انتخابات ہو گئے ہیں۔ سیاست دانوں نے انتخابی مہم میں عوام کے مسائل ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر پیش کیے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے بہتر اور فوری حل پیش کیے۔ اس دوڑ میں سیاست دان بہت آگے نکلے گئے۔ انہوں نے عوام کے کچھ ایسے مسائل بھی ڈھونڈ نکالے‘ جن کا عوام کو خود پتہ نہیں تھا کہ یہ بھی ان کے مسائل ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیاست دان کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ مسائل ڈھونڈنے اور عوام کے سامنے ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے عوام کے فکر و اندیشے بڑھتے ہیں‘ ان کی بے چینیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاستدان ان بے چینیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ عوام کو مستقبل سے ڈراتے ہیں۔ خوف میں مبتلا کرتے ہیں‘ اور پھر خود کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ڈر اور خوف میں انسان بہت کمزور پڑ جاتا ہے۔ اسے ایک مضبوط ہاتھ‘ ایک قابلِ اعتماد سہارے کی ضرورت ہوتی ہے؛ چنانچہ انتخابات میں سیاست دانوں کے ہاتھ میں ایک بڑا ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ڈرایا جائے۔
سیاست دان کے ہاتھ میں دوسرا بڑا ہتھیار عوام کی ضرورتوں اور مجبوریوں کا ہوتا ہے‘ جس کو سیاست دان عوام کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس ضروریات کی کئی جہتیں اور شکلیں ہیں۔ خوف کی طرح انسان کی ضرورت اور مجبوری سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور بے روزگار اور مایوس لوگوں کو روزگار کی لالچ دے کر ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کسی سیاست دان نے دس لاکھ روزگار پیدا کرنے کے وعدے کیے‘ کسی نے بے روزگاری کو جڑوں سے ہی اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس طرح روزگار کا لالچ دے کر بے روزگار نسل کی ایک بڑی تعداد کے ووٹ لینے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح کسی نے لاکھوں گھر تعمیر کرنے کا دعویٰ کیا‘ تاکہ نچلے طبقے کے بے گھر ضرورت مندوں سے ووٹ لیا جا سکے۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جو کچھ کہا جاتا رہا‘ وہ پاکستان جیسے غریب اور طبقاتی نا انصافیوں کے شکار عوام خواب میں دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ چشمِ تصور میں اپنے بچوں کو صاف ستھرا یونیفارم پہنے‘ صاف ستھری کرسیوں پر بیٹھ کر انگریزی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ صحت پر سیاست دانوں کے خطاب سن کر عوام کے دلوں میں بیماری کی صورت میں ہسپتال میں ایک صاف ستھرا بستر ملنے کی آس جاگتی ہے۔ وہ دوائی جو وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے‘ مفت میں ملنے کی امید بندھتی ہے۔ اس طرح ہر جگہ عوام کو خواب دکھائے جاتے ہیں۔ جہاں خوف و لالچ سے بات بنتی نظر نہ آئے‘ وہاں دھونس اور دھاندلی سے کام چلایا جاتا ہے۔ دھونس و دھاندلی کی کئی باریک شکلیں ہوتی ہیں‘ جو عام حالات میں محسوس نہیں ہوتیں‘ ان کو غور اور باریکی سے دیکھنا پڑتا ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا لفظ روایتی طور پر جوڑ کر استعمال ہوتا ہے‘ اگر ان الفاظ کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو صورت حال زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔
دھونس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی نامی گرامی غنڈہ بنفسِ نفیس آ کر آپ کے گھر کی گھنٹی بجائے اور آپ کو خبردار کرے کہ اگر آپ نے اس کے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ نہ دیا تو محلے میں آپ کے لیے عزت سے جینا مشکل ہو جائے گا۔ دھونس کا یہ بہت پرانا اور ناقص طریقہ ہے؛ چنانچہ یہ اب تقریباً متروک ہو چکا ہے۔ اب یہ غنڈہ گردی بڑی جدید بلکہ نفیس شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب لوگوں کا جینا دوبھر کرنے کے بڑے مہذب طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ اب یہ غنڈہ گردی محلے کے بجائے سائبر سپیس میں ہو رہی ہے۔ اب غنڈے درازے کی گھنٹی بجانے کے بجائے فیس بک پر کلک کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اگر ایک غنڈہ ہزاروں لوگوں کو گواہ بنا کر کسی سیاست دان شاعر‘ ادیب‘ دانشور یا کالم نویس کو گالی دے سکتا ہے‘ تو اس کے سامنے گھروں پر جا کر گھنٹی بجانے والے غنڈے کی کیا حیثیت ہے۔ اس سے بڑا غنڈہ کون ہو سکتا ہے‘ جو سوشل میڈیا پر تحریری طور ہزاروں لوگوں کو گواہ بنا کر کسی سیاسی کارکن یا کسی لکھاری کو غدار قرار دیتا ہے‘ اور صرف یہی نہیں‘ غدار کی سزا بھی تجویز کرتا ہے؛ چنانچہ انتخابات میں دھونس بھی چلتی ہے‘ اور خوب چلتی ہے۔
ہمارے دور میں جس طرح دھونس کے طریقے بدلے ہیں‘ اسی طرح دھاندلی کے روایتی طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ اس دور میں بیلٹ باکس بھرنے‘ بدلنے‘ اور گنتی میں ہیرا پھیری کے روایتی گھسے پٹے طریقے نہیں چلتے۔ اب بیلٹ باکس کی حفاظت کے لیے سپاہی بٹھا دئیے جاتے ہیں۔ کیمرے لگائے جا سکتے ہیں۔ ہر نقل و حرکت کی وڈیوز بنائی جا سکتی ہے؛ چنانچہ اب دھاندلی کے کچھ دوسرے طریقے زیادہ مقبول ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے‘ جو عام آدمی تو کیا بڑے بڑے ماہرین کی سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ جیسا کہ گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں ہوا تھا۔ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے صدر پوٹن کی مدد سے دھاندلی کر کے ہیلری کلنٹن کو ہرایا تھا۔ یہ معاملہ ابھی تک امریکہ میں زیر بحث ہے‘ اور کئی لوگ ابھی تک ان طریقوں کی کھوج میں ہیں‘ جن سے روسیوں نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی۔ ایسا کوئی طریقہ ہمارے انتخابات میں بھی استعمال ہوا ہو یا نہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن انتخابات سے پہلے کئی سیاسی پارٹیوں‘ غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق والوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اعلان کیا تھا کہ ملک میں قبل از انتخابات دھاندلی ہو رہی ہے۔ ان میں بائیں بازوں کی سیاسی جماعتوں‘ دانشوروں‘ اور صحافیوں کے علاوہ انسانی حقوق کے کمیشن سمیت کئی جاندار اور قابل اعتبار آوازیں بھی شامل تھیں۔ ان لوگوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ کرپشن کے خلاف اقدامات کے نام پر ایک مخصوص سیاسی جماعت کے لوگوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سزائوں کے لیے جس وقت اور طریقے کا انتخاب کیا جا رہا ہے‘ وہ انہیں مناسب نہیں لگتے۔ طاقت ور شخصیات کے خلاف بڑے فیصلے بڑی بات ہے‘ ایک شاندار کام ہے۔ کسی اور وقت میں ایسا ہوتا تو بہت داد ملتی‘ لیکن اس کام کے لیے جو وقت اور انداز اختیار کیا گیا‘ اس نے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا۔
مگر اب انتخابات ہو چکے ہیں۔ کچھ دنوں میں شور شرابہ تھم جائے گا۔ گرد و غبار چھٹے گا تو لوگ پھر زندگی کے اصل حقائق اور مسائل کا سامنا کریں گے۔ وہ آہستہ آہستہ یہ جانیں گے کہ ان سے کیا جانے والا ہر وعدہ پورا نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم و صحت کے مراکز تعمیر کرنے کے لیے وسائل درکار ہیں۔ اور ان وسائل کا کوئی معلوم یا معقول ذریعہ کسی سیاست دان نے بتایا نہیں۔
ہمارے لوگ آج بھی زندگی کی ان بنیادی ضروریات سے محروم ہیں‘ جن کو دنیا کے بیشتر ممالک میں انسان کا بنیادی اور لازمی حق تسلیم کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ ان کے نظام کا حصہ بن چکا ہے‘ جس کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ یہاں انتخابات میں کوئی سکول‘ ہسپتال یا سڑک بنانے کی بات نہیں ہوتی۔ انسان کی زندگی میں مزید آسانیاں پیدا کرنے کی بات ہوتی ہے۔ معیارِ زندگی کو اگلے درجے پر لے جانے کی بات ہوتی ہے۔ طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے اور سماج کو مزید مساوات کی طرف لے جانے پر بحث ہوتی ہے۔ اور ایسا کرنے کے لیے ان وسائل کا پتہ بھی دینا پڑتا ہے‘ جو اس کام کے لیے درکار ہوں گے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جن چیزوں کے عوام سے وعدے کیے جاتے رہے‘ یہ چیزیں ان کا حق ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ کسی کو ووٹ دیں یا نہ دیں‘ بلکہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ یہ چیزیں فراہم کرنا ریاست پر لازم ہے۔ روزگار‘ تعلیم و صحت کی فراہمی کوئی احسان یا رعایت نہیں۔ یہ انسان کا حق ہے۔ یہ چیزیں فراہم کر کے حکمران طبقات عوام پر احسان نہیں کرتے‘ اپنے فرائضِ منصبی بجا لاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں جمہوریت ابھی تک پنگھوڑے میں ہے۔ پختگی اور معیار ایک وقت طلب عمل ہے۔ اس عمل سے گزرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ کوئی چارہ کار موجود نہیں ہے۔