایت ہے۔ ریاست سے شکوے ہیں۔ نظامِ انصاف سے ناراضگی ہے۔
ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو مروجہ قانون کے خلاف ہیں۔ وہ اس پورے نظام کو ہی نہیں مانتے۔ وہ ریاست اور اس کے اداروں کو اپنے مخصوص مذہبی عقائد کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ غیر اسلامی ہے۔ غیر ملکی ہے۔ مغرب سے آیا ہے‘ اور کفر کے قریب ہے۔ چونکہ اس میں تقدس والی کوئی چیز نہیں‘ اس لیے اس کی پابندی اور احترام لازم نہیں۔ یہ ایک گمراہ کن تصور ہے، اور ہر چیز کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کی کوشش ہے۔ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی ہے۔
میری رائے میں مغرب میں قانون کی حکمرانی اب اس حد تک راسخ ہو چکی ہے کہ عام لوگ اسے عادتِ ثانیہ بنا چکے ہیں۔ وہ اب جزا یا سزا کے خوف سے بلند ہو کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مغرب میں سب لوگ ایمان دار ہوتے ہیں، یا وہاں فرشتے بستے ہیں۔ وہاں بھی مجرم لوگ رہتے ہیں۔ قتل، چوری، ڈاکہ اور زنا بالجبر جیسے جرائم کا ارتکاب عام ہے۔ مگر عوام کی اکثریت قانون پسند ہے، اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ مغرب میں قانون کی حکمرانی کی عظمت یونہی قائم نہیں ہوئی۔ اس کے پس منظر میں صدیوں کی جہدوجہد ہے۔ تاریخ ہے۔ ورثہ ہے۔ اس کے پیچھے ایک سنجیدہ تحریک ہے۔ بڑے بڑے فلسفی ہیں۔ دانشور ہیں۔ مغرب میں سقراط کو اس الزام پر سزائے موت دی گئی کہ وہ باغی ہے۔ نوجوان نسل کو خراب کر رہا ہے۔ پھر اسے خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا گیا۔ مگر اس کی موت کے بعد اس کو ولن بنانے اور دھتکارنے کے بجائے ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کو نہ ختم ہونے والی تعظیم و تکریم دی گئی۔
اس یونانی فلسفی کی جہدوجہد، زندگی اور موت پر کئی بیانیے سامنے لائے گئے۔ مگر وہ بیانیہ سب سے زیادہ مقبول ہوا، جس سے قانون کی حکمرانی کے تصورات کو تقویت ملتی تھی۔ سقراط کے خلاف جب مقدمہ چل رہا تھا، تو اس کے پاس بچ کر نکل جانے کے کئی راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے لیے موت سے کم کوئی سخت سزا تجویز کرے، جو اہلِ ایتھنز کے لیے قابل قبول ہو۔ مگر ایسا تب ہوتا جب وہ جرم تسلیم کرتا، جو اس کے خیال میں اس نے کیا ہی نہیں تھا؛ چنانچہ اپنے لیے متبادل سزا تجویز کرنے کے بجائے اس نے اپنی برّیت کا مطالبہ کیا، اور اپنی خدمات کا معاوضہ مانگا۔ جیوری کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ جب سزا موت ہو چکی توکچھ دوستوں نے یہ پیشکش کی کہ وہ گارڈز کو رشوت دے کر اس کے فرار اور جلاوطنی کا بندو بست کر سکتے ہیں۔ وہ جلاوطن رہ کر یہ جنگ جاری رکھ سکتا ہے۔ بوڑھے فلسفی نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ اس نے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ایتھنز کا وفادار شہری ہے‘ اور وہ ایتھنز کو ان قوانین کو بھی مانتا ہے، جن کے تحت خود اسے سزائے موت دی گئی، اور زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا گیا۔ مغرب میں آج آزادیٔ فکر اور قانون کی حکمرانی کے پیچھے ایسے فلسفیوں اور دانشوروں کی کہانیاں ہیں، جو نوجوان لوگ پڑھتے ہیں۔ اس سے قانون کی تعظیم و تکریم بڑھتی ہے، اور قانون کی حکمرانی کا تصور مضبوط ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے تو اس کی وجہ عوام نہیں، حکمران طبقات ہیں۔ یہ حکمران تاریخ کے مختلف ادوار میں اقتدار کی خاطر قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑاتے رہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام اس باب میں بری الذمہ ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے قیام میں عوام کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے، جو بالآخر ان کو ادا کرنا ہی ہو گا۔