روزگار انسان کا حق ہے، اور اپنی مرضی کے روزگار کا انتخاب بھی۔ یہ بھی انسان کا حق ہے کہ اسے کام کرنے کے لیے ایک مناسب جگہ اور سازگار ماحول میسر ہو۔ ہر انسان بغیر کسی امتیاز کے یکساں کام کے لیے یکساں معاوضے کا حق دار ہے۔ اور ہر محنت کش کا یہ حق ہے کے اسے اتنا معاوضہ ملے، جس سے وہ اور اس کا گھرانہ ایک باوقار زندگی گزار سکیں۔ بے روزگاری کے دوران ریاست کی طرف سے سماجی تحفظ بھی ہر انسان کا حق ہے۔
یہ بظاہر کسی سوشلسٹ پارٹی کا منشور لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ پیراگراف میں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ سے لے کر کچھ اختصار سے اپنے الفاظ میں یہاں پیش کیا ہے۔ یہ اعلامیہ دنیا نے متفقہ طور تسلیم کیا اور دس دسمبر انیس سو اڑتالیس کو پیرس میں اس کا علان کیا۔ اس اعلامیے کے آرٹیکل 23 میں واضح طور انسان کے حقِ روزگار، حقِ انتخابِ روزگار، مناسب اور سازگار ماحول، مناسب معاوضے اور سماجی تحفظ جیسے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ اعلامیہ سات دہائیاں پہلے منظور ہوا تھا۔ اس پر دستخط کرنے والے ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے شہریوں کو اس اعلامیے کے اندر تسلیم شدہ حقوق دیں گے۔ آنے والے وقتوں میں اس کی عملی صورت گری مختلف ملکوں میں مختلف طریقے سے ہوتی رہی۔ اعلامیے کے اس آرٹیکل پر دنیا کے بیشتر شوسلسٹ ملکوں نے کافی حد تک عمل کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پروگرام پہلے ہی سوشلسٹ ملکوں کی معاشی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔ دنیا بھر کی سوشلسٹ پارٹیوں کے منشوروں میں مختلف الفاظ میں اس آرٹیکل کا نچوڑ موجود تھا۔ چنانچہ سوشلسٹ ملکوں کو اس آرٹیکل پر عمل کرنے کے لیے کوئی خاص جہدوجہد نہیں کرنی پڑی۔ کچھ کامیاب اور خوشحال سوشلسٹ ممالک میں کام کرنے کے اہل لوگوں کو روزگار کی گارنٹی دی گئی یا بے روزگاری کی صورت میں ان کی کفالت کی ذمہ داری لی گئی۔ سوشلسٹ ممالک کے بعد سکینڈے نیویا، کینیڈا اور سوئٹزر لینڈ جیسے ملکوں نے روزگار اور بے روزگاری سے متعلق انسانی حقوق کو بہت سنجیدگی سے لیا، اپنے اپنے معاشی اور سیاسی حالات کے مطابق بہترین نظام ترتیب دیے اور انسانی فلاح و بہبود کا قابلِ رشک نظام قائم کیا۔ مگر اب بھی گاہے کچھ مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک یکساں کام کے لیے عورت اور مرد کو یکساں معاوضے کی ادائیگی کا مسئلہ بھی ہے۔ کینیڈا میں اس وقت بھی عورتوں کے لیے مساوی معاوضے پر بات ہو رہی ہے۔ کینیڈا کا وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اپنے آپ کو کئی بار فیمینسٹ قرار دے چکا ہے۔ مگر اس کی ذاتی دلچسپی اور بھاگ دوڑ کے باوجود آج بھی عورت اور مرد کے معاوضے میں فرق موجود ہے۔ یہ فرق رکھنے والے پینتیس ترقی یافتہ ملکوں میںکینیڈا کا ساتواں نمبر ہے۔ اس فرق کو کم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ یہ خلیج کم کرنے کی رفتار اتنی سست ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس کو مکمل طور پر ختم ہونے میں ایک سو ستر سال لگیں گے۔ اس خلیج کی ذمہ دار محض ریاست نہیں، پرائیویٹ سیکٹر بھی ہے۔ اگر اتنے ترقی یافتہ ممالک میں عورت اور مرد کے معاوضے میں اتنی گہری خلیج ہے تو ہمارے ہاں کیا عالم ہو گا؟
انسان کے معاشی یا سیاسی حقوق کے سوال پر ہماری انگلی قدرتی طور فوراً ریاست کی طرف اٹھتی ہے، مگر ہمارے ہاں انسان کے معاشی اور سیاسی حقوق پائمال کرنے والی بے شمار دوسری قوتیں بھی ہیں، جن سے کم خوش نصیب افراد اور طبقات کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ ان میں نجی ادارے، جاگیریں اور کاروبار شامل ہیں۔ اس کی ہولناک مثالوں میں کھیت مزدور، بھٹہ مزدور، مل مزدور‘ کان کنی اور دیگر کئی شعبے شامل ہے۔ کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں کام کرنے والوں سے غیر انسانی اور ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ کئی اوقات کار بہت طویل ہیں۔ کئی کام کرنے کی جگہ کا ماحول مناسب اور صحت مندانہ نہیں۔ کئی کام کرنے والوںکو وہ فوائد اور تحفظات حاصل نہیں، جن کے وہ قانونی یا اخلاقی طور پر حق دار ہیں۔
ہم ہمہ وقت انسانی حقوق کی بات کرتے رہتے ہیں۔ شہری آزادیوں پر زور دیتے رہتے ہیں، مگر اس حقیقت سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں کہ سیاسی آزادیاں یا شہری آزادیاں ہمیشہ معاشی آزادیوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں‘ یعنی معاشی آزادی کے بغیر شہری اور سیاسی آزادیاں بے معنی اور بے سود ہیں۔
ایک انسان کو اگر خود اپنے لیے یا اپنے گھرانے کے لیے مناسب خوراک، رہنے کے لیے باوقار رہائش میسر نہیں، تو وہ اظہار کی آزادی کو کیا کرے گا۔ تنظیم سازی کی آزادی سے اسے کیا دلچسپی ہو گی۔ یہ کام تو روٹی، کپڑا اور مکان سے آگے کے ہیں، اور اس سے آگے شروع ہوتے ہیں۔ غربت کی اس بھیانک سطح پر زندہ رہنے والے لوگ بے شک جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں، ووٹ دیتے ہیں، اور ایسا ہوتے رہنا چاہیے، مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ایسے لوگ ان حالات میں اپنی مرضی یا پسند و نا پسند کی بنیاد پر ووٹ دے سکتے ہیں؟ یا ان کا ووٹ ان کی طرح کئی قسم کی معاشی اور سماجی مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے‘ اور جن کے ہاتھ میں یہ زنجیریں ہوتی ہیں، وہ ان کے ووٹ کا بھی فیصلہ کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا کی لبرل اور سوشل جمہوریتوں میں اس مسئلے کو کسی نہ کسی شکل میں ایڈریس کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر جمہوریتیں کام کرتی ہیں، اور لوگ نظام پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انسان روٹی، کپڑے اور مکان کے بنیادی فکر و اندیشے سے آزاد ہے۔ وہ اب اپنے اگلے حقوق کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ ہر طرح کی سماجی اور سیاسی سرگرمی میں کھل کر حصہ لے سکتا ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اگر اس کا روزگار چلا جائے تو وہ بھوکا نہیں مرے گا۔ ریاست اس کو سماجی تحفظ کے کسی پروگرام کے تحت با عزت زندگی گزارنے میں مدد کرے گی۔ اسے یہ بھی بھروسہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی نا انصافی ہو جائے تو ریاست بیچ میں آئے گی، اور اس کی مدد کرے گی؛ چنانچہ وہ کسی خوف، ڈر یا لالچ کے بغیر اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں ظاہر ہے نہ تو سماجی تحفظ کا کوئی پروگرام موجود ہے، اور نہ ریاست عام لوگوں کو ان کے مالکان، آجران وغیرہ کی طرف سے کسی نا انصافی کی صورت میں کوئی تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ہمارے ہاں ابھی تک انسان کے بنیادی حقوق اور معاشی حقوق کو دو الگ چیزیں سمجھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم لوگ ماضی میں رہتے ہیں۔ بہت پیچھے کہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ معاشی تصورات مروج ہیں‘ جو اس زمانے کی پیداوار ہیں‘ جب طبقاتی سماج کو خدا کی دین اور مرضی سمجھا جاتا تھا۔ جب سماجی اور معاشی مساوات کی بات کسی کی سمجھ سے باہر تھی اور کہا جاتا تھا کہ خدا نے انسان کو نا برابر پیدا کیا ہے تو ہم برابری کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ ان وقتوں میں یہ مساوات اور آزادی وغیرہ کی بات تو محض چند ایک فلاسفر اور دانشور کرتے تھے‘ جن سے سماج اتنا ڈرتا تھا کہ ان کو پھانسی چڑھا دیتا تھا یا زہر پلا دیتا تھا۔
ہمارے ہاں انسانی حقوق کے ایک نئے چارٹر کی ضرورت ہے، جس میں معاشی حقوق کا تحفظ اور فراہمی ریاست پر لازم ٹھہرے۔ جب تک غربت موجود ہے، آزادی کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ بات نیلسن منڈیلا نے کہی تھی۔ مگر اس سے بہت پہلے اس سے بھی زیادہ گہری اور مکمل بات کارل مارکس کر گیا تھاکہ انسان کا اصل مسئلہ تو معاشی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ فکرِ معاش سے آزادی سیاسی، سماجی اور شہری آزادیوں کے لیے بنیادی شرط ہے۔ ریاست کی طرف سے ہر انسان کے حقِ روزگار اور بے روزگاری میں سماجی تحفظ کے حق کو تسلیم کرنا، فکرِ معاش سے آزادی کی طرف پہلا اور لازمی قدم ہے۔