"FBC" (space) message & send to 7575

انفارمیشن کی تاریخ مس انفارمیشن کی تاریخ بھی ہے!

جس دور میں ہم رہتے ہیں یہ ما بعد از حقیقت کا دور ہے۔ ما بعد از حقیقت کا لفظ میں نے جناب نصرت جاوید کے کالم سے مستعار لیا ہے، ورنہ میں نے اس کا ترجمہ ما بعد از سچ کیا ہوا تھا، جو کوئی خاص جچتا نہیں۔ اصل لفظ پوسٹ ٹروتھ ہے، جو بہت سادہ اور آسان ہے، مگر اردو کے قالب میں ڈھل کر یہ کچھ مشکل سا ہو جاتا ہے۔ بہرحال اسے بعد از حقیقت لکھا جائے، یا سچ کے بعد کا زمانہ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ سچ کے بعد کے دور میں آ گئے ہیں۔ سچ کے دور میں داخل ہونے اور پھر اس سے نکلنے میں ہم لوگوں نے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ پہلے مراحلے پر ہم نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ تسلیم کیا۔ یعنی اکثریت کا ایک سچ یا ایک جھوٹ ہوتا تھا۔ پھر ہم میں سے کچھ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہر آدمی کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اور ایک شخص کا سچ، ممکن ہے دوسرے کے نزدیک جھوٹ ہو۔ اس پر ابھی کنفیوژن پورے طریقے سے دور نہیں ہوا تھا کہ ہم پوسٹ ٹروتھ دور میں آ گئے۔ اب سچ وہی ہے، جو ہمیں دِکھ رہا ہے یا ہماری پسند کا سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا ہمیں دیکھا رہا ہے۔ اب اس سچ کے ہمارے دور کے دو بڑے متاثرین ہیں۔ ایک سیاست اور دوسرا میڈیا۔ سیاست نئے دور کے ان سیاست کاروں سے متاثر ہوئی، جنہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کیا۔ اور روایتی ذرائع ابلاغ کو سوشل میڈیا کی وجہ سے کئی حیرت ناک جھٹکے لگے۔ سیاست میں اس کا پہلا مؤثر اظہار تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا۔ سچ کیا ہے؟ حقیقت کیا ہے؟ اصل بات کیا ہے؟
یہ سوالات ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران بار بار اٹھائے گئے ۔ ملبورون یونیورسٹی میں ایک سینئر ریسرچ فیلو ڈینس ملر نے دو ہزار سولہ کے موسم خزاں میں لکھا تھا کہ ٹرمپ نے خبروں کا ایک طوفان پیدا کیا، جس میں پیشہ ور اور سوشل میڈیا دونوں پھنس گئے۔ وہ پہلے ایک خوفناک جھوٹ کے ذریعے سوشل میڈیا میں ہیجان پیدا کرتا ہے، پھر بیٹھ کر دیکھتا ہے‘ جب پیشہ ور میڈیا کسی قسم کی تصدیق کی زحمت کے بغیر میدان میں کود پڑتا ہے۔ یہ میڈیا کے لیے اخلاقی بحران ہے، مگر یہ جمہوریت کا بحران بھی ہے۔ ستمبر دو ہزار سولہ میں دی اکانومسٹ نے 'جھوٹ کا فن: سچ کے بعد کی سیاست سوشل میڈیا کے دور میں‘ کے عنوان سے سرخی جمائی۔ اس نے ٹرمپ کی مہم کو نمونے کے طور پر لیا اور لکھا: وہ ایک ایسی دنیا میں رہتا ہے، جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنایا جا رہا ہے۔ اس پوسٹ ٹروتھ یا بعد از سچ کے دور میں، سچ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ جیسے لوگوں کے جھوٹ دنیا میں جھوٹا نقطہ نظر پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ اپنا تعصب پھیلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ کے موسم بہار میں گارڈین اخبار کے آسٹریلیا کے سیاسی ایڈیٹر نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر حقائق کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو میڈیا کے لیے کیا کردار باقی رہ گیا ہے۔ اس نے لکھا کہ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم پوسٹ ٹروتھ ماحول میں کام کر رہے ہیں، جہاں ہمارے سامعین اپنی پسند کے ایک بلبلے میں رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے تبصروں اور معلومات کا انتخاب کر سکتے ہیں، جو ان کے نظریات کے عین مطابق ہے، اور باقی سب کو مسترد کر سکتے ہیں۔ اکانومسٹ کے الفاظ میں ووٹر جھوٹ کے سمندر کے بہائو میں بہہ رہے ہیں، اور ان کے پاس تھامنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ووٹر سیاسی عمل سے تعلق منقطع کر چکے ہیں، بد ظن ہو چکے ہیں، اور وہ میڈیا کے چال چلن اور سیاست دانوں کی بد دیانتی سے اس قدر بد د ل ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے ہی تعصب میں پناہ لیتے ہیں۔ اس لیے وہ پوسٹ ٹروتھ سیاست کی بوچھاڑ کا آسان شکار ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس حالت تک کیسے پہنچے۔ سال دو ہزار گیارہ میں ایک کتاب چھپی تھی۔ کتاب کا مصنف آسٹریلیا کا وزیر مالیات تھا اور کتاب کا نام تھا: سائڈ شو۔ اس کتاب میں اس نے سیاست دانوں اور میڈیا پر غصے کا اظہار کیا کہ انہوں نے جمہوریت کو چھوڑ کر شخصیات، وقتی اور ادنیٰ چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اس کا یہ دعویٰ تھا کہ جب میڈیا پر ڈیجیٹل انقلاب نے سخت معاشی دبائو ڈالا تو اس نے سیاست سمیت ہر چیز کو تفریح میں بدل دیا۔ سیاست دانوں نے نئے دستور کا ایسا جواب دیا کہ خیالات کا مقابلہ ہنسنے یعنی کامیڈی کے مقابلے میں تبدیل گیا۔
آج اس کی دلیل درست لگتی ہے۔ ایک گونگی جمہوریت سیاسی بحث کی اہمیت کم کر دیتی ہے۔ ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس سے شکوک و شبہات اور بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ معاشی عدم تحفظ اور نا ہمواری کا ماحول اس کو بد تر بنا دیتا ہے۔ جب عوام اپنے آپ کو خطرے سے دوچار محسوس کریں، یا وہ ایسا محسوس کریں کہ ان کو ایک طرف دھکیل دیا گیا ہے، یا وہ پیچھے چھوڑ دئیے گئے ہیں، تو ان کو ایک قربانی کا بکرا چاہیے ہوتا ہے، اور وہ کسی بھی ایسی چیز پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جو ان کو یہ بکرا فراہم کرے۔ ما بعد از حقیقت سیاست یہی کر رہی ہے۔ وہ ان کو قربانی کے بکرے فراہم کر رہی ہے۔
اگر صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی ان کے پیشے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے تو وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ہمیں آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی اخلاقی اقدار کو بھلا چکے ہیں‘ اور ہمارے رویے نے جرنلزم پر شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔ صحافت کے پیشے کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ان کا کام جھوٹ اور سچ کو الگ کرنا ہے۔ اشاعت سے پہلے حقائق کی تصدیق کرنا ہے، اس کے بعد نہیں۔ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہے۔ 
آپ اپنے بارے میں کیا جانتے ہیں، یا آپ دنیا کے بارے میں کیا جانتے ہیں، یہ بات زندگی کے بارے میں آپ کے نقطۂ نظر کا تعین کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کی ڈیجیٹل انفارمیشن کو فوری طور نشر کرنے کی صلاحیت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ نیو یارک یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر چارلس سیئییف کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو عام طور پر درست ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ حقیقت کو افسانے سے الگ کرنا مشکل تر ہو رہا ہے۔ ہم معلومات کے قحط سالی کی ابتدا میں ہیں۔ آکسفورڈ یونورسٹی میں فلسفے اور اخلاقیات کے پروفیسر فلوریڈی نے اپنی نئی کتاب میں لکھا ہے کہ ڈیجیٹل انفارمیشن بنی نوع انسان کا چوتھا بڑا انقلاب ہے۔ کوپرنیکس نے ہمیں کائنات کے مرکز کے چکر سے نکالا۔ ڈارون نے حیاتیات میں ہماری ایک خاص سوچ سے، فرائڈ نے ہمیں اپنے خود فریب دماغ کی خود ساختہ استحقاق کی گرفت سے باہر نکالا اور اب ہم انفوسفائر کے مرکز سے باہر نکل رہے ہیں۔ آپ کے آن لائن پروفائل سے لوگ آپ کے بارے میں رائے بناتے ہیں، اور ان کی رائے کی وجہ سے آپ بھی اپنے بارے میں رائے بدلتے ہیں، اور اس سے آپ کی اصل شخصیت بھی بدل جاتی ہے۔ ہم انقلابی دور میں رہتے ہیں۔ انفارمیشن روشنی کی رفتار سے دنیا میں گردش کرتی ہیں۔ اس کو لا محدود بار نقل کیا جاتا ہے، یہ انفارمیشن ہر اس شخص کو دستیاب ہے جس کے پاس انٹرنیٹ ہے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی وبائی چیز ڈیجیٹل انفارمیشن ہے۔ لیکن انفارمیشن کی تاریخ مس انفارمیشن کی تاریخ بھی ہے۔ ماضی میں ایک متبادل حقیقت پیدا کرنے کے لیے ایک مطلق العنان ریاست کی ضرورت پڑتی تھی، مگر اب یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آن لائن ریویوز کا تیسرا حصہ جعلی ہے۔ اور جعلی تصاویر عموماً سوشل میڈیا پر نیوز سائٹس پر نمودار ہوتی ہیں، اور انعامات جیتتی ہیں۔ اپنی کتاب، چوتھا انقلاب میں پروفیسر فلوریڈی لکھتا ہے: آن لائن بیانیہ وہ نگاہ بدل دیتا ہے، جس سے ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے ما بعد از حقیقت کے اس دور میں کسی بات پر یقین کرنے سے پہلے اسے خوب ٹھونک بجا کر دیکھنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں