محبت اور مارکس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک خاتون پروفیسر نے کہا: کارل مارکس ایک بہت بڑے رومانیت پسند اور اپنے خاندان سے محبت کرنے والے شخص تھے۔ وہ ایک وفادار اور محبت کرنے والے شوہر تھے، جنہوں نے غربت اور جلا وطنی میں اپنی شریک حیات کا ساتھ دیا۔ مارکس نے اپنی بچپن کی محبوبہ جینی سے شادی کی اور تاعمر یہ بندھن قائم رکھا۔ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی میں بھی روایتی اور گہری دلچسپی لی۔ مارکس ایک غیر معمولی انقلابی تھا، لیکن ذاتی زندگی میں وہ ایک روایتی رومانیت پسند آدمی تھا۔ ایام جوانی میں مارکس نے جینی کو بڑے رومانوی اور پیار بھرے خط لکھے۔ اپنے باپ کے نام ایک خط میں لکھا: میری طرف سے میری پیاری جینی کو سلام، میں اس کا خط دس بار پڑھ چکا ہوں، اور ہر دفعہ اس میں مجھے نئی مسرت محسوس ہوئی۔ اپنے سٹائل سمیت یہ ہر طرح سے انتہائی خوبصورت خط ہے، جو ایک عورت کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ مارکس نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں محبت، انا اور وفاداری پر دلچسپ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ محبت کے معاملے میں ایک انسان کی شریکِ حیات اس کے دل کی گہرائیوں میں رہتی ہے۔ وہ یہ یقین کرنا چاہتا ہے کہ اس کی شریک حیات کہیں موجود ہے، بے شک اس کے حالات کوئی بھی ہوں۔
تقریب میں فیمینسٹ موومنٹ یا تحریکِ نسواں کی حامی ایک نوجوان خاتون کو اس بات پر اعتراض تھا کہ کارل مارکس کا زیادہ جھکائو مردوں کی طرف تھا۔ اس خاتون نے اپنی بات کے حق میں مارکس کی ایک تحریر، 'کمیونزم اور ذاتی جائیداد‘ کا حوالہ دیا، اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر آج مارکس زندہ ہوتے تو شاید تحریک نسواں کے خلاف نہ ہوتے، مگر اس کے کوئی پُرجوش حامی بھی نہ ہوتے۔ یہ تحریر میں نے پہلے بھی پڑھی تھی، اور یہ تقریر سننے کے بعد ایک بار پھر پڑھی، مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اس تحریر کی تحریکِ نسواں کو نا پسند کرنے سے کیا نسبت ہے۔ 'کمیونزم اور ذاتی جائیداد‘ میں مارکس لکھتا ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص سے ایک براہ راست، قدرتی اور ضروری رشتہ ایک مرد اور عورت کا ہے۔ مرد اور عورت کا رشتہ انسان کا انسان سے سب سے جینوئن رشتہ ہے۔ اگر تم محبت کرو، جواب میں محبت جگائے بغیر، اگر تم ایک محبت کرنے والے شخص کے طور پر اپنے اظہار سے جوابی محبت نہ پائو تو تمہاری محبت بانجھ ہے، بد قسمت ہے۔ اس تحریر سے کارل مارکس کی جنسی رخ بندی یا سمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ محبت کو گہرائی سے سمجھتا تھا اور اس کے بارے میں خوبصورت خیالات رکھتا تھا، مگر اس کا تعلق ہمارے دور کی فیمینسٹ موومنٹ یعنی تحریکِ نسواں سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
ایک بوڑھے پروفیسر نے مضبوط دلائل سے مارکس کے عورتوں کے حقوق کے بارے میں نظریات کو دور جدید کے اہم ترین اور منصفانہ نظریات قرار دیا، جس میں عورت کو انسانی سماج کے اندر مکمل برابری، مقام اور عزت دینے کی بات کی گئی۔ اس نے مارکسزم کو معلوم انسانی نظریوں میں عورتوں کے حوالے سے سب سے بہتر اور ترقی پسند نظریہ بھی قرار دیا۔ جہاں مارکس کا ذکر ہو وہاں انگلس کا ذکر بھی لازمی ہوتا ہے؛ چنانچہ پروفیسر نے انگلس کا حوالہ بھی دیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ بورژوا یعنی سرمایہ دار کے نزدیک عورت محض ایک اثاثہ ہے۔
مارکس کے یوم پیدائش پر یہ گفتگو ٹورانٹو کی ایک مقامی یونیورسٹی میں ہو رہی تھی۔ مقررین میں جوان طلبا اور بوڑھے پروفیسر شامل تھے۔ جنس کے اعتبار سے ایل جی بی ٹی کیو یعنی ہر طرح کے جنسی رجحانات اور سمت رکھنے والے لوگ تھے؛ چنانچہ یہاں مارکس کی زندگی کا ہر پہلو زیر بحث آیا۔ میرا خیال تھا کہ میں نے مارکس کو اور مارکس کے بارے میں اپنے تئیں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے، مگر اس تقریب میں مجھے مارکس کے بارے میں کچھ ایسی چیزیں بھی معلوم ہوئیں جو میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ مقررین اپنی اپنی نظریاتی اور جنسی رخ بندی کے مطابق مارکس کو جانچ پرکھ رہے تھے۔ اس کے نظریات کو اپنی نظریاتی کسوٹی پر پرکھ رہے تھے‘ اور اس کی عملی اور ذاتی زندگی کو اپنی جنسی رخ بندی کی روشنی میں دیکھ رہے تھے۔ اوج کمال پر پہنچی ہوئی اظہارِ رائے کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے جذبات اور خیالات کا بے دھڑک اظہار کر رہے تھے۔ ان کی خیال آرائی اور انکشافات اچھے تھے۔ یہ خیالات سننے اور جاننے کے قابل ہیں، مگر اردو کالم میں ان کا اظہار شاید ابھی تک فحش نگاری کے زمرے میں ہی آتا ہو؛ چنانچہ میں یہاں صرف ان باتوںکا ذکر کرتا ہوں جو ایک قدامت پسند سماج میں پڑھی یا لکھی جا سکتی ہیں۔
تقریب میں ایک نوجوان نے بڑے افسوس کا اظہار کیا کہ چین نے کارل مارکس کو سرکاری سطح پر گود لیا ہوا ہے۔ اس کے نظریات اور شخصیت کی توصیف ہو رہی ہے، مگر عملی طور جو کچھ ہو رہا ہے وہ مارکس کے نظریات سے متصادم ہے۔ چین میں طبقاتی تقسیم ناقابل بیان حد تک گہری ہے۔ شہری اشرافیہ اور دیہات میں رہنے والوں کی وسیع آبادی کے معیارِ زندگی اور آمدن میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ سرمایہ دار شتر بے مہار ہے، اور مزدور پابندیوں کے جال میں جکڑا ہے۔ ان حالات میں مارکس کو سرکاری پروٹول یا اس کے نظریات کی سرکاری سطح پر تبلیغ کے کیا معنی ہیں؟
مارکس کی پیدائش کی دو سو سالہ تقریبات دنیا بھر میں منعقد ہوئیں۔ یہ تقریبات کیوبا جیسے اکا دکا ملکوں میں‘ جہاں ابھی تک سوشلزم ہے‘ سرکاری سطع پر منعقد ہوئی۔ دوسرے ممالک میں کارل مارکس کی فکر اور نظریات سے متاثر لوگوں نے تقریبات منعقد کی ہیں۔ سرکاری سطح پر جس ملک میں سب سے دلچسپ جشن منایا گیا‘ وہ چین تھا۔ مارکس کی پیدائش کا جشن پورا ہفتہ ریاستی ذرائع ابلاغ کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا۔ اس سلسلے میں چین کے طول و عرض میں کئی تقریبات ہوئیں، مگر سب سے دلچسپ اور بڑی تقریب پیپلز گریٹ ہال میں ہوئی۔ اس تقریب میں چینی صدر زی جن پنگ نے دلچسپ اور اہم باتیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم تاریخ کے ایک عظیم ترین مفکر کو خراج تحسین پیش کرنے اور مارکسزم کی سائنسی سچائی پر اپنے پختہ یقین کا اظہار کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ زی جب سے صدر بنے ہیں‘ اپنے کارکنوں کو اپنی سوشلسٹ جڑوں کے ساتھ پیوستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ دو سو سالہ تقریبات کے اس موقع پر زی جن پنگ نے پارٹی کارکنوں کو مارکسزم پڑھنے، سمجھنے اور مارکسسٹ طرز زندگی اپنانے کی تلقین کی۔ میرے خیال میں دوسرے بڑے لوگوں کی طرح کارل مارکس کا بھی المیہ یہ ہے کہ اس کے پیروکار اس کے نظریات اور خیالات کو اپنی اپنی سمجھ بوجھ، سوچ اور ضروریات کے مطابق اپناتے ہیں۔ اتنے کروڑوں پیروکاروں کے ذہنوں میں مارکسزم کا کوئی ایک نقشہ نہیں۔ الگ الگ ملکوں اور تہذیبوں کے اندر مارکس اور اس کی تعلیمات کو الگ الگ طریقے سے سمجھا جاتا ہے۔ چین اگر مارکس کو سرکاری یا اہم درجہ دیتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مارکسزم ایک معاشی اور سماجی نظریہ ہے، کوئی عقیدہ نہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے معروضی حالات کے مطابق اس سے استفادہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ جو اسے ناپسند کرتے ہیں انہیں اپنی نا پسندیدگی کے اظہار کا حق ہے۔ مارکس کے بارے میں آخری فیصلہ بالآخر تاریخ نے کرنا ہے، جس کے لیے طویل انتظار کی ضرورت ہو گی کہ پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے، ختم نہیں ہوئی۔