پھر علاقے میں کوئی عجیب مخلوق رینگ آئی، اور ہر چیز بدلنے لگی۔ سماج کو بد دعا لگ گئی۔ مرغیوں کی ڈار میں پراسرار بیماریاں پھیل گئیں، مویشی اور بھیڑیں بیمار ہو کر مرنے لگیں۔ ہر جگہ موت کے سائے منڈلانے لگے۔ کسان اپنے خاندانوں میں بیماریوں کے بارے میں فکر مندی سے باتیں کرنے لگے۔ یہ خوف و ہراس اور تباہی ایک خطرناک مواد کی بہت چھوٹی سی مقدار کی وجہ سے ہے۔ یہ مواد اتنا خطرناک ہے کہ اس کی بہت چھوٹی سی مقدار انسانی جسم میں بہت بڑی منفی تبدیلی لا سکتی ہے۔ چونکہ اس کیڑے مار دوا کی یہ چھوٹی مقدار جسم میں جمع ہوتی رہتی ہے، اور بہت آہستہ آہستہ خارج ہوتی ہے، اس لیے اس خطرناک دائمی زہر سے جگر اور دوسرے اعضا میں انحطاطی تبدیلیوں کا خطرہ حقیقی ہے۔ چونکہ صاف پانی، ہوا اور صحت مند مٹی جیسے عناصر زندگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے ماحولیات سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ یہ تحریر میں نے ریچل کارسن کی کتاب، خاموش بہار، سے لی ہے۔ یہ کتاب ماحولیات کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ریچل کارسن ایک مشہور امریکی مصنفہ اور ماحولیاتی کارکن تھی۔ وہ انیس سو سات میں پٹسبرگ کے نزدیکی قصبے سپرنگ ڈیل میں پیدا ہوئی۔ اس کی پرورش ایک فارم ہائوس میں ہوئی۔ اس فارم ہائوس کے قریب ایک فیکٹری تھی، جس میں بوڑھے گھوڑوں کے جسم کے کچھ حصوں سے گوند بنائی جاتی تھی، جس کی بد بو ہر وقت پورے علاقے میں پھیلی رہتی تھی۔ ریچل کو فطرت سے محبت تھی، اور اسے یہ مکروہ بد بو ماحولیات کے بارے میں فکر مند رکھتی تھی۔ بڑی ہو کر اس نے جان ہاپکن یونیورسٹی سے حیاتیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد امریکہ کے بڑے اخبارات اور رسائل میں ماحولیات پر لکھنا شروع کیا۔
سن انیس سو پچاس میں اس نے ڈی ڈی ٹی نامی کیڑے مار دوا پر تحقیق شروع کی۔ ڈی ڈی ٹی سب سے پہلے ایک سوئس ماہر کیمیا ہرمین ملر نے دریافت کی تھی۔ یہ دوا دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجوں میں پھیلنے والی جوئیں مارنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی، تاکہ میعادی بخار کے پھیلائو کو روکا جائے۔ بعد میں یہ زراعت میں کیڑے مکوڑے مارنے کے لیے استعمال کی جانے لگی۔ ریچل نے تحقیق کے بعد اس دوا کے ضرر رساں اثرات کے بارے میں آرٹیکل لکھے مگر کوئی اخبار یہ مضامین چھاپنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس کی وجہ حکومت اور اس کاروبار میں مصروف پرائیویٹ کارپوریشنز کا اثر و رسوخ تھا۔ دونوں اپنے طور پر ان ادویات کے استعمال کو محفوظ قرار دیتے تھے، اور ان کے استعمال کی تاکید کرتے رہتے تھے۔ اخبارات و رسائل سے مایوس ہو کر ریچل نے اس موضوع پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کتاب سامنے آئی تو ہر طرف تہلکہ مچ گیا۔ کتاب میں دلائل اور اعداد و شمار اتنے مضبوط تھے کہ جو ذرائع ابلاغ ریچل کا مضمون چھاپنے کے لے تیار نہ تھے، اس کی کتاب پر طویل تبصرے چھاپنے لگے۔ نیو یارک ٹا ئمز اور سی بی ایس وغیرہ نے اس کا انٹرویو کیا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ماحولیات ایک ذیلی قسم کا مسئلہ تھا۔ اس وقت تازہ تازہ کسانوں نے ادویات کے استعمال سے بے تحاشا فصلیں اگانی شروع کی تھیں۔ حیرت انگیز طور پر کئی گنا پیداوار کی وجہ سے کیڑے مار ادویات کو مستقبل کا خزانہ سمجھا جانے لگا تھا۔ مگر جب یہ کتاب سامنے آئی تو لوگوں نے خوف اور حیرت سے آلودہ کھانے اور جانے پہچانے پرندوں اور جانوروں کے معدوم ہونے کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ انہوں نے اس کتاب سے یہ بھی جانا کہ فصلوں پر چھڑکائو سے سرطان بھی ہو سکتا ہے، تو ماحولیات ایک مرکزی دھارے کا مسئلہ بن گیا۔
یہ کتاب اس وقت بڑے پیمانے پر سیاسی دلچسپی کا مرکز بن گئی، جب امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ اس نے سائنس کمیٹی کو کتاب میں موجود شواہد کا جائزہ لینے کو کہا۔ اس طرح اس سے ایک ایسے عمل کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں بالآخر انیس سو بہتر میں امریکہ میں ڈی ڈی ٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر اس تجارت میں مشغول کارپوریشنز نے کسی نہ کسی شکل میں اس کے بعد بھی اپنی تجارت جاری رکھی۔ 'خاموش بہار‘ کے مقابلے میں کارپوریشنز نے 'ویران دنیا‘ نامی کتاب لکھوائی، جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جن ممالک میں ڈی ڈی ٹی پر پابندی لگائی گئی ہے، وہاں خوراک کی پیداوار کم ہو جائے گی، جلد ہی ایک عظیم بھوک اور قحط کا سامنا ہو گا اور دنیا ویران ہو جائے گی۔ ڈی ڈی ٹی بنانے والوں نے بڑے پیمانے پر اس الزام کی تشہیر کروائی کہ ریچل سوویت یونین کی ایجنٹ ہے، جو امریکہ کی پیداواری طاقت کو تہس نہس کرنے کی سازش کر رہی ہے۔
اس کتاب میں ریچل نے یہ پیغام دیا کہ ماحولیات ایک پیچیدہ اور کلّیت پر مبنی نظام ہے، جس کا احترام و تعظیم ہونا چاہیے۔ یہ بتانے کے لیے کہ لوگ خود اپنے آپ سے کیا سلوک کر رہے ہیں، ریچل نے کتاب میں امریکی دیہات کا ایک منظر پیش کیا۔ اس منظر میں لوگ اپنی زمینوں پر آباد ہیں۔ یہاں جنگلی حیات کی بہتات ہے۔ کئی قسم کے پودے اور درخت ہیں۔ صاف اور شفاف دریا ہیں۔ پھر ایک دن کسی ظاہری وجہ کے بغیر جانور مرنا شروع ہو جاتے ہیں، پرندے نہ ہونے کی وجہ سے کھیت میں خاموشی کا راج ہے، سیب کے درختوں پر پھول تو کھلتے ہیں، مگر ان کے اوپر کوئی شہد کی مکھی منڈلاتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ فارم کی عمارتوں اور گھروں کے گٹرز میں ایک سفید رنگ کا پائوڈر جمع ہوتا ہے، جو کچھ ہفتے پہلے گرا تھا۔ یہاں کوئی جادو ٹونا نہیں ہوا، کوئی چڑیل نہیں آئی، اس تباہ حال زمین پر زندگی کے دوبارہ جنم کو کسی دشمن کی کسی حرکت نے نہیں روکا ہے۔ یہ کام لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے خلاف کیا ہے۔ کیمیائی آلودگی نیوکلیائی آلودگی کے بعد سب سے خطرناک ترین آلودگی ہے۔ ریچل نے جس سال یہ کتاب لکھی تھی، اس وقت منڈی میں کیڑے مار ادویات کی کوئی دو سو قسم تھی۔ اس کے بعد مختلف ناموں، شکلوں اور فارمولوں کے ساتھ اس میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا ہے۔ انیس سو ساٹھ سے لے کر آج تک دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں مضر صحت اور ماحولیات کے لیے نقصان دہ کئی ادویات اور کیمیکلز کی واضح شناخت کر کے ان کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی‘ مگر ہمارے ہاں آج بھی زراعت میں ایسی ادویات استعمال ہوتی ہیں، جن کے استعمال پر ترقی یافتہ ممالک میں پابندی ہے۔ ان ادویات کے اثرات کھیتوں سے نکل کر شہروں تک پہنچتے ہیں۔ گرد اور ہوا کے ذریعے مضر صحت اور ماحولیات کے لیے نقصان دہ کیمیکلز کے بارے میں قائد اعظم یونیورسٹی اور لین کاسٹر یونیورسٹی کی مشترکہ رپورٹ دیکھی جا سکتی ہے، جو کچھ گزشتہ سال آئی تھی۔ رپورٹ میں ان کیمیائی مادوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جو یورپ اور امریکہ میں غیر قانونی قرار دئیے جا چکے ہیں، اور ہمارے ہاں بدستور استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں کئی لوگوں کے پیشاب کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے اور نتائج میں بتایا گیا کہ دھول اور گرد کے ذریعے پھیلنے والے یہ کیمیائی مادے انسانی صحت کے لیے کتنے ضرر رساں ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے درخت لگانے کے اعلان کے علاوہ کسی جماعت کے انتخابی منشور میں ماحولیات کے مسئلے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ حالانکہ آلودہ خوراک کے علاوہ ہمارے شہروں میں پانی اور ہوا کی آلودگی بھی سنگین شکل اختیار کر چکی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ماحولیات کوئی سائنس کا مسئلہ نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ صاف پانی، صاف خوراک اور صاف ماحول کا تعلق زندگی اور موت سے ہے۔ اس طرح یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ ایک بڑی تعداد میں زہر آلود سانس لینے، آلودہ پانی پینے اور زہر ملا کھانا کھانے پر مجبور ہیں، وہاں کے عام انتخابات میں غربت اور دولت کی غیر مساوی تقسیم کے بعد ماحولیات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اسے مناسب توجہ ملنی چاہیے۔