پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ یہ کہنے اور سننے کا موسم ہوتا ہے۔ عوام اور ان کے راہنمائوں کے درمیان مکالمے کا موسم ہوتا ہے‘ اگرچہ یہ مکالمہ زیادہ تر یک طرفہ ہی ہوتا ہے، جس میں رہنما بولتے ہیں، اور عوام سنتے ہیں۔ ہماری طرح مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی انتخابات سے قبل سیاست دان اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہیں‘ لیکن ہمارے بر عکس ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور پر عمل نہ کریں۔ مغرب کے انتخابات میں وعدے بھی ایسے کیے جاتے ہیں، جو حقیقت پسندانہ اور قابلِ عمل ہوں۔ منطق اور دلیل کی کسوٹی پر پورا اترتے ہوں۔ عموماً سیاسی جماعتیں ایسے وعدوں سے گریز کرتی ہیں، جن کے لیے وسائل اور اسباب موجود نہ ہوں‘ اور اعداد و شمار کی روشنی میں یہ ثابت نہ کیا جا سکے کہ اس کے لیے درکار وسائل میسر ہیں۔ ہمارے ہاں دلائل اور اعداد و شمار کے بجائے سیاست دان عوام کے جذبات ابھارنے پر زور دیتے ہیں۔ جذبات ابھارنے کے لیے جوشِ خطابت سے کام لیا جاتا ہے۔ اس جوش خطابت میں ایسے وعدے کیے جاتے ہیں، جن میں سے بیشتر نا قابلِ عمل ہوتے ہیں، اور جن کے لیے وسائل ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے ہمارے ہاں انتخابی سیاست جھوٹ اور فریب کی سیاست بن کر رہ گئی ہے۔ مغرب کے اور ہمارے انتخابات میں دوسرا بڑا واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے انتخابی منشور بیان کرنے سے زیادہ مخالف امیدواروں یا جماعتوں کی خامیوں پر سارا زورِ خطابت لگاتے ہیں۔ ہماری سیاست اپنے اچھے کاموں کے بجائے دوسروں کی کمزوریوں پر چلتی ہے۔ ہم عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ ہمیں کیوں ووٹ دو، اس کے بجائے ہم انہیں بتاتے ہیں کہ مخالفین کو کیوں ووٹ نہ دو۔
سیاست مغرب میں ہو یا مشرق میں، اس کا نقطۂ ماسکہ عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ دنیا میں کسی بھی حکومت کا بنیادی اور لازمی فریضہ عوام کی فلاح و بہود ہی ہوتا ہے۔ عوام کی فلاح ایک وسیع تصور ہے۔ مختلف لوگ فلاح کی مختلف تعریف کرتے ہیں۔ لیکن کچھ کم از کم نکات ایسے ہیں، جن پر سب کا اتفاق ہے۔ ان میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی سماجی اور معاشی بہبود کے فروغ اور تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ فلاح و بہبود کا تصور مساوات اور دولت کی منصفانہ تقسیم سے مشروط ہے۔ انسان کی فلاح و بہبود کا تصور صرف فلاحی ریاست کے قیام سے مشروط نہیں۔ فی زمانہ کئی دوسری قسم کی ریاستیں، جو فلاحی نہیں، انسانی فلاح و بہبود کی دعوے دار ہیں۔
برصغیر میں آج تک اگرچہ کوئی فلاحی ریاست قائم نہ ہو سکی، مگر یہاں اس کا تصور بہت ہی پرانا ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں اشوکا کے دور میں فلاحی ریاست کے کچھ تصورات پر عملدرآمد کی کوشش ہوئی۔ اشوکا عام لوگوں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ وہ اپنی رعایا میں موجود ہر جاندار مخلوق کا مقروض ہے۔ اس کا ہر کام اس قرض کی ادائیگی کی کوشش ہے، جو اس پر واجب الادا ہے۔ اشوکا کے دور میں عوام کی فلاح و بہبود، یہاں تک کہ قیدیوں کی بہبود کے لیے بھی اقدامات کیے گئے۔
برصغیر میں اعلیٰ قیادت میں اس تصور کی موجودگی اس بات کی دلالت ہے کہ ریاست و سیاست کے میدان میں اس وقت برصغیر قدیم تہذیبوں کا ہم پلہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب میں افلاطون اور ارسطو کے خیالات کا سحر تھا۔ ہمارے پڑوسی چین میں کنفیوشس اور سن زو کا طوطی بولتا تھا۔ اس دور میں چانکیہ کا نام ایک ایسے دانشور کے طور پر ابھرا جو فلاحی ریاست کا تصور رکھتا تھا۔
چھ سو سال قبل مسیح ہمارے ہاں ایک بڑی اور دنیا بھر میں تسلیم شدہ یونیورسٹی تھی۔ راولپنڈی سے کوئی پندرہ سولہ میل دور ٹیکسلا میں قائم یہ یونیورسٹی اس وقت علم و دانش کا گڑھ تھی۔ قدیم بابل، یونان، چین اور شام سے طلبا یہاں پڑھنے آتے تھے۔ کوئی ساٹھ سے زائد مضامین یہاں پڑھائے جاتے تھے۔ ان میں فلسفہ اور سیاست جیسے مضامین بھی تھے۔ ریاست اور حکومت بھی نصاب کا حصہ تھے۔ یہاں سے بڑے بڑے سکالر تھے۔ ان میں ایک چانکیہ بھی تھا۔ چانکیہ کو اس وقت کی سیاست اور ریاستی امور کا عالم سمجھا جاتا تھا۔ اس نے فن حکمرانی اور سیاست پر معرکۃ الآرا مقالہ لکھا۔ ارتھ شاسترہ نامی اس کتابچے یا مقالے کو آپ اردو میں مادی کامیابی کی سائنس یا فن سیاست کا نام دے سکتے ہیں۔ ریاست کی خوشحالی چانکیہ کے فلسفے کا بھی نقطۂ ماسکہ ہے۔ اس کے خیال میں عوام کی فلاح و بہبود حکومت کا فرض اولین ہے۔ حکمران کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کے لیے نظم و ضبط اور انصاف قائم کرے۔
اسلامی تاریخ میں حضورﷺ کی رہنمائی میں مدینہ کی شکل میں پہلی ریاست تھی، جو فلاحی خدوخال رکھتی تھی۔ خلافت راشدہ میں فلاحی ریاست کے تصورات کو اہمیت دی گئی اور عملی طور پر اپنایا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شہریوں کے لیے کم از کم آمدنی کی حد مقرر کی۔ ہر عورت مرد اور بچے کے لیے دس درہم سالانہ مقرر کیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اس تصور کو اگلے درجے پر لے جایا گیا۔ انہوں نے بیت المال جیسا باقاعدہ ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد امیروں سے زکوٰۃ لے کر غربا اور مساکین کی مالی اعانت تھا۔ یہ سوشل سکیورٹی کی ایک ابتدائی شکل تھی، جس میں یتیم بچوںکی کفالت اور پینشن کا تصور موجود تھا۔ خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد آہستہ آہستہ فلاحی ریاست کا تصور کمزور ہوتا گیا۔
یورپ میں فلاحی ریاست کا تصور تو پرانا ہے، مگر جدید اور موجودہ دور کی فلاحی ریاست یا سوشل سکیورٹی کے تصورات پر انیسویں صدی کے آخر میں کام شروع ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کام دائیں بازو کے قدامت پرستوں نے کیا۔ پروفیسر رابرٹ پیکسٹن نے اس موضوع پر بڑی تحقیق کی ہے۔ پروفیسر کا خیال ہے کہ فلاحی ریاست کے قوانین پہلی بار انیسویں صدی کے آخر میں قدامت پرستوں نے، اور بیسویں صدی کے شروع میں فاشسٹوں نے متعارف کروائے۔ ایسا مزدوروں کو یونین اور سوشلزم سے دور رکھنے کے لیے کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹیوں اور ریڈیکل دانشوروں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔ بسمارک نے اٹھارہ سو اکیاسی میں جرمنی کو فلاحی ریاست بنانے کی ابتدا کی، مگر یہ کام کرنے سے پہلے اس نے جرمنی میں پینتالیس اخبارات بند کیے۔ جرمن سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگائی۔ یہی عمل چند سال بعد آسٹروہنگیرین سلطنت میں دہرایا گیا۔ پیکسٹن نے یہ دلچسپ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ بیسویں صدی کی تمام جدید دائیں بازو کی فاشسٹ اور مطلق العنان ریاستیں فلاحی ریاستیں ہی تھیں۔ یہ سب ریاستیں مزدور اور سوشلسٹ تحریکوں کے خوف سے عوام کو بنیادی صحت، پینشن، سستی رہائش اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرتی تھیں۔ ڈینش ماہر عمرانیات گوسٹا اینڈرسن کے خیال میں جدید ترقی یافتہ دنیا میں تین قسم کی فلاحی ریاستیں ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک، جن میں سویڈن، ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ شامل ہیں۔ دوسری کرسچئن ڈیموکریٹک جیسے اٹلی وغیرہ اور تیسری لبرل ڈیموکریٹک ریاستیں ہیں، جن میں جاپان وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے لیے ایک سوشل ڈیموکریٹک فلاحی ریاست کا ماڈل مثالی ہو سکتا ہے۔ اس ماڈل کو اپنا کر بے پناہ غربت اور سماجی و معاشی نا ہمواریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موجودہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے بھی کرپشن سے پاک ایک نسبتاً منصفانہ سماج قائم کیا جا سکتا ہے، جس میں عوام کے سارے تو نہیں، لیکن بیشتر دکھوں کی دوا موجود ہے۔ بقول شاعر:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے