یہ اندیشوں کا موسم ہے۔ تشویش کا وقت ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی تشویش اور بے اطمینانی کا شکار ہے۔ ملک کے قانون دان حلقوں کی اپنی تشویش ہے۔ اس تشویش کا اظہار وکلا کی نمائندہ انجمنوں نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک مشترکہ اجلاس میں کیا۔ سندھ بار کونسل کی دعوت پر ہونے والے اس اجلاس میں ملک بھر کی بار کونسلز نے شرکت کی۔ ان میں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی بار کونسلیں شامل ہیں۔ اس اجلاس میں کئی اعتراضات، تحفظات کا اظہارکیا گیا اور سفارشات پیش کی گئی۔ یہ سب اہم اور غور طلب معاملات ہیں۔ لیکن میری دلچسپی کا مرکز وہ تشویش ہے، جس کا اظہار ان قانون دانوں نے متفقہ طور پر کیا ہے۔ اس تشویش کا اظہار انہوں نے دو چیزوں پر کیا ہے۔ ایک جوڈیشل ایکٹوازم یعنی عدالتی فعالیت ہے۔ دوسرا اس وقت ملک میں جاری احتساب کا عمل ہے۔ یہ دونوں موجودہ وقت کی سیاست کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ ان پر اس وقت ملک کے طول و عرض میں پُر جوش بحث ہو رہی ہے۔ صرف قانون دان ہی نہیں، عام لوگ بھی ان معاملات پر گہری تشویش کا اظہار کر تے رہتے ہیں۔ یہ اگرچہ قانونی معاملات ہیں، مگر سیاست کے ساتھ ان کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ ان کو سیاست سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ چنانچہ ان دو معاملات پر تشویش کے اظہار کے لیے کوئی قانون دان یا دانشور ہونا ضروری نہیں۔ یہ معاملہ سادہ اور کھلا ہے، ہماری گلیوں، محلوں اور بازاروں میں صبح شام اس پرگفتگو ہو رہی ہے۔
بار کونسلز نے جن دو چیزوں پر تشویش کا اظہار کیا، میں اس پر کئی بار لکھ چکا ہوں، اور دوبارہ عرض ہے کہ اصولی طور عدالتی فعالیت کوئی بری چیز نہیں۔ مگر اس کی اپنی حدود ہیں۔ عدالتی فعالیت کے دوران ان حدود کا قائم رہنا اور ان کا احترام ہونا ضروری ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ عدالتی فعالیت اور سیاست میں عدالتی مداخلت کے عمل کے درمیان بہت باریک لکیر ہے۔ اس لکیر کو قائم رکھے بغیر عدالتی فعالیت کا عمل کچھ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بڑی حد تک مغرب سے مستعار لیا گیا ہے، اور مغربی تصورات پر کھڑا ہے۔ ہمیں عدالتی معاملات میں نظیر اور رہنمائی کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ میں ذاتی طور پر اس میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ ہم کسی قانونی سوال پر الجھے ہوئے ہوں، تو اس پر ہم مغرب کے تجربے اور علم سے استفادہ کریں، بلکہ ایسا کرنا میرے خیال میں ناگزیر ہے۔ ہمارے پاس ابھی تک کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، ہمیں مغرب نہیں مشرق کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مشرق میں جاپان ہے، جس کے پاس اچھا نظام انصاف ہے۔ اس کی عدالتی روایات اور عمل سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہمارے پڑوس بھارت میں بھی عدالتی نظام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ جاپان کا موجودہ نظام اس ملک پر اتحادی قبضے کے دوران تشکیل پایا جو کہ مغربی قوانین کا عکس ہے، اور مغرب کی مدد سے ہی قائم ہوا ہے۔ بھارت نے ہماری ہی طرح پورا قانون انگریزوں سے وراثت میں لیا اور بعد میں اس میں کچھ تبدیلیاں کیں، اب بھی یہ دونوں ملک ہماری طرح رہنمائی کے معاملے میں مغرب سے ہی استفادہ کرتے ہیں۔ مگر جب تک ہم دوٹوک انداز میں یہ طے نہیں کر لیتے کہ ہم کون ہیں؟ اور ہمارا نظام کیا ہونا چاہیے؟ اس وقت تک ہمیں اسی نظام سے رہنمائی لینی پڑے گی جو مروج ہے۔ خوشی سے نہیں تو بہ امر مجبوری ہی سہی۔ اگر مغرب کی طرف دیکھا جائے تو یہاں عدالتی فعالیت کا مسئلہ اب تقریباً طے ہو چکا ہے۔ سارے مغرب کو لیں تو معاملہ ذرا طویل ہو جاتا ہے، چنانچہ میں صرف کینیڈا کی مثال دوں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا کے نظام انصاف میں امریکہ کی نسبت عدالتی فعالیت پر تنازع کھڑا ہونے کی زیادہ گنجائش ہے‘ اور اس پر ماضی میں تنازعہ کھڑا ہوتا بھی رہا ہے۔ اس پر ہماری طرح یہاں بھی بڑی لے دے ہوتی رہی ہے۔ کینیڈا میں ججوں کے اختیارات تقریباً ہماری طرح ہی ہیں اور طے شدہ ہیں۔ یہ ججوں کا اختیار ہے کہ وہ قانون ساز اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کی تشریح کریں۔ وہ صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔ وہ فیصلے کرتے وقت کامن لا اور تسلیم شدہ عدالتی نظائر سے استفادہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کینیڈا میں اختیارات کی واضح تقسیم کی مضبوط روایات اور قانون کی موجودگی میں یہ ججوں پر لازم ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کا احترام کریں۔ سپریم کورٹ آف کینیڈا عدالتی فعالیت کے معاملے پر بحث کے دوران کئی سال پہلے واضح کر چکا ہے کہ عدالتی فعالیت کے الزام کا یہ مطلب ہے کہ جج ایک خاص ایجنڈے کی پیروی کر رہے ہیں، وہ اپنے سیاسی نظریات کی بنیاد پر مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں، یہ بہت سنجیدہ الزام ہے کہ حکومت کاکوئی ادارہ یا شاخ کسی ایسے انداز میں کام کر رہی ہے جو اس کے آئینی کردار کے مطابق نہیں۔ مغرب میں کینیڈا کے نظام انصاف کو ایک بہترین نظام مانا جاتا ہے۔ اس کا عدالتی نظام نتائج کے اعتبار سے قابل رشک ہے۔ یہاں کی عدالتوں کی یہ تسلیم شدہ رائے ہے کہ سیاسی معاملات کا حل عدالتوں میں نہیں، پارلیمنٹ میں ہی احسن طریقے سے ہو سکتا ہے۔ از خود نوٹس کا تصور یہاں نہیں ہے۔ عدالتیں صرف وہ معاملات سنتی ہیں جن کی ان کے سامنے درخواست کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ایسا معاملہ عدالت میں لے آئے جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے متصادم ہے، کسی قانون میں اگر کوئی سقم یا ابہام ہے، یا پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے تو عدالتیں اس پر فیصلہ کرتی ہیں۔ معاملے کی وضاحت کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کو بتاتی ہیں کہ اس کے بنائے ہوئے قانون میں کیا چیز بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ بسا اوقات وہ پارلیمنٹ کو وقت دیتی ہیں کہ وہ قانون میں ضروری ترامیم کر لیں۔ اس طرح جو سیاسی اور انتظامی معاملات ہوتے ہیں، ان کو سیاسی اور انتظامی سطح پر طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بار کونسلز کی تشویش کا دوسرا نکتہ احتسابی عمل تھا۔ احتساب کے لیے قائم کیے گئے کسی ادارے یا اس کے طریق کار پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ نقاد احتساب کے عمل کے خلاف ہے‘ یا وہ ملک میں کرپشن یعنی بد عنوانی کا حامی ہے‘ یا کسی بد عنوان سیاست دان کا حامی ہے۔ قانون دانوں کی طرف سے احتسابی اداروں پر عدم اطمینان کے اظہار کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اداروں کا طرز عمل امتیازی ہے، جو انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم ہے۔ احتساب سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں احتساب کا عمل ناگزیر ہے‘ کیونکہ پاکستان کو ہر سال بد عنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ بد عنوانی اور نا انصافی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یعنی جہاں کہیں بد عنوانی جیسا عمل ہو گا، وہاں دوسرے کا حق مارا جائے گا۔ بار کونسلز کی تشویش کا نکتہ یہی ہے کہ احتساب ہو، ضرور ہو، مگر سب کا ہو، اور کسی کو استثنا حاصل نہ ہو۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ان میں چھوٹا بڑا، امیر غریب، طاقت ور اور کمزور سب شامل ہیں۔ قانون کو کسی شخص کی سماجی حیثیت، اہمیت، ضرورت‘ عہدہ و رتبہ دیکھے بغیر اس سے سلوک کرنا پڑتا ہے۔ قانون دانوں کی انجمنوں کو فعالیت اور احتساب کے موجودہ نظام پر اطمینان نہیں۔ اس کا اظہار انہوں نے قراردادوں کی شکل میں زبانی اور تحریری طور پر کر دیا ہے۔ یہ گھر کے اندر کے لوگ ہیں، ان کی تجاویز گھر سنوارنے کے لیے ہی ہیں، جن کو ہمدردی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔