انتخابات میں اب دس گیارہ دن باقی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے بہت تاخیر سے اپنے انتخابی منشور جاری کیے ہیں۔ ہر ایک منشور میں بہت کچھ قابل بحث ہے۔ بہت کچھ قابل تحسین ہے اور قابل اعتراض بھی۔ ہر جماعت کے انتخابی منشور پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مگر اب انتخاب کا ہنگامہ اپنے عروج پر ہے۔ ہمارے ارد گرد اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہاں کوئی سنجیدہ بات نہ کہی جا رہی ہے، نہ ہی کوئی سننے کے لیے تیار ہے۔ میڈیا کے ایک بڑے حصے میں اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات اور جماعتوں کی عظمت کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنی دوڑ کا آغاز کر چکی ہیں۔ اب گھوڑے تو قانونی طور پر نہیں بدلے جا سکتے‘ مگر بیانیے بدلنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔ بیانیہ انتخاب والے دن بھی بدلا جا سکتا ہے‘ اور انتخابات کے فوراً بعد تو ہمارے ہاں بیانیہ لازمی بدلتا ہے۔
کامیابی کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد مگر ہمارے لیڈر ایک متفکر بلکہ غمگین چہرہ لے کر سامنے آتے ہیں۔ مسکراہٹ کی جگہ مایوسی اور اداسی کے سائے ہوتے ہیں۔ پھر وہ عوام کو انتہائی درد ناک آواز میں بتاتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے سب لوٹ لیا۔ سب تباہ کر دیا۔ ہمیں ورثے میں بھاری قرضوں، خالی خزانوں اور مسائل کے انبار کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ ملک کو تقریباً دیوالیہ کر گئے ہیں۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں؟ وہ معصومیت سے سوال پوچھتے ہیں۔ گویا منتخب ہونے سے پہلے ان کو کوئی خبر نہ تھی کہ کتنے قرضے واجب الادا ہیں‘ خزانے میں کتنے پیسے ہیں‘ اور عوام کے مسائل کیا ہیں۔ پھر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم تو آپ کی خدمت کا سچاجذبہ لے کر آئے تھے۔ آپ کے مسائل دیکھ کر ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ دن پریشانی میں گزرتے ہیں۔ مگر کیا کریں، ہم بے بس ہیں۔ آپ کے بے پناہ مسائل حل کرنے کے لیے جتنے بڑے وسائل درکار ہیں ، وہ ہمارے پاس ہیں ہی نہیں۔
سادہ لوح عوام یہ درد ناک کہانی سن کر اپنے غم بھول جاتے ہیں ، اور حسب معمول رہنمائوں کے غم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ فاقہ کشی کرتے ہیں، روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں، بے روزگاری کا عذاب سہتے ہیں۔ دوادارو کے لیے تڑپتے ہیں۔ بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتے۔ ان کو سکول پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ مگر زبان پر حرف شکایت تک نہیں لاتے کہ لیڈر کا غم ان کے غم سے بڑا ہے۔
یہ ایک کامیاب نفسیاتی ہتھیار ہے ، جو استعمال کر کے لیڈر آرام سے بری الذمہ ہو سکتا ہے۔ ہر طرح کی جواب دہی سے بچ سکتا ہے۔ جب وسائل ہی نہیں ، تو مسائل کا کیا ذکر کرنا اور حل کا کیا فکر ہے؟ یہاں ایک بنیادی سوال مگر ضرور اٹھتا ہے۔ عوام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جب آپ انتخابی ریلیوں اور منشوروں میں ہمیں سبز باغ دکھا رہے تھے، تو کیا آپ کو یہ خبر نہیں تھی کہ آپ کے پاس یہ وسائل کہاں سے آئیں گے؟ آپ کی پارٹی کے پاس ممکن ہے کوئی باقاعدہ تھنک ٹینک نہ ہو کہ ہمارے ہاں غور و فکر کا رواج ویسے بھی کم ہے، مگر مجلس عاملہ اور سینٹرل کمیٹی تو ہر پارٹی کے پاس ہے۔ کیا آپ کے ان پارٹی اداروں میں کوئی ماہر معاشیات نہیں یا ایسا کوئی سوجھ بوجھ والا شخص جو اپنے رہنما کو یاد دلا سکے کہ مسائل کے حل کے لیے وسائل کا ہونا ایک بنیادی شرط ہے؟ دنیا کے بیشتر مادی مسائل مادی وسائل کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ کیا آپ کے پاس ایک بھی ایسا دانا آدمی نہیں، جو آپ کو بتا سکے کہ عوام سے جان بوجھ کر جھوٹے وعدے، اور سبز باغ دکھا کر ووٹ لینا دھوکہ دہی اور بددیانتی ہے، بے شک آپ اسے سیاست کا بڑا نام دے دیں۔
عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے دوسرا عام بہانہ یہ ہوتا ہے کہ جناب ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ اس بہانے کو ایک یونین کونسل کی سطح سے لے کر پارلیمان اور مرکزی حکومت کی سطح تک بڑی چابک دستی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی اپنے ہاتھوں پر باندھی ہوئی نادیدہ ہتھکڑیاں لہراتا ہے۔ کوئی کہتا کہ ہمارے پاس تو بجٹ بنانے تک کا اختیار نہیں۔ کوئی کہتا ہے: بجٹ کا ایک بڑا حصہ تو صرف ناگزیر اخراجات کی مد میں اٹھ جاتا ہے، یہ ایک غریب ملک ہے۔ ہم اتنے پیسے کہاں سے لائیں، جن کی ضرورت ہے۔ گویا انتخابات میں شاندار کامیابی سے پہلے ان کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ بجٹ کیسے بنتا ہے، اور اس کا سانچہ کیا ہے۔
سادہ سی بات یہ ہے، جو ہمارے گامے ماجھے بھی جانتے ہیں، کہ کوئی بھی حکومت کسی مد میں جب کوئی پیسہ خرچ کرنا چاہے تو اس کے لیے بجٹ میں ایک رقم مختص کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے بجٹ کا ایک بنا بنایا سانچہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے بجٹ میں کچھ سٹیک ہولڈرز ہیں، جن کے لیے بجٹ مختص کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور دفاعی اخراجات کا اپنا ایک خاص بجٹ ہے، برسہا برس سے اس بجٹ میں کمی کبھی نہیں ہوئی، مگر اضافہ ضرور ہوتا رہا ہے۔ اچانک کوئی حکومت آ کر اس بجٹ میں کٹوتی نہیں کر سکتی۔ یہ قدم اٹھانے کے لیے چند بنیادی شرائط کا پورا ہونا لازم ہے۔ ان میں سے ایک شرط دوسرے ممالک کے ساتھ تنازعات کا منصفانہ حل ڈھونڈنا ہو گا۔ دوسرے ممالک کے ساتھ اعتماد و بھروسے کا رشتہ قائم کرنا ہو گا۔ مکمل امن قائم کرنا ہو گا۔ مگر یہ سارے کام اچانک حکومت میںآ کر نہیں کیے جا سکتے۔ ان کاموں کا ایک مکمل خاکہ آپ کو انتخابی منشور میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ جزئیات سمیت اپنے عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ آپ کے دوسرے ممالک کے ساتھ کیا تنازعات ہیں۔ مثال کے طور یہ کہنا کافی نہیں کہ آپ مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ یہ تو ہر پارٹی ستر برس سے ہر دور میں کہتی رہی ہے۔ اس کے بجائے یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ کے نزدیک مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ اور اس اس کا حل کیا ہے ؟ آپ مسائل پر عوام سے مینڈیٹ لیتے ہیں‘ اور اس مینڈیٹ کے زور پر آپ اپنی پالیسیوں میں مطلوبہ تبدیلی لاتے ہیں۔ تنازعات کے منصفانہ تصفیے کرتے ہیں۔ امن کی فضا قائم کرتے ہیں، خطروں سے بے نیاز ہوتے ہیں، تب جا کر آپ ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ ملکی سلامتی اب کوئی خطرہ نہیں رہا؛ چنانچہ اب ہمیں اپنے دفاع پر اس قدر بھاری اخراجات کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘ اس لئے اس مد سے آپ بجٹ کاٹ کر تعلیم یا صحت پر لگاتے ہیں، سکول اور ہسپتال تعمیر کرتے ہیں۔ بھوک اور ننگ ختم کرتے ہیں۔ دفاعی بجٹ تو میں نے صرف بطور مثال پیش کیا۔ یہی فارمولا زندگی کے ہر شعبے پر صادق آتا ہے؛ چنانچہ میں نے انہی سطور میں پہلے عرض کیا تھا کہ جو لوگ آپ سے دودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے کرتے ہیں، ان سے پوچھے جانے کا پہلاسوال یہ ہو گا کہ وسائل کہاں سے آئیں گے؟
حاصلِ کلام یہ ہے کہ انتخابات کے دوران ایک دیانت دارانہ اور بے لاگ مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مکالمے کے ذریعے عام آدمی بھی یہ جان جاتا ہے کہ آنے والی حکومت کیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کے لیے وسائل کہاں سے لائے گی۔ اس طرح انتخابی عمل جھوٹے وعدوں، غلط بیانیوں، اور دھوکہ دہی کے مرحلے سے نکل کر ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں عوام مسائل سے پوری آگہی کے بعد اپنی رائے دیتے ہیں۔ وہ امیدواروں سے غیر ضروری اور من پسند توقعات وابستہ نہیں کرتے۔ اس طرح عوام انتخابات کے نام پر بار بارجھوٹ اور فراڈ کے دائرے میں گول گول گھومنے کے بجائے، ایک حقیقی شفاف اور دیانت درانہ سیاسی اور جمہوری عمل سے گزرتے ہیں۔ اس عمل کا تسلسل بالآخر عوام کو اپنے آپ پر خود حکومت کرنے کا حق عطا کرتا ہے، جو بنی نوع انسان کا دیرینہ خواب ہے، اور جمہوریت کا اوجِ کمال بھی۔