انسان کا حال اس کے ماضی کا عکس ہوتا ہے۔ انسان آج کیا ہے؟ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کیوں کرتا ہے؟ یہ ساری تفصیل جان کر ایک سیانا آدمی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس شخص کا ماضی کیسا گزرا ہو گا۔ اسی طرح ایک انسان کا آج دیکھ کر اس کے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ بتایا جا سکتا ہے۔ کل آج کے فکر و عمل کا ثمر ہی تو ہوتا ہے۔
انسان نے ماضی میں جو کچھ بھی کیا ہوتا ہے‘ اس کی زندگی کا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے۔ اچھا برا سب اس کے پورٹ فولیو کا حصہ بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں کسی سے کوئی معاملہ کرنے سے پہلے اس کے ماضی کے بارے میں جاننا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک زبانی کلامی ماضی کے بارے میں کہنا سننا چل جاتا ہے‘ مگر مغرب میں کسی بھی کام کے لیے ماضی تحریری طور پر پیش کرنا پڑتا ہے۔ آپ ایک گیس سٹیشن پر گاڑیوں میں گیس ڈالنے کا کام ڈھونڈ رہے ہوں‘ یا ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتے ہوں آپ کو اپنا ماضی تاریخ در تاریخ پوری صفائی سے لکھ کر پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ماضی اہم ہے‘ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے‘ اور سائے کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح آپ کا خاندانی پس منظر بھی اہم ہے۔ ہمارے ہاں تو سب کچھ خاندانی پس منظر ہی سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں جمہوریت اور مساوات کے ابھرتے ہوئے نئے تصورات کے تحت کچھ عرصہ پہلے تک خاندانی پس منظر کو غیر متعلق سمجھا جانے لگا تھا۔ مگر حالیہ برسوں میں یہاں ایک نئی سوچ ابھری‘ یا پرانی سوچ پلٹ آئی۔ اب یہاں کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ خاندانی پس منظر اہم ہے‘ اور اس کی وجہ انسان کا ڈی این اے ہے۔ کچھ سائنس دانوں نے لوگوں کو بتا دیا ہے کہ انسان کی شخصیت اور کردار پر ڈی این اے کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے؛ چنانچہ اب کچھ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اہم ملازمین کے خاندانی پس منظر کے بارے میں جاننا ضروری سمجھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک امیدوار کے باپ یا دادا کا کیا پیشہ تھا۔ اگر کہیں قانونی ممانعت کی وجہ سے یہ سوال براہ راست نہیں کیا جا سکتا‘ تو دیگر ذرائع سے بالواسطہ اس کا جواب ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔
گویا ماضی اہم ہے۔ مگر سیاست میں اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟ یعنی کیا کسی سیاست دان کے موجودہ نظریات‘ خیالات یا کردار کو اس کے ماضی کے آئینے میں دیکھنا درست ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر ایک سیاست دان ماضی میں ڈکٹیٹرشپ کا حصہ یا حامی رہا ہو اور اب وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی لڑائی لڑنا چاہے تو کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ یا اگر کسی سیاست دان کے آبائو اجداد نوآبادیاتی قوتوں کے کاسہ لیس رہے ہوں تو کسی آزادی یا خود مختاری کی لڑائی میں اس کے اس خاندانی پس منظر کے باوجود اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کی سیاست میںکسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ آج کل یہ سوال ایک بار پھر نواز شریف کے حوالے سے زیرِ بحث ہے۔
ان کے ناقدین کی رائے یہ ہے کہ ان کی سیاست کی ابتدا چونکہ آمریت پسندوں کے سائے میں ہوئی‘ وہ ہئیت مقتدرہ کا بہت قریبی حصہ رہے ہیں‘ اس لیے وہ عوام کے حقِ حکمرانی کی بات نہیں کر سکتے‘ اور اس کو نظریاتی انداز میں ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ ایک سرمایہ دارانہ خاندانی پس منظر کے ساتھ‘ ملک کی ہئیت مقتدرہ کے کندھوں پر سوار ہونے والا شخص ایک نئے دور کا جدید انقلابی اور ترقی پسندانہ بیانیہ لے کر کیسے سامنے آ سکتا ہے؟
میرے خیال میں یہ سوال نظریاتی اور اصولی طور پر غلط ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ خود پاکستان میں بھی اکا دکا ہی سہی‘ مگر ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو قومی لیڈر کے طور پر سیاسی افق پر ابھرے‘ اور انہوں نے سوشلزم اور جمہوریت کا نعرہ لگایا‘ تو جہاں یہ بات ایک طرف ہئیت مقتدرہ کے لیے پریشان کن تھی‘ وہاں یہ بات کئی دانشوروں کے لیے حیران کن اور نا قابل یقین تھی۔ بھٹو خاندانی طور پر ایک نواب اور جاگیر دار تھے۔ وہ خاندانی طور پر حکمران طبقات میں شامل رہے تھے۔ ان کے والد کئی دوسرے سیاسی عہدوں کے علاوہ ریاست جونا گڑھ کے دیوان اور وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ لاڑکانہ‘ سکھر اور جیکب آباد میں بھٹو خاندان کی دو لاکھ پچاس ہزار ایکڑ زمین تھی۔ سندھ کا گورنر جنرل‘ اور بعد ازاں صدرِ پاکستان اسکندر مرزا‘ دونوں لاڑکانہ میں آ کر شکار کھیلتے تھے اور بھٹو خاندان کے آبائی گھر المرتضی میں قیام کرتے تھے۔ اسی گھر میں بھٹو خاندان کی میزبانی کا لطف اٹھانے اور ان کی شکار گاہوں میں شکار کھیلنے جنرل محمد ایوب بھی آئے؛ چنانچہ بھٹو صاحب نے سیاست کا آغاز کسی عام آدمی کے طور پر نہیں کیا۔ وہ برکلے اور آکسفورڈ سے ہوتے ہوئے مختصر عرصے میں پاکستان کے کم عمر ترین وزیر بنے۔ سیاسی اور فوجی ہئیت مقتدرہ کا رازدان بن کر وزراتِ خارجہ تک پہنچے۔ ملک کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر ایوب خان کو وہ ڈیڈی تک کہنے میں عار نہیں سمجھتے تھے‘ اورخود ایوب کے لیے ایک وقت میں وہ سب سے قابل بھروسہ آدمی تھے۔ خاندانی پس منظر‘ دولت‘ طاقت‘ اقتدار سب کچھ اس شخص کو میسر تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی طبقاتی وابستگی اور مراعات چھوڑ کر روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لے کر اس آگ میں کودنے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی‘ جو ان کی اقتدار سے محرومی‘ قید و بند اور بالآخر موت پر منتج ہوئی۔
تاریخ میں اس سوال کا جواب اہلِ فلاسفہ‘ ماہرین نفسیات اور سیاسیات کئی بار دے چکے۔ یہ لوگ کہتے ہیں: شعور کے علاوہ یہ انسان کا ڈی این اے ہے‘ جو اسے ایسے کام کرنے پر اکساتا ہے‘ اور ڈی این اے بہت پیچھے سے شروع ہوتا ہے۔ کئی صدیاں اور کئی نسلیں پہلے۔ ظاہر ہے بھٹو صاحب کا ڈی این اے سر شاہنواز بھٹو یا ان کے دادا میر مرتضی بھٹو سے نہیں شروع ہوتا۔ اس کے لیے کئی پیڑھیاں پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی تحقیق کرے‘ تو ہو سکتا ہے کئی پیڑھیاں پیچھے جا کر بھٹو خاندان میںکوئی انقلابی‘ کوئی سر پھرا‘ کوئی منصور حلاج جیسا نکل آئے۔ بھٹو صاحب کے طفیل پاکستان کے لوگوں کو شاید روٹی‘ کپڑا اور مکان تو نہ مل سکا‘ مگر پہلی دفعہ ان کے کانوں میں عوام کے حقِ حکمرانی کے الفاظ ضرور گونجے‘ جو ایک حکمران کے لبوں سے نکلے تھے۔
آج انتخابات کا شور ہے۔ کچھ سیاست دان‘ جو وزارتِ عظمی پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں‘ جمہوریت کی بات کرتے ہیں‘ مگر بد قسمتی سے کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی شکل میں ان کا تعلق کسی نہ کسی آمریت یا آمریت پسند سے جڑتا ہے۔ کوئی کسی آمر کے جعلی ریفریڈم میں اس کا حامی تھا‘ کوئی اس کی مجلسِ مشاورت یا وزارت میں تھا۔
کیا ان سیاست دانوںکا یہ عمل یا لغزشیں قابل معافی ہیں۔ یا پھر وہ تا حیات اپنے منہ سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا ذکر کرنے کے قابل نہیں رہے؟ اور اس باب میں کوئی لڑائی لڑنے کا حق نہیں رکھتے۔ ایسا ہو تو پھر سیاست کی نگری ہی ویران ہو جائے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں‘ اور یقینا ہیں‘ تو پھر صرف کسی ایک سیاست دان کو یہ کہہ کر مسترد کر دینا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے قرین انصاف نہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ماضی اہم ہے۔ یہ ساری زندگی آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے‘ مگر یہ آپ کو مستقبل میںکوئی بڑا اور نیک کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ کوئی اگر ماضی میں ہئیت مقتدرہ کا ساتھی رہا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مستقبل میں جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی کی کوئی لڑائی نہیں لڑ سکتا۔ اگر آج کسی کے ذہن میں شعور کا کوئی دریچہ کھل گیا‘ سوچ نے کوئی بڑی کروٹ لے لی‘ اور عوام کے حق حکمرانی کی کوئی واضح تصویر کسی کے دل میں بس گئی‘ تو وہ ماضی کا بوجھ اتار کر پھینک سکتا ہے۔ ایک نئے سفر کا آغازکر سکتا ہے۔ دیر آید درست آید۔