غربت ایک ایسی سزا ہے، جو آپ کو بغیر کسی جرم کے بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ بات ایک روسی نژاد انگریز ادیب علی خاماروف نے کہی تھی۔ پہلی دفعہ ایک دوست نے مجھے یہ قول سنایا تو مجھے بہت سچا لگا۔ بچوں کی غربت کے باب میں تو اس میں آفاقی سچائی ہے۔ جو بچے غربت میں پیدا ہوتے ہیں اور بچپن بھوک، ننگ اور ذلت میں گزار دیتے ہیں، اس میں ان کا اپنا کیا قصور اور کیا جرم ہوتا ہے؟
بچپن میں ہم پہاڑوں پر رہنے والے لوگ ممکن ہے بہت غریب ہوتے ہوں، لیکن یہ غربت ہمارے بزرگ گھروں کے اندر چھپا کر رکھتے تھے۔ اس وقت عام لوگوں کے پاس سادہ اور کچے گھر ضرور ہوتے تھے لیکن ہمارے پہاڑوں پر کوئی بے گھر فرد نہیں ہوتا تھا۔ ہر امیر و غریب کے پاس زمین کا ایک چھوٹا موٹا ٹکڑا اور ایک ٹوٹا پھوٹا گھر ضرور ہوتا تھا۔ شہر ہمارے پاس تھے نہیں، جہاں ہم اپنی غربت کی نمائش کر سکیں۔ چھوٹے چھوٹے بازار تھے، جن میں لوگ اپنے بہترین اور دھلے ہوئے کپڑے پہن کر جاتے تھے۔ چنانچہ غربت کے کھلے مظاہرے اور اجتماعی نمائش ہم نے بڑے شہروں میں جا کر دیکھی۔ پہلی دفعہ جب میں نے بڑے شہروں میں تنگ و تاریک گلیاں اور ان میں کیچڑ میں لتھڑے ہوئے بچے دیکھے تو مجھے حیرت و صدمے کا شدید جھٹکا لگا۔ وہ مناظر میرے ذہن کے کسی گوشے میں منجمد ہو گئے۔ اس کے بعد آج تک میں جب بھی لفط غربت سنتا یا پڑھتا ہوں تو وہ مناطر میرے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب میں نے یہ خوفناک مناظر دیکھے تو میں نے بڑی معصومیت سے سوچا تھا کہ یہ مناظر عارضی ہیں۔ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے یہ بچے بڑے ہو جائیں گے‘ گلیوں میں بہتا ہوا گندا پانی بہہ جائے گا، منظر بدل جائے گا مگر آج چار دہائیوں بعد میں حیرت و افسوس سے دیکھتا ہوں کہ منظر ضرور بدلا ہے، مگر اس طرح نہیں جیسے میں نے سوچا تھا۔ یہ منظر پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ ہو گیا ہے۔ گلیوں محلوں میں کیچڑ میں لتھڑے ہوئے بچوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اب شہروں میں ان بچوں سے کہیں زیادہ بدنصیب بچے پائے جاتے ہیں، جن کو رہنے کے لیے کوئی گندی گلی یا محلہ بھی میسر نہیں، ان کا کوئی مستقل ٹھکانا نہیں۔ ان میں وہ ہزاروں افغان بچے بھی شامل ہو گئے ہیں، جو ہمارے اور افغان لیڈروںکے شوقِ جہاد کا نتیجہ ہیں اور شہروں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے رزق ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔
عالمی اداروں کی حالیہ رپوٹوں اور کچھ محتاط اندزوں کے مطابق اس وقت پاکستان میں بے گھر بچوں کی تعداد دو ملین کے قریب ہے۔ ان بچوں کے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ بچے غربت، بھوک، جنسی و جسمانی تشدد اور خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان بیس لاکھ بچوں کے پاس بیس لاکھ کہانیاں ہیں۔ ہر بچے کی ایک اپنی کہانی ہے۔ ممکن ہے ایک بچے کی کہانی دوسرے بچے کی کہانی سے تھوڑی مختلف ہو مگر ان سب میں دو چیزیں مشترک ہیں۔ یہ سب جہالت اور لا پروائی کی وجہ سے اس غربت کا شکار ہیں۔ جہالت ان کے والدین کی ہے اور لا پروائی ریاست کی۔ ان بچوں کی غربت میں جہالت کا ایک بہت بڑا کردار اس لیے ہے کہ کچھ والدین بچے کی پرورش اور مناسب نگہداشت کی استطاعت اور وسائل کے بارے میں سوچے بغیر بچے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بچوں کے بارے میں ان کی جہالت بلکہ مجرمانہ لاپروائی ہے۔ ہم سب کو آئے روز اخبارات میں ایسی رپورٹس پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے کہ کئی ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح اتنی کم ہے کہ آبادی کا منفی بحران پیدا ہو رہا ہے۔ اب یہاں یہ فکر لاحق ہے کہ آبادی میں اضافے کے بغیر مستقبل میں اس نظام اور معیار زندگی کو کیسے برقرار رکھا جائے گا۔ میں جاپان، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا اور امریکہ جیسے ملکوں میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے یا تو بہت دیر سے کوئی ایک آدھ بچہ پیدا کیا یا سرے سے بچہ نہ پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنے امیر ملکوں میں رہنے، اچھے خاصے وسائل، حکومتوں کی طرف سے بچوں کی پرورش کے لیے پُرکشش مراعات اور فوائد کے باوجود ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بچوں کی اس طرح پرورش کی استطاعت نہیں رکھتے، جس طرح کی پرورش ایک بچے کا حق ہے۔ حالانکہ یہاں حکومت کی طرف بچے کے لیے نقد ماہانہ امداد اور والدین کو باقاعدہ تنخواہ کے ساتھ ایک سال تک کی چھٹی کے علاوہ کئی دوسرے فوائد بھی دئیے جاتے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر بچے پیدا کرنے کی ترغیب یا تحریک بھی دی جاتی ہے۔ یہ سب وسائل اور سہولیات میسر ہونے کے باوجود یہاں کچھ لوگ بچہ پیدا کرنے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے اور شاید وہ بچے سے پورا انصاف نہ کر سکیں۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ دنیا میں آبادی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے اور آبادی کی کمی پوری کرنے کے لیے ان ممالک نے باہر سے لوگوں کو لانے کے لیے اپنی امیگریشن کھولی ہوتی ہے۔ دوسرے ممالک سے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو لانے کے لیے تعلیمی اور مستقل سکونت کے ویزے آسان بنائے جاتے ہیں۔ نوجوانوں کوہجرت کرکے یہاں مستقل سکونت کے لیے کئی ترغیبات دی جاتی ہیں۔ ان ملکوں میں اب یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود افرادی قوت کی موجودہ نسل کے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی جگہ کون لے گا۔ اس کے برعکس ہم لوگ ہمہ وقت انسانیت، اخلاقیات اور پاک بازی کے درس دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنی ہمدردی اور ثقافتی برتری کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر عملی طور پر ہم اتنے سنگ دل اور بے رحم ہیں کہ کسی سوچ بچار کے بغیر انتہائی لاپروائی سے بچے پیدا کر کے ان کو کیچڑ اور کوڑا کرکٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے وسائل ساتھ لے کر آتا ہے مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے حصے کے وسائل تو ہم پہلے ہی ہضم کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنی لاپروائی اور جہالت سے آنے والے بچوں کے حصے کی اُس ہوا میں بھی زہر بھر دیا ہے، جس میں وہ سانس لیں گے۔ اس باب میں ریاست کی لا پروائی کی کوئی حد، کوئی شمار نہیں۔ ہماری آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، سنجیدہ دانشور اس بارے ہمیں خبردار کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم آبادی کے اس بم یا طوفان کا شکار ہو جائیں گے مگر ریاست ہے کہ بے نیاز ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری سطح پر بچوں کے تحفظ کے لیے اس طرح کے سخت قوانین نہیں ہیں، جو ترقی یافتہ ممالک میں عام ہیں۔ یہاں اگر والدین اپنے بچے کی حفاظت نہ کر سکیں، بچے کو مناسب کھانا پینا اور رہائش فراہم کرنے میں ناکام ہوں، بچے پر ذہنی و جسمانی تشدد ہو یا کوئی بچہ اکیلا گلیوں میں گھومتا پھرتا پایا جائے تو ریاست کی طرف سے بچوں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ ایجنسی کے اہلکار فی الفور مداخلت کرتے ہیں۔ اور اگر بچوں کی پرورش میں والدین کی جانب سے کوئی لا پروائی یا سنگدلی پائی جائے تو بچوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ پھر ان بچوں کی رضاعی والدین اور سرکاری اداروں کے ذریعے پرورش کی جاتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال میں کسی بڑی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں والدین کو جیل بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں اس باب میں سخت قانون سازی کی جائے اور اس قانون پر سنجیدگی سے عملدرآمد کا بھی سامان کیا جائے تو صورتحال بہت حد تک بدل سکتی ہے، ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو غربت میں غرق ہونے سے بچایا جا سکتا ہے، اور بچہ پیدا کرنے سے پہلے والدین کو اپنے وسائل اور بچے کی ضروریات کے بارے میں سنجیدہ سوچ بچارکرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح بچوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت، جبر اور تشدد سے بچایا جا سکتا ہے۔