مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ جنگ زدہ اور تصادم کے شکار دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کی تاریخ اور جہدوجہدِ آزادی کے بارے میں بھی کئی بیانیے موجود ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بیانیہ بھی ایسا نہیں، جو جواں سال فکر اور عصرِ حاضر کے تنقیدی ذہن کو پوری طرح مطمئن کر سکتا ہو۔ کشمیر کے موجودہ حالات ایک درد ناک ماضی کی پیداوار ہیں؛ چنانچہ ان حالات کو ماضی کے آئینے میں ہی درست طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے آئینے کا صاف و شفاف ہونا بہت ضروری ہے۔ کشمیر میں کچھ محقق اور دانشور اس آئینے پر پڑا گرد و غبار صاف کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں‘ اور حقائق کو پوری صحت کے ساتھ نوجوان نسل تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر نائلہ علی خان بھی ہیں۔ ان کی نئی کتاب ''کشمیر شیخ عبداللہ کی نظر میں‘‘ اس سلسلے کی تازہ ترین کاوش ہے۔ کتاب میں کہنے سننے کے لیے بہت کچھ ہے، مگر آج بات ہو گی صرف شیخ محمد عبداللہ کے ایک اہم انٹرویو پر جو اس کتاب میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو شیخ صاحب نے انیس سو انسٹھ میں نئی دہلی میں شبستان اردو ڈائجسٹ کو دیا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب شیخ صاحب تین سالہ قید کاٹ کر رہا ہوئے تھے۔ ہندوستان میں شیخ صاحب کی قید و بند کی صعوبتوں اور جلا وطنی کے بارے میں ہمارے ہاں زیادہ نہیں لکھا گیا، اس حوالے سے نوجوان نسل انجان ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے قید پر تھوڑی سی بات ہو جائے۔ اتفاق سے شبستان اردو کے نمائندے نے بھی اپنا پہلا سوال قید پر ہی کیا اور شیخ صاحب سے پوچھا کہ وہ تفصیل سے بتائیں کہ وہ کتنی دفعہ، کہاں، کب اور کتنی مدت کے لیے قید ہوئے۔ اور شیخ صاحب نے جواب میں جو تفصیل دی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ستمبر انیس سو اکتیس سے لے کر جنوری انیس سو اڑسٹھ تک شیخ صاحب تیرہ بار جیل کاٹ چکے تھے۔ جیل کاٹنے کا عرصہ چند ماہ سے لے کر پانچ چھ سالوں تک تھا، جن سب کو جمع کیا جائے تو شیخ عبداللہ کا شمار اس وقت دنیا کے طویل ترین سیاسی قیدیوں میں ہوتا ہے۔ یہ قید شیخ صاحب کو اس وقت کاٹنی پڑی جب مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کا سربراہ اور انگریز وزیر اعظم تھا، اور اس وقت بھی جب ریاست ہندوستان کے زیر انتظام جا چکی تھی اور ہندوستان کا وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جیسا جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کا علمبردار تھا۔ میری تحقیق کے مطابق مرتے دم تک کل ملا کر شیخ صاحب کی قید و بند کا عرصہ بائیس سال بنتا ہے۔ آج اگر ہم دنیا کے طویل ترین قید کاٹنے والے سیاسی قیدیوں کی فہرست بنائیں تو اس میں پہلے دس ناموں میں آنگ سان سوچی، لیو زیابو، نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ، اندرے سخاروف اور ہوچہ منہ کی طرح کے نام آتے ہیں۔ درحقیت دنیا کے طویل ترین قید کاٹنے والے قیدی فلسطینی ہیں، مگر فلسطینی سیاسی قیدیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان پر سیاست کے ساتھ دہشت گردی یا تشدد کے الزامات بھی لگا دئیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے دنیا انہیں سیاسی قیدیوں کی فہرست میں ڈالنے سے ہچکچاتی ہے۔ مگر شیخ صاحب کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہیں تھا۔ وہ عدم تشدد کے پرچارک نہیں تھے، لیکن انہوں نے کبھی تشدد یا دہشت گردی کی حمایت بھی نہیں کی۔ اس فہرست میں شامل نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ ان کے مدِ مقابل نہرو و گاندھی کا ہندوستان تھا، جن کو اس وقت دنیا جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے پرچارک مانتی تھی۔ اپنی قید کے علاوہ اس انٹرویو میں شیخ صاحب نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی جی ایم صادق کو مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں پاکستان کے دورے پر روانہ کیا۔ جی ایم صادق نے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات کی اور ان کو شیخ عبداللہ کا نقطۂ نظر پیش کیا۔ لیاقت علی خان نے جی ایم صادق کو بتایا کہ ہندوستان مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوا ہے، اور چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس لیے کشمیر پر پہلا حق پاکستان کا ہے۔ انہوں نے کہا: اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا جائے، اس کے علاوہ کوئی حل بھی پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ جواب میں جی ایم صادق نے کہا: بہتر ہو گا کہ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے، اور وہ جو بھی فیصلہ کریں اسے پاکستان اور بھارت دونوں تسلیم کریں۔ اس ملاقات میں لیاقت علی خان اور جی ایم صادق کسی بات پر متفق نہ ہو سکے‘ اور جی ایم صادق واپس کشمیر آ گئے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے بارے میں سوال کے جواب میں شیخ صاحب نے کہا: کشمیر کو بھارت کے زیر انتظام (قبضے) میں لاتے وقت ہمیں بتایا گیا تھا کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔ سردار پٹیل مختلف ریاستوں سے الحاقِ ہندوستان کی دستاویزات پر کامیابی سے دستخط کروا رہا تھا، مگر وہ کشمیر کے ساتھ معاملات طے نہ کر سکا۔ کشمیر کے مسلمانوں کو خوف تھا کہ وہ ہندوستان کی وسعتوں میں گم ہو جائیں گے۔ میں نے اس وقت کے بڑے بڑے سیاسی مدبروں کو خبردار کیا تھا کہ بھارت کو کشمیر کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور معاملات کو آہستہ آہستہ آگے بڑھنے دیا جائے۔ انہوں نے میری تجویز کو نظر انداز کر دیا‘ اور پھر بھارت نے اچانک اعلان کر دیا کہ الحاقِ ہندوستان کی دستاویز کے ذریعے، جس پر کشمیر کے حکمران نے دستخط کیے ہیں، کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے۔ انتہائی ہوشیاری سے عارضی الحاق کو مستقل الحاق میں بدل دیا گیا۔ مجھے اس پر بڑی پریشانی ہوئی، اور میں نے پنڈت نہرو، جو جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے تھے‘ کو بتایا کہ بھارت اپنے وعدے سے پھر چکا ہے۔ جواب میں نہرو نے کہا کہ اس وقت حالات بہت گڈمڈ اور پیچیدہ ہیں اس لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس جواب نے مجھے گہری چوٹ لگائی، مگر میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ میں نے حالات کا مقابلہ کیا، خصوصاً بھارت کی بدلتی ہوئی سوچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا میں نے بڑے عزم و حوصلے سے مقابلہ کیا۔ اور یہ عزم اب بھی قائم ہے۔ اس انٹرویو میں شیخ صاحب نے اس افسوس کا اظہار کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں وعدوں کے باوجود رائے شماری نہیں کروائی گئی۔ یہاںکمزور لوگوں کو اقتدار دے دیا گیا اور انہیں اور ان کے دلیر ساتھیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کے باوجود اب تک کوئی ایک شخص بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کشمیر حتمی طور پر بھارت میں شامل ہو گیا ہے۔ آج کشمیر کی تصویر بدل چکی ہے۔ یہ وہ کشمیر نہیں رہا، جو انیس سو سینتالیس میں تھا۔ بھارت پر مسلمانوں کا بھروسہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے بلوے، بد عنوانی اور غریب لوگوں کی لوٹ کھسوٹ اور امیر لوگوں کی عیاشیاں دیکھ لی ہیں، اور ان چیزوں کا ان پر بہت اثر پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی خود شیخ محمد عبداللہ میں بھی آئی، جو بالآخر اندرا عبداللہ اکارڈ پر منتج ہوئی۔ اس وقت تک شیخ صاحب جیلیںکاٹنے کے علاوہ بھارت کی طرف سے بغاوت اور غداری کے مقدمات اور پاکستان کا ایجنٹ ہونے کے الزامات بھگت چکے تھے۔ اندرا عبداللہ اکارڈ کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں اندرا عبداللہ گٹھ جوڑ قرار دے کر شیخ عبداللہ کو غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ شیخ صاحب کے بارے میں سرحد کی دونوں اطراف میں یہ دو بیانیے آج بھی اسی طرح موجود ہیں، اور ان پر بحث جاری ہے۔
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں