ستر برسوں سے پاکستان میں جو چیزیں مسلسل رو بہ زوال رہی ہیں، ان میں ایک معیار تعلیم بھی ہے۔ بظاہر تعلیم عام ہوئی۔ خواندگی کی شرح بھی بڑھی۔ مگر معیار تعلیم نا قابل یقین حد تک گرا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں پرائمری سکول کا طالب علم لکھائی اور پڑھائی میں ہمارے آج کے سرکاری ہائی سکول کے گریجویٹ سے بہتر تھا۔ ساٹھ کی دہائی کا ہائی سکول گریجویٹ، ہمارے آج کے یونیورسٹی یا لاء سکول سے فارغ التحصیل شخص سے اچھا لکھتا پڑھتا تھا۔ ہمارے بچپن یعنی ستر کی دہائی میں ہمارے لیے یہ بات قیامت سے کم نہیں ہوتی تھی کہ ہم نقل کرتے ہوئے پکڑے جائیں۔ ہمارا ڈرائونا خواب یہ ہوتا تھا کہ ہمیں والدین یا استاد نقل کرتے ہوئے دیکھیں۔ یہ شرم کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اسی کی دہائی میں ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ وقت بھی دیکھا جب والدین اپنے بچوں کو نقل کا مواد پھینکنے کے لیے امتحانی کمروں کی کھڑکیوں کے نیچے منڈلاتے رہتے تھے‘ اور اساتذہ کرام، کمروں کے اندر رشوت لے کر یا صرف سفارش پر طلبا کو بنفس نفیس نقل مہیا کرتے تھے۔ نقل کروانے میں مدد فراہم کرنے والے ایسے والدین یا دوستوں کے ہجوم میں نے ایک معمولی دیہی سکول سے لے کر ملک کے نامور تعلیمی اداروں تک کے باہر خود دیکھے۔ نقل کے اس رجحان سے صرف نظام تعلیم اور معیار تعلیم ہی نہیں بگڑا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بد دیانتی، دھوکہ دہی، جعل سازی، رشوت اور بد عنوانی جیسی سماجی برائیوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا۔
تعلیم کے شعبے میں نقل کا یہ رجحان صرف سند یا ڈگری لینے تک ہی محدود نہیں رہا، آگے چل کر اس رجحان کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ یہ فن ملازمتوں کے حصول اور ملازمتوں میں ترقی کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ملک کی ایک پرانی اور شہرت یافتہ یونیورسٹی کے اساتذہ پر یہ سنگین الزام لگا کہ انہوں نے اپنے مقالوں میں انٹرنیٹ اور کتابوں سے چوری کیا ہوا مواد شامل کیا۔ نقل بازی کا یہ رجحان ادب ، شاعری اور صحافت میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ اس مسئلے کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنے کے لیے پہلے نقل کی تعریف کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ میں کیا بات کر رہا ہوں۔ جب کوئی لکھاری کسی دوسرے لکھاری کے الفاظ، خیالات یا معلومات کو اصل لکھاری کا حوالہ دئیے بغیر لکھ دیتا ہے تو اسے نقل کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں یہ جو پلے جیارازم کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہ بنیادی طور پر لاطینی زبان سے ہی آیا ہے۔ لاطینی زبان میں اس اصطلاح کا مطلب کسی کے بچے کو اغوا کرنا ہے۔ ہم لوگ روزمرہ کی زندگی میں نقل کی کئی قسموں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان میں پہلی قسم وہ ہوتی ہے جس میں کسی اور لکھاری کا فقرہ، جملہ یا پیراگراف اس کا ذکر کیے بغیر اپنی تحریر میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہوتی ہے ، جس میں ہم دوسروں کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار ان کا نام دئیے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہوتی ہے ، جب ہم دوسروں کے اعداد و شمار سے اخذ کردہ نتائج بھی بغیر ریفرنس کے پیش کر دیتے ہیں اور چوتھی قسم یہ کہ ہم دوسروں کی تحریر و تقریر کا خلاصہ ان کا مناسب حوالہ دئیے بغیر پیش کر دیتے ہیں۔ یہ سب نقل ہی کی اقسام ہیں اور پوری ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں قانونی اور اخلاقی جرم تصور کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں نقل کی کچھ بہت ہی سنگین شکلیں ہیں، جو نہ صرف علم و فضل کے میدان میں طلباء اور اساتذہ تک محدود ہیں ، بلکہ ان کا داہرہ وسیع ہو کر شعر و ادب تک جاتا ہے۔ اس سنگین شکل کی ایک مثال وہ ہے جب طالب علم اپنا کوئی مضمون یا مقالہ ہی کسی دوسرے سے لکھواتا ہے۔ تعلیمی دنیا کے اندر موجود اس سیدھے سادے دھوکے یا فراڈ کو ادب اور شاعری کی دنیا میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہے۔ اسی لیے بھوت لکھاری صرف مغرب میں ہی نہیں ، ہمارے ہاں بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اور سستے داموں دستیاب ہیں۔ معاوضے پر دوسروں کے لیے شاعری ، ناول، افسانے ، نثری کتابیں اور مقالے لکھنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ ہمارے ہاں اردو کے ایک بہت بڑے ادیب پر یہ الزام بھی لگ چکا ہے کہ انہوں نے انگریزی میں لکھی گئی تنقید کی ایک پوری کتاب کو اردو میں اپنے نام سے پیش کر دیا تھا۔ نقل کی کچھ ایسی قسمیں بھی ہیں جو ہم اس قدر استعمال کر چکے ہیں کہ اب ہمارے ہاں ان کو کوئی نقل ہی نہیں مانتا۔ ہمارے ہاں کچھ طلباء اور دوسرے کئی لکھاری روزمرہ کی بنیادوں پر اس نقل کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم کسی تحقیقی مضمون کے لیے ، یا ایک ادیب یا کالم نویس کسی تحریرکے لیے تحقیق کر رہا ہے، لیکن اس تحقیق کے دوران وہ جو معلومات لے رہا ہے اگر اس کے نوٹس نہیں بناتا، اور تحقیق کے اختتام پر وہ سمجھتا ہے کہ وہ موضوع کے بارے میں اتنا جانتا ہے کہ اسے کسی حوالے کے بغیر ہی لکھ سکتا ہے‘ اور وہ کتاب یا مضمون لکھ دیتا ہے تو یہ بھی نقل ہے‘ کیونکہ اس کی معلومات اس کی تحقیق کا نتیجہ ہیں، اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ نہیں۔ مغرب میں کوئی معلومات اور خیالات جو آپ نے کہیں سے بھی پڑھے ہیں، مگر آپ ان کا درست حوالہ نہیں دے سکتے ، ان کو کسی تحقیقی مقالے میں شامل کرنا نقل ہی سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی کے خیالات یا تحریر کو اپنے الفاظ میں دوبارہ لکھنا‘ اور اس کا حوالہ نہ دینا بھی نقل ہے۔ ہماری صحافت میں تو تخلیقیت یا اصلیت کا بہت فقدان ہے۔ دوسروں کے خیالات، دوسروں کے جمع کیے گئے اعداد و شمار، اور دوسروں کے اخذ کردہ نتائج کو اپنے الفاظ میں بلا کسی جھجک اور کوئی حوالہ دئیے بغیر روزانہ پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے کئی نامور کالم نویس گوگل اور وکی پیڈیا پر موجود معلومات کا ترجمہ حوالہ دئیے بغیرچھاپتے رہتے ہیں۔ شاعری میں تو خیر چوری کی روایت بلکہ واردات بہت پرانی ہے۔ دوسرے شاعر کا چرایا ہوا کلام اسی شاعر کو سنانے کے کئی لطائف عام ہیں۔ فیض صاحب سے کسی نے ان کی زندگی کا عجیب ترین واقعہ پوچھا تو انہوں کہا ، بھارت میں ایک مشاعرے میں میری موجودگی میں ایک شاعر نے میرا ہی کلام سنایا اور داد سمیٹ کر نکل گیا۔ رفیع رضا اس شہر کے ایک بڑے شاعر اور بے رحم نقاد ہیں۔ وہ اس بات پر شاکی رہتے ہیں کہ شاعروں کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی طریقے سے دوسروں کا کلام چراتے رہتے ہیں۔ میں نے یہ کالم لکھتے ہوئے انہیں فون کیا تو انہوں نے کہا: ہمارے شاعروں میں اصطلاحات، تراکیب، بحروں اور زمین کی نقل اتنی عام ہے کہ کوئی اسے برا نہیں سمجھتا۔ رضا کا خیال ہے کہ دلِ ناداں غالب نے استعمال کر دیا تو اس ترکیب کا دوبارہ استعمال نقل ہی ٹھہرے گی۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا: نادان شاعر نقل، اور پختہ شاعر چوری کرتے ہیں، برے شاعر جو چراتے ہیں اس کی صورت بگاڑ دیتے ہیں، اور اچھے شاعر اسے پہلے سے بہتر یا کم از کم مختلف بنا دیتے ہیں۔ شعر و ادب میں نقل و چوری کا یہ سلسلہ پرانا ہے، اور اثرات کے حوالے سے اتنا ضرر رساں بھی نہیں، لیکن ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں نقل کا روگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بطن سے کئی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ یہ سماج کو یہ پیغام دینے والی بات ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ناجائز ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یعنی مقاصد اہم ہیں ذرائع نہیں۔ اور یہ وہ سوچ ہے جس کے بطن سے جھوٹ، منافقت، استحصال، دھوکہ اور بد دیانتی جنم لیتی ہے۔ اور آج ہم جس پُر آشوب دور میں رہتے ہیں اور دن بدن زوال کا شکار ہیں، یہ اسی سوچ کا اظہار ہے۔