"FBC" (space) message & send to 7575

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

جوں جوں الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں، سیاسی مباحث میں عوام کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ سیاسی کارکن کی بات زیادہ غور سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاستدان اپنا زور خطابت اس بات پر لگاتے ہیں کہ عوام بے پنا ہ مسائل کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ حالانکہ سیاست دانوں کو اس تکلف کی ضرورت نہیں۔ عوام پہلے ہی یہ جانتے ہیں۔ عوام مانتے ہیں کہ وہ مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ کیونکہ وہ شب و روز اپنے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے مسائل دیکھتے ہیں، ان کا شکار رہتے ہیں، اور ان کے حل کی فکر میں کھوئے رہتے ہیں۔ 
مگر جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مسائل کی نشاندہی کرنا ہی کافی نہیں، اصل بات ان کا حل تجویز کرنا ہے۔ مسائل کا حل ہی وہ مقام ہے، جہاں پہنچ کر سیاست دانوں میں اختلاف رائے شروع ہوتا ہے۔ اس مقام پر سیاسی جماعتیں اور افراد اپنے اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق عوام کو درپیش مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک ہی مسئلے کو ہمیشہ ایک سے زائد ذرائع اور طریقے سے حل کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاست دانوں کو اپنی سوچ، سمجھ اور سمت کا واضح اظہار کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ عوام کو کچھ بہت ہی بنیادی نوعیت کے اور سادہ سوالات کا جواب دے سکیں۔ ان میں پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا سیاستدان اس درپیش مسئلے کو پوری گہرائی سے سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے لوگوں کو بجلی کی کمی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ تو کیا وہ جانتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے اس وافر مقدار میں بجلی کی ضرورت ہے کہ لوڈ شیڈنگ نہ کرنی پڑے۔ اب بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے کئی ذرائع ہیں۔ ان میں نیوکلیئر، پانی، کوئلہ، ونڈ اور دوسرے کئی طریقے شامل ہیں۔ بعض حالات میں اپنی بجلی بنانے کے بجائے دوسرے ممالک سے بجلی کی درآمد بھی ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ اب اس مسئلے کا کوئی حتمی حل پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سیاست دان کو بجلی کی پیداوار کے مذکورہ مختلف طریقوں کا مکمل علم ہو۔ اس کے پاس ان منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات اور اس کے استعمال کی قیمت کی تفصیلات ہوں۔ ان الگ الگ طریقوں پر آنے والی لاگت اور صارفین کو فروخت کی قیمت کا علم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کے الگ الگ طریقوں کے ماحول پر اثرات سے آگہی ہو۔ مثال کے طور پر کوئی سیاست دان اگر عوام سے کہتا ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کو ترجیح دے گا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ دنیا میں کون کون سے ممالک کوئلے سے بجلی پیدا کرتے ہیں‘ اس پر کتنی لاگت آتی ہے، اور دوسرے طریقوں کے مقابلے میں اس طریقے سے بجلی پیدا کرنے میں کیا فائدہ ہے۔ یہ بھی کہ اس سے صارفین کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کا ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ تفصیل جانے کے بعد ہی عوام کو اپنے درپیش مسئلے کو سمجھنے اور اس کے حل کے بارے میں پوری جانکاری ہو گی۔ اس کے بعد اگلا بڑا اور سب سے اہم ترین سوال‘ جس کا جواب سیاست دان کو دینا چاہیے‘ یہ ہے کہ کوئلے کے اس پلانٹ کی تعمیر کے لیے کل کتنے پیسے درکار ہوں گے، اور وہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ اس کی تعمیر پر کتنا عرصہ لگے گا‘ اور محتاط اندازے کے مطابق کل کتنے برس بعد عوام اس منصوبے سے استفادہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ اس تفصیل میں جانے کے بجائے عموماً ہمارے سیاست دان عوام کی اطلاع کے لیے اتنا عرض کر دینا کافی تصور کرتے ہیں کہ ملک بجلی کے بحران کا شکار ہے، اور اگر عوام ان کو اقتدار میں لے آئیں تو وہ ملک میں ڈیموں اور پلانٹوں کا جال بچھا دیں گے۔ ظاہر ہے یہ ادھوری، گمراہ کن معلومات اور ایک غیر حقیقی دعویٰ ہے، جو اس ملک کے عوام ستر برس سے سنتے آرہے ہیں۔ 
چنانچہ ایک درست، مکمل معلومات دینے کے بجائے سیاست دان عوام کو اپنی ذات کے گرد گُھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عوام کو اپنے کردار اور دیانت داری کا یقین دلانے پر سارا زور خطابت لگا دیتے ہیں۔ باقی کا زور خطابت وہ اپنے مخالف سیاست دان کی کردار کشی پر لگاتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ مخالف سیاستدان سے زیادہ دنیا بھر میں نااہل، بد دیانت اور بد عنوان شخص کوئی اور نہیں ہے، اس لیے عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنے ووٹ مجھے دیں۔ اس طرح عوام کو ان کے مسائل سمجھانے اور اس کا حل بتانے کے بجائے سیاست کو ذاتوں اور شخصیات کے گرد گُھمایا جاتا ہے۔ اس سلسلۂ عمل میں انتخابات کے بعد خود سیاست دانوں کو اس وقت کسی منصوبے سے جڑے مسائل و مشکلات اور اس کے لیے درکار وسائل کی کمی کا اندازہ ہوتا ہے، جب وہ اس پر کام شروع کرتے ہیں‘ حالانکہ عوام اور سیاست دان‘ دونوں کے لیے پہلے ہی یہ جاننا کوئی مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ڈیم بنانے کے لیے اوسطاً کتنا عرصہ، کتنے پیسے چاہیے، اور فوری طور پر ڈیموں کے جال بچھانے اور فوری طور پر بجلی پیدا کرنے کی بات غیر حقیقی سوچ ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سیاست دان کو ہر شعبے کا ماہر ہونا چاہیے، لیکن جو قوم کی رہنمائی کا بیڑا اٹھانے نکلے، اس کے پاس بنیادی حقائق اور اعداد و شمار تو ہونے چاہئیں۔
ڈیم کی تو میں نے محض ایک مثال دی۔ زندگی کی دوسری بیشتر سہولیات اور ضروریات پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ تعلیم کی شرح میں اضافہ، نظام میں بہتری اور معیار میں اضافے کے لیے بھی وسائل اور وقت لگتا ہے۔ سکولوں کی عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں، اساتذہ کو تربیت دینے میں وقت اور پیسہ لگتا ہے، نصاب بنانے اور رائج کرنے کے لے مناسب وقت اور وسائل درکار ہے۔ اس طرح کے بیشتر کام طویل مدتی ہوتے ہیں اور کوئی بھی حکومت اپنے مختصر دور اقتدار میں نہیں کر سکتی ، جس کے اس نے وعدے کیے ہوتے ہیں، چنانچہ وہ حکومت آخر میں جھوٹی اور بے اعتبار قرار پاتی ہے۔ 
میں جانتا ہوں کہ مغرب کی بار بار مثال دینا شاید کچھ لوگوں کو ناگوار گزرتا ہو، مگر اس کے سوا چارہ نہیں۔ مغرب وہ سارے کام مدتوں پہلے انتہائی سلیقے اور کامیابی سے کر چکا ہے، جس کے ہم آج خواب دیکھتے ہیں، یہ خواب اپنے عوام کو دکھاتے رہتے ہیں‘ اور ان کے یہ خواب پورے کرنے کے جھوٹے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ تو مغرب کے اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں بیشتر طویل مدتی منصوبے بنتے رہتے ہیں، اور بیشتر مقررہ وقت پر یا پھر اس سے بھی پہلے مکمل ہو جاتے ہیں۔ مغرب میں آپ کو ایسے پُل، عمارتیں اور سڑکیں بنتی نظر آئیں گی جن کی آج نہیں اگلی صدی میں ضرورت درپیش ہو گی۔ اگلی نسل کی توانائی کی ضروریات کے لیے کئی منصوبے آج کی حکومت شروع کر رہی ہو گی۔ کسی منصوبے کا فیتہ کاٹنے اور کریڈٹ لینے کی کوئی دوڑ نہیں ہو گی۔ عوام کے روپے سے عوام کے لیے ایک معمول کا کام ہو رہا ہے۔ یہ کسی پر احسان نہیں ہو رہا۔ آپ کوئی اپنی جیب سے خیرات تو تقسیم نہیں کر رہے‘ تو پھر یہ اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا کیا مطلب ہے؟
مغرب میں انتخابات کے دوران سیاست دانوںکے کردار، شخصیات اور صلاحیتوں کو جانچنے پرکھنے کے لیے باقاعدہ ٹیلی ویژن پر مباحثے ہوتے ہیں۔ یہاں لیڈر دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں پر زور نہیں دیتے۔ یہ اپنی خوبیاں بتا کر خود ستائی کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے۔ اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہر سوال کا ٹھیک نکتے پر اور دو ٹوک جواب دیتے ہیں۔ کیا کرنا ہے، کیوں کرنا ہے، کیسے کرنا ہے، کب کرنا ہے، وہ ان چار سوالات کا جواب لاکھوں سامعین کے سامنے میڈیا پر دیتے ہیں، عوام سنتے ہیں، اپنی اجتماعی دانش بروئے کار لاتے ہیں، اور ووٹ کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ ہماری طرح یہ شور و غوغا، ہنگامہ آرائی، یہ خود ستائی اور اپنی عظمت کے ڈھول پیٹنے کا کام کم ہی ہوتا ہے۔ 
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں