اپنا گھر ٹھیک کرنے کا وقت آ گیا۔ کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے، مگر ظلم و نا انصافی کا معاشرہ نہیں چل سکتا۔ چیف جسٹس کے ان الفاظ کی صداقت تو سب پر عیاں ہے۔ ہم لوگ گزشتہ نصف صدی سے یہ باتیں مختلف الفاظ میں دُہرا رہے ہیں۔ گھر ٹھیک کرنے کا مطالبہ تو خلق خدا کی زبان پر ہے‘ مگر گھر بدلنے کی بات کرنے والا، اس صبر آزما کام کی ابتدا سے پہلے یہ سوچتا ہو گا کہ آغاز کہاں سے کیا جائے؟ یہاں تو راستے میں ایک سے ایک بھاری پتھر پڑا ہے۔ میرے خیال میں ابتدا وکلا سے ہونی چاہیے۔ یہ لوگ نظامِ انصاف کے بہت اہم مہرے ہیں‘ اور نظامِ انصاف کے اہل کاروں میں ان کی بڑی تعداد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وکلا کے حوالے سے چند اقدامات کیے جائیں تو گھر کا نقشہ یکسر بدل سکتا ہے۔ رشوت، سفارش، بد دیانتی اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر جیسے معاملات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ گویا گھر بدلنے کے لیے وکلا بدلنے ہوں گے۔ اور وکلا کو بدلنے کا آغاز تعلیم سے ہو گا۔
یوں تو ہمارے ہاں پورے تعلیمی نظام کو جڑ سے بدلنے کی ضرورت ہے، لیکن تعلیم کے جس حصے کا تعلق نظامِ انصاف سے بنتا ہے، اس کا آغاز ہمارے لا سکولوں سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون کی تعلیم کا زوال تو بہت پہلے شروع ہو گیا تھا، لیکن اسّی کی دہائی میں یہ زوال اپنے عروج پر پہنچا۔ اس کے بعد ہمارے لا سکولوں میں داخلے اور قانون کی ڈگری کا حصول محض ایک مذاق بن گیا۔ یہاں ایسے لوگوں نے ڈگریاں حاصل کیں جنہوں نے کبھی کلاس روم میں قدم تک نہیں رکھا۔ کسی نے نقل کے ذریعے ڈگری لی، کسی نے اپنی جگہ کسی اور کو امتحان میں بٹھا کر ڈگری لے لی۔ کسی نے پیسے دے کر یا سفارش پر ڈگری لی۔ داخلے میں اس قدر آسانی، اور امتحانات کے نظام کی مکمل تباہی کے بعد قانون کی ڈگری پاکستان کی سب سے آسان ترین ڈگری بن گئی۔ اب گزشتہ تین چار دہائیوں سے اس طریقے سے ڈگری لے کر وکلا کی ایک بڑی تعداد ہمارے عدالتی نظام کا حصہ بن گئی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اور جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، اس وقت تک ہماری عدالتوں کا نظام اور کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ تبدیلی کی ابتدا اس حقیقت کو ماننے سے ہو گی۔ اس سلسلے میں ہمیں بہترین نظامِ انصاف رکھنے والے ممالک کے تجربات سے سیکھنا پڑے گا۔ ان ملکوں میں ایک ملک کینیڈا بھی ہے۔ کینیڈا کے نظام انصاف کو دنیا کا بہترین نظام انصاف مانا جاتا ہے۔ میں چودہ برس سے یہاں قانون کے پیشے سے منسک ہوں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ یہ نظام رشوت، سفارش، بدعنوانی اور بد انتظامی سے پاک ہے۔ یہاں پر مقدمات کے فیصلے انتہائی مناسب وقت میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے نظام انصاف پر بھروسہ ہے۔ یہاں تک کہ سزا یافتہ لوگ بھی نظام کے خلاف کوئی شکایت نہیں رکھتے۔ یہ ایک انسانی سماج ہے، غلطیوں سے مبرا نہیں۔ مگر کئی اعتبار سے یہ ایک کامل سماج ہے۔ اس نظام کی ابتدا لا سکولوں سے ہوتی ہے۔ یہاں کے لا سکولوں میں داخلے کا معیار بہت بلند ہے۔ یہاں لا سکولوں میں داخلے کے بارے میں صرف ذہین ترین اور اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے والے طلبہ ہی سوچتے ہیں۔ اعلیٰ گریڈ کے علاوہ لا سکولوں میں داخلے کا ٹیسٹ بھی لازم ہے، جس کو محض پاس کرنا کافی نہیں بلکہ اس میں بھی گریڈ کی بنیاد پر استحقاق کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لا سکولوں میں سیٹیں محدود ہیں اور صرف چوٹی کے طلبہ کو ہی داخلے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح ابتدا سے ہی چھانٹی ہو جاتی ہے اور ملک کے بہترین دما غ اس شعبے کا رخ کرتے ہیں۔ لا سکول میں داخلہ ہی کافی نہیں، اصل چیلنج تو داخلے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ لا سکول میں ایک انتہائی کٹھن پڑھائی کے باوجود سکول سے ڈراپ آئوٹ ہونے کی تلوار ہمیشہ سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ یہ چوٹی سر کرنے کے بعد بار کے امتحانات کی شکل میں ایک اور دریا ہوتا ہے‘ جسے کامیابی سے عبور کرنے کے بعد آرٹیکلنگ یا شاگردی کی شکل میں تربیت کا ایک مربوط نظام اور موقع ہوتا ہے۔ اس طرح ایک طویل سلسلۂ عمل سے گزرنے کے بعد کوئی طالب علم وکیل بنتا ہے۔ اس وکیل کو قانون آتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اور اپنے پیشے کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس ساری مشقت کے بعد بھی وکیل کو عدالتوں کی راہداریوں میں یہ بات بہت کثرت سے سنائی دیتی ہے کہ کینیڈا میں وکالت کا لائسنس حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا اس کو منسوخ ہونے سے بچانا ہے۔ آرٹیکلنگ کے بعد انسان پڑھائی اور امتحانات کی مشقت سے نکل کر لا سوسائٹی کے سپرد ہو جاتا ہے۔ لا سوسائٹی نے اپنے بنیادی اعلامیے میں یہ واضح کر رکھا ہے کہ لا سوسائٹی کے وجود کا مقصد عوام کے مفاد کے لیے قانون کے پیشے کی نگرانی کرنا ہے۔ اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ یہاں کے عوام کو ایسے قانون دانوں کی خدمات میسر ہوں جو تعلیم، اہلیت، مہارت اور پیشہ ورانہ کنڈکٹ یعنی چال چلن کے اعلیٰ معیار پر پورے اترتے ہوں۔ اور یہ لوگ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے فروغ اور بالا دستی اور اپنے پیشے کی خود مختاری، دیانت اور احترام کے لیے کام کرتے ہوں۔ لا سوسائٹی اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں سے یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ اپنے اس بیان پر قائم ہے، اس سلسلے میں سخت سنجیدہ ہے، اور کسی قسم کی رعایت یا ڈھیل کی روادار نہیں۔ لا سوسائٹی سخت ڈسپلن کی تاریخ رکھتی ہے۔ عام فرد کی طرف سے معمولی سے معمولی شکایت پر سخت سے سخت ایکشن لیتی ہے۔ سن سترہ سو ستانویں میں قائم ہونے والی یہ لا سوسائٹی انگریزی بولنے والے ملکوں کی ایک قدیم ترین اور مثالی سوسائٹی سمجھی جاتی ہے۔ یہ آج تک ہزاروں وکلا کو بھاری جرمانے سے لے کر لائسنس منسوخ کرنے تک کی عبرتناک سزائوں کے ذریعے کینیڈا میں وکالت کے پیشے کو انتہائی با عزت، دولت خیز اور قابل فخر پیشہ بنا چکی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کہنے کو تو سب کچھ ہے۔ امتحانات ہیں۔ بار کونسل ہے۔ تادیبی قوانین ہیں۔ مگر سب کچھ صرف کتابوں میں ہے۔ عمل کی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ میں جب پنجاب یونیورسٹی لا سکول سے فارغ ہوا تو آرٹیکلنگ کے لیے ایک ایسے وکیل کے پاس گیا‘ جنہیں اپنا آئیڈیل مانتا تھا۔ میری آرٹیکلنگ کی درخواست پر وہ مسکرائے اور فرمایا اس چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ گھر جائو کچھ آرام کرو‘ میں تمہیں تصدیق دے دوں گا۔ کینیڈا میں کوئی وکیل ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کینیڈا میں لا سوسائٹی کا ایک اہم اور بڑا کام وکلا کا آڈٹ اینڈ ریویو یعنی ان کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال اور ان کی پریکٹس کا مکمل جائزہ بھی ہے۔ اس عمل میں کسی بڑے یا چھوٹے وکیل کو کوئی استثنا نہیں ہے۔ خود میرا گزشتہ چودہ سال کی پریکٹس کے دوران دو بار آڈٹ اور ایک بار پریکٹس ریویو ہو چکا ہے۔ اس عمل کا مقصد صرف مالی یا پیشہ ورانہ بد عملی روکنا ہی نہیں، بلکہ یہ خود ایک سیکھنے کا عمل ہے، جس میں وکیل کو اپنی پریکٹس میں پائی جانے والی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آڈٹ اینڈ ریویو کا کوئی رواج ہے اور نہ ہی وکلا کے خلاف انضباطی کارروائی کا با ضابطہ نظام و روایت ہے۔
گھر ٹھیک کرنے اور نظامِ انصاف میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کے لیے دیگر کاموں کے علاوہ جو فوری کام کرنے کی ضرورت ہے، اس میں پہلا کام تعلیمی معیار میں تبدیلی ہے۔ دوسرا کام لا سکولوں میں داخلے کا معیار بڑھانا ہے۔ تیسرا کام ایک مضبوط لا سوسائٹی یعنی نگرانی کے ادارے کو منظم کرنا ہے، چوتھا کام وکلا کی پیش ورانہ اور اخلاقی بد اطواری پر سخت سزائوں کا نفاذ ضروری ہے۔ ان کاموں کی ابتدا اگر آج کی جائے تو کہیں دس سال بعد جا کر اس کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔ اور اگلے تیس سالوں میں ہمارا نظام انصاف درست سمت میں گامزن ہو جائے گا۔