ایک محتاط حکمران اپنا وعدہ کبھی نہیں پورا کر سکتا، اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ یہ بات دی پرنس میں لکھی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے نکولو میکاولی کی کتاب، دی پرنس، سے اور کوئی بات سیکھی ہو یا نہ‘ لیکن یہ بات انہوں نے اچھی طرح سیکھی، اور پلے باندھ لی۔ گزشتہ ستر سال سے ہمارے حکمرانوں کے درمیان وعدے کرنے اور توڑنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اگر سیاست دان عوام سے کیے گئے وعدوں کا دس فیصد ہی پورا کر لیتے تو آج یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ لاہور کے جلسے میں عمران خان نے تعلیم کے بعد صحت کو پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ صحت کے میدان میں ان کا علم، تجربہ اور وابستگی کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ جس معیار کی اور جس پیمانے پر انہوں نے صحت کی سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے، اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائیں تو یہ تیسری دنیا کے ایک غریب ملک میں کسی بہت بڑے معجزے سے کم نہ ہو گا۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں عوام کو صحت کی معیاری اور مساوی سہولیات حاصل ہیں، وہاں ان کو جواب میں بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے صحت کی ورلڈ کلاس سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ٹیکس بڑھانے کے بجائے کم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں شاید وہ تفصیل سے بتائیں کہ وہ اربوں کھربوں روپے کہاں سے آئیں گے، جن کی بنیاد پر مفت اور معیاری علاج کی ایسی پُر شکوہ اور بے مثال عمارت کھڑی ہو گی؟
صحت کا حق انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں ابھی تک اس پر گفتگو ہی شروع ہوئی، مگر اقوام متحدہ کے عالمی اعلامیے میں اس حق کو واضح طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس اعلامیے کے آرٹیکل پچیس میں درج ہے کہ ہر انسان ایسے معیارِ زندگی کا حق رکھتا ہے، جو اس کے اور اس کے خاندان کی صحت اور بہبود کے لیے ضروری ہے۔ صحت کا حق ہر انسان کا بنیادی حق ہونے کا مطلب ہے کہ ہر انسان جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ایسے معیارِ زندگی کا حق دار ہے، جس میں ہر انسان کو جہاں وہ رہتا ہے وہاں آسانی سے طبی خدمات تک رسائی حاصل ہو۔ اسے طبیب، شفا خانے، دوا خانے اور صحت سے متعلق دوسری سہولیات اس طرح میسر ہوں کہ بوقت ضرورت اسے آسانی سے اور بروقت ان تک رسائی حاصل ہو۔ حقِ صحت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر انسان کو صفائی کی سہولیات میسر ہوں۔ صفائی کی سہولیات میں غسل خانے اور پانی کی وافر مقدار میں دستیابی شامل ہے۔ صحت کے حق میں مناسب خوراک اور مناسب رہائش کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صحت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کو روزگار اورکام کاج کے لیے مناسب اور صاف ستھرا ماحول میسر ہو۔ اورصحت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سب سہولیات معیاری ہوں، ہر شہری کو بلا امتیاز میسر ہوں۔
دنیا میں اس وقت ایک سو بیس کے قریب ممالک کے آئین میں صحت اور علاج کے حق کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کے آئین میں اس کو باقاعدہ طور پر شامل نہیں کیا گیا، البتہ آئین کے دیباچے میں اس کا حوالہ موجود ہے۔ خوش قسمتی سے آئین میں حقِ زندگی کو واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے، زندگی کے حق کی تشریح کرتے ہوئے پاکستان کی عدالتوں نے دانش مندی کا مظاہرہ ہوئے طبی امداد اور علاج کی سہولت کو انسانی حق تسلیم کیا ہے۔ اس طرح ایک حوالے سے صحت کا حق ایک سطح پر بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم ہو گیا۔
زندگی کے حق کی اصطلاح بڑی وسیع ہے۔ زندگی کا حق تسلیم کر لینے کے بعد یہ حکومت کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو وہ ماحول اور ذرائع مہیاکر ے، جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ایک انسان کو آلودگی سے پاک صاف ماحول، پینے کے لیے صاف پانی، ملاوٹ سے پاک معیاری خوراک، مناسب رہائش، طبی سہولیات اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔
صحت کا ایک ایسا نظام جو تمام شہریوں کو بلا تخصیص علاج کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ اس تصور پر ہمارے ہاں ابھی تک کھلا مکالمہ نہیں ہوا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور میں اس اہم معاملے کا سرسری ذکر ہوتا ہے۔ قومی سطح پر اس پر کوئی مباحثہ نہیں ہوتا۔ لیکن بنیادی طور پر یہ ایک بہت ہی پرانا تصور ہے۔ جرمنی جیسے ملک میں تو اٹھارہ سو تراسی میں یہ ایک قومی مباحثہ بن گیا تھا۔ اس سال جرمنی میں بیماری کی انشورنس کا قانون متعارف کروایا گیا۔ کم آمدنی والے مزدوروں کے لیے مالکان کی طرف سے انشورنس لازم قرار دی گئی تھی۔ اس کے لیے بیماری فنڈ متعارف کروایا گیا تھا، جس میں مالک اور ملازم دونوں شرکت کرتے تھے۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگلستان اور زارِ روس نے بھی اس سلسلے میں کچھ قانون بنائے تھے۔ سوویت یونین شاید دنیا کا پہلا ملک تھا، جس نے انیس سو سترہ کے انقلاب کے بعد ہیلتھ کیئر یعنی علاج معالجے کا ایک مکمل نظام قائم کیا، لیکن وہاں بھی شروع میں گائوں اور دیہات میں آباد لوگوں کو یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔ سن انیس سو انہتر میں جا کر اس نظام کو گائوں اور دیہات تک لے جایا گیا اور سب کو بلا تخصیص علاج کی سہولیات میسر آئیں۔ مغربی یورپ میں سب شہریوں کو علاج کی مساوی سہولت مہیا کرنے کا تصور دوسری جنگِ عظیم کے بعد زیادہ واضح ہوا۔ انگلستان نے جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد اس سلسلے میں نمایاں اقدامات کیے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سکنڈے نیویا کے ممالک نے یکے بعد دیگرے یہ نظام متعارف کروایا۔ سویڈن، ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ نے اس نظام کو اوج کمال تک پہنچایا اور اس میں مزید بہتری کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا کے بیشتر ممالک نے کسی نہ کسی شکل میں یہ بندوبست کیا کہ ان کے شہریوں کو علاج کی یکساں سہولیات میسر ہوں، مگر اس میں کامیابی صرف ان ریاستوں کو نصیب ہوئی جو فلاحی ریاستیں ہیں۔ امریکہ جیسے ممالک میں ابھی تک نظامِ صحت پر پورا اتفاق نہیںہے۔ صدر اوبامہ کے دور میں سب کے لیے علاج کی سہولت کے تصور پر کافی پیش رفت ہوئی تھی۔ اوبامہ کینیڈا کے نظام سے کافی متاثر تھے۔ ان کے ماہرین نے کینیڈا کے نظام صحت کا جائزہ لینے کے لیے کئی دورے کیے۔ آج دنیا میں یونیورسل ہیلتھ کیئر سسٹم کے کئی ماڈل ہیں۔ ایک ماڈل وہ ہے جس میں اس کے اخراجات عوام کے ٹیکس سے پورے کیے جاتے ہیں۔ جیسے سویڈن، ڈنمارک اور سپین و پرتگال وغیرہ میں رائج نظام۔ جرمنی، فرانس اور جاپان جیسے ممالک میں یہ نظام پبلک اور پرائیویٹ شراکت داری اور انشورنس سے چلایا جاتا ہے۔ کوئی ملک ہو، یا کوئی ماڈل ہو۔ دنیا میں جن ممالک نے اپنے شہریوں کو علاج کی مفت سہولیات دے رکھی ہیں ان میں تین چیزیں مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ یہ امیر اور فلاحی ریاستیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ اپنے عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ ان کے بجٹ کا بڑا حصہ صحت کے لیے مختص ہوتا ہے۔ علاج کی معیاری سہولت ایک مہنگا کام ہے۔ یہ ان ملکوں میں چل سکتا ہے، جن کے پاس تیل کی طرح کے بے تحاشا قدرتی وسائل ہیں، یا پھر ان ملکوں میں جہاں معاشرے میں معاشی خوشحالی اور استحکام ہے اور عوام بھاری ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ملک میں اس نظام کو کم از کم معیار پر چلانے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہاں ٹیکس کا ایک منظم اور مربوط نظام لایا جائے، جس کے تحت ہر شخص اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہو۔ دوسرا یہ کہ بجٹ مختص کرنے میں ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے، ریاست کو ایک فلاحی ریاست کی شکل دی جائے، اور غیر پیداواری اور غیر ضروری اخراجات گھٹا کر وسائل صحت کے شعبے پر خرچ کیے جائیں۔ اور ایسا ریاست کی معاشی، دفاعی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔