"FBC" (space) message & send to 7575

دس کام جو پاکستان کو ڈنمارک بنا سکتے ہیں!

یہ ڈنمارک کیا بلا ہے؟ آج کل ہر محفل میں ڈنمارک کا ذکر ہے۔ ہمارے ایک سیاست دان اکثر نجی محفلوں اور گاہے عوامی اجتماعات میں ڈنمارک کی مثال دیتے رہتے ہیں۔ یہ سن کر کچھ لوگ چشمِ تصور سے پاکستان کو ڈنمارک بنتا دیکھتے ہیں۔ جو لوگ ڈنمارک گئے ہوئے ہیں، یا جنہوں نے ڈنمارک تصاویر میں دیکھا ہوا ہے، یا جن لوگوں نے ڈنمارک کے بارے میں تفصیل سے پڑھ لکھ رکھا ہے، وہ اس خواب کو کوئی نہ ممکن خواب نہیں سمجھتے۔ مگر پاکستان کی موجودہ معاشی و سماجی پسماندگی اور انتہائی گمبھیر مسائل کی موجودگی میں یہ خواب دیکھنے اور دکھانے والوں کی ہمت اور بلند پروازی کی داد دینا پڑتی ہے۔ ان کی سوچ و فکر کی بھی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے بطور ماڈل جس ملک کا انتخاب کیا، وہ اچھی حکمرانی اور معیار زندگی کے اعتبار سے پوری دنیا کے لیے ایک مثالی ملک اور بے داغ ماڈل ہے۔
یہ بات صرف تیسری دنیا تک ہی محدود نہیں، امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی اکثر سمجھ دار سیاست دان اور دانشور ڈنمارک کو بطور مثال پیش کرتے ہیں، اور اس کی تقلید میں زندگی کے بہتر امکانات دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ امریکی کانگریس میں موجود تقاریر کے ریکارڈ، امریکی اخبارات کے اداریوں اور مضامین‘ اور امریکی لٹریچر میں اس پر خاصا مواد موجود ہے۔ یہی بات دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے لٹریچر میں بھی ہے۔ 
مغرب میں کسی ایک نظام پر کوئی اجماع نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہاں کئی مکاتب فکر ہیں۔ قدامت پسند ہیں، ترقی پسند ہیں۔ دائیں بازو کے لوگ ہیں اور بائیں بازو کے دانشور اور سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ انارکسٹ ہیں، اور قانون کی کتاب پر بائبل کی طرح ایمان رکھنے والے بھی ہیں۔ جہاں تک نظامِ حکومت کی بات ہے تو کچھ لوگ کسی حکومت کا سرے سے نہ ہونا اچھی حکومت سمجھتے ہیں، کچھ کم از کم حکومت کو مثالی حکومت کہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ہر بات میں حکومت کی موجود گی کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ کچھ ڈنمارک ماڈل کو ایک مکمل مثالی نظام حکومت قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں جب آپ کو حکومت کی ضرورت ہے تو وہ آپ کے ساتھ کھڑی ہے، اور جہاں اس کی ضرورت نہیں، وہ کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ گویا ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ سادہ زبان میں یہ ایک مکمل فلاحی اور جمہوری ریاست ہے۔ اس میں معاشی اور سماجی عدم مساوات کی وہ شدت نہیں، جو عام طور پر کچھ سرمایہ دار ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ یہاں ایک قابل اعتماد جمہوری نظام ہے۔ انسانی حقوق کا احترام ہے۔ شہری آزادیاں ہیں۔ 
ڈنمارک کے نمونے پر ایک فلاحی جمہوری اور آزاد ریاست کی پاکستان میں صرف پانچ قسم کے لوگ مخالفت کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو بہت زیادہ رجعت پسند ہیں۔ دوسرے وہ جو بہت زیادہ گمراہ ہیں اور ان کے دلوں میں مغرب کے خلاف ناحق نفرت ہے۔ تیسرے وہ جن کے اپنے ذاتی معاشی و تجارتی مفادات کے لیے ڈنمارک جیسا منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام قابل قبول نہیں ہے۔ چوتھے وہ جن کا تعلق دائیں بازو کے بہت زیادہ قدامت پرست مکتبہ فکر سے ہے اور یہ لوگ نظریاتی اعتبار سے ہی فلاحی ریاست کے تصور کے خلاف ہیں۔ پانچویں وہ جو نظریاتی افیون کے نشے میں دھت ہیں، اور سیاسی نظریے کو عقیدہ سمجھتے ہیں، اور اس کی پوجا پاٹ میں لگے رہتے ہیں۔ ان مخصوص حلقوں کو چھوڑ کر پاکستانی عوام کی سادہ اکثریت ڈنمارک جیسے ہی کسی منصفانہ نظام کا خواب دیکھتی رہتی ہے، جس میں ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر ہوں اور ان کی عزتِ نفس محفوظ ہو۔ اس اتفاق رائے کے بعد، مگر سوال یہ ہے کہ ڈنمارک، ڈنمارک کیسے بن گیا، دوسرے الفاظ میں پاکستان ڈنمارک کیسے بن سکتا ہے؟ یہی اصل سوال ہے، اور اس پر بحث کی بہت گنجائش ہے۔ 
کرپشن کے خلاف لڑنے والی ایک عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سال دو ہزار میں ایک کتاب بطور ری سورس دستاویز جاری کی تھی۔ کتاب کا نام ہے: کرپشن کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ کتاب کا مصنف جرمی پوپ ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اس بات پر زور دے کر بتایا کہ ایک اچھی حکمرانی کے لیے کون کون سے اداروں کا اکٹھے کھڑا ہونا اور مل جل کر چلنا ضروری ہے‘ اور کس طرح ان اداروں کی عدم موجودگی یا ان کا آپس میں اختلاف اچھی حکمرانی کو تباہ کر دیتا ہے۔ ان اداروں میں پہلے نمبر پر اور سب پر بالادست و برتر منتخب مجلس قانون ساز یعنی مقننہ یا پارلیمان ہے۔ دوسرے نمبر پر ایک دیانت دار اور طاقت ور انتظامیہ ہے، تیسرا نمبر ہے ایک خود مختار غیر جانب دار اور جواب دہ نظامِ انصاف یعنی عدلیہ کا۔ چوتھے نمبر پر ایک خود مختار آڈیٹر جنرل ہے‘ جو صرف پارلیمنٹ کے آگے جواب دہ ہو۔ پانچویں نمبر پر ایک محتسب اعلیٰ، چھٹے نمبر پر ایک خود مختار اینٹی کرپش ایجنسی، ساتویں نمبر پر ایک دیانت دار اور غیر سیاسی سول سروس، آٹھویں نمبر پر ایک مؤثر اور با اختیار لوکل گورنمنٹ، نویں نمبر پر ایک آزاد اور خود مختار میڈیا، دسویں نمبر پر ایک سول سوسائٹی ہے‘ جو سرکار کی دیانت پر نظر رکھ سکے۔
یہ سطور پڑھنے کے بعد ایک پرائمری سکول کے طالب علم کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھے گا کہ جناب یہ سب ادارے تو ہمارے پاس پہلے سے موجود ہیں، تو پھر پاکستان کا یہ حال کیوں ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ فہرست کو زیادہ توجہ اور باریکی سے پڑھنا چاہیے۔ فہرست میں ہر ادارے کے ساتھ مختصر طور پر اس کی خاصیت بھی بیان کی گئی ہے۔ اداروں کی یہ خاصیت، صفت یا شرط اصل معنی رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر میڈیا کے ساتھ آزاد و خود مختار کی شرط ہے۔ آپ کے پاس بے شک ہزاروں اخبارات یا ٹیلی ویژن سٹیشن (چینل) ہوں، مگر وہ اس وقت تک بے کار ہیں، جب تک آزاد اور خود مختار نہ ہوں۔ یہی بات عدلیہ پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر کسی ملک میں عدلیہ ہے، مگر وہ خود مختار اور غیر جانب دار نہیں‘ تو بے کار ہے۔ اس طرح برتر مقننہ، اور طاقت ور انتظامیہ وغیرہ۔ تو بات یہ ہے کہ فقط اداروں کا ہونا کافی نہیں۔ اداروں کے ساتھ برتر، طاقت ور، آزاد، موثر وغیرہ جیسی جو شرائط ہیں ان کا پورا ہونا بھی ضروری ہے‘ ورنہ یہ ادارے محض دھوکہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ کرپشن اور نا انصافی میں ساجھے دار بن جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈنمارک ڈنمارک کیسے بنا؟ جواب یہ ہے کہ ڈنمارک نے تقریباً دو صدیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد نا صرف ادارے بنائے بلکہ ان اداروں کے ساتھ منسلک شرائط بھی عملی طور پر پوری کیں۔ ایک صدی پہلے ڈنمارک میں ہم سے زیادہ کرپشن تھی۔ سرکاری ملازم رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ ڈنمارک نے کرپشن کے خلاف لڑائی میں کئی تجربات کیے۔ ایک وقت میں ہر سرکاری ملازم کے لیے قانون کی ڈگری لازمی قرار دے دی گئی تھی۔ ڈنمارک نے اپنے لوگوں کو کرپشن کے خلاف تعلیم دی۔ یہ یورپ کے ان معدودے چند ملکوں میں سے تھا، جس نے بہت پہلے اپنی خواندگی کی شرح سو فیصد کر لی تھی۔ آج پوری دنیا یہ مانتی ہے کہ ڈنمارک بہترین حکمرانی کے معیار اور تصورات پر پورا ترتا ہے۔ اور یہ ایک مثالی فلاحی اور جمہوری ریاست ہے۔ 
حاصلِ کلام یہ ہے کہ پاکستان کو ڈنمارک بنانے کی بات کوئی چاند مانگنے والی بات نہیں ہے۔ یہ ایک قابل عمل اور نیک خواہش ہے۔ مگر یہ خواہش پوری کرنے کے لے انتہائی تیز رفتاری سے ایسے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جو اداروں کو کرپشن اور نااہلی کے روگ سے نکال کر اہل، شفاف اداروں میں تبدیل کر دیں۔ اور یہ ادارے ڈنمارک کے اداروں کی طرح اپنے فرائض منصبی آزادی، خود مختاری، غیر جانب داری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کر سکیں۔ جو کوئی بھی پاکستان کو ڈنمارک بنانا چاہتا ہے، اسے دس کام کرنے ہوں گے۔ اس کو اپنے دس اداروں میں مذکورہ بالا دس صفات پیدا کرنی ہوں گی۔ دس شرائط پوری کرنی ہوں گی جن کے بغیر یہ خواب پورا ہونا ممکن نہیں ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں