تقریر اچھی تھی۔ الیکشن کے بعد عمران خان کی طرف کی جانے والی پہلی تقریر پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ اس تقریر میں بائیں بازو کی دل پسند باتیں بھی ہوئی، اور دائیں بازو کے من پسند خیالات کا اظہار بھی۔ اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بھی یہ تقریر بھلی ہی لگنی چاہیے کہ ان کے مطلب کی اس میں بہت سی باتیں تھیں۔ مجھے تقریر اچھی لگی، اس میں نہ اچھی لگنے والی کوئی ایک بات بھی نہ تھی، مگر تقریر میں کوئی ایک بھی نئی بات نہیں تھی۔ اس تقریر میں کئی اہم اور دلچسپ نکات ہیں، جن کا باری باری تجزیہ ہونا چاہیے۔
عمران خان کی اس تقریر کا پہلا بڑا نکتہ یہ تھا کہ وہ پیغمبرِ اسلام کے دور کی مدینہ کی ریاست سے متاثر ہیں، اور وہ اس طرز کا نظام چاہتے ہیں، جس میں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں، اور ریاست کا فلاحی تصور اس عروج پر ہو کہ اگر ایک کتا بھی بھوکا ہو تو حکمران ذمہ دار ٹھہرے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک جو بات سب سے زیادہ دہرائی گئی وہ نظامِ اسلام ہی ہے۔ فرق مگر یہ ہے کہ اس تقریر کا زیادہ زور مدینہ کی طرز کی ریاست پر تھا۔ ایک ایسا ملک جس میں عوام کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، وہاں عام طور پر اس بات سے اختلاف کی گنجائش کیا ہے؟ مگر عملی دنیا کے تقاضوں کے پیش نظر یہ بات وضاحت طلب ہے کہ موجودہ دور کی جدید اور پیچیدہ مارکیٹ اکانومی میں مدینہ کی طرز پر استوار اس ریاست کی معاشی تشکیل کیا ہو گی۔ نظام زر کیا ہو گا۔ عالمی تجارت، بینکنگ، قرضوں اور سود سے جڑے مسائل کو کس معاشی تھیوری اور گائیڈ لائن کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ یہ وہ نئے اور جدید دور کے سوالات ہیں، جو مدینہ کی ریاست کو درپیش نہیں تھے۔ اس ضمن میں لا تعداد سوالات ہیں، جو وقتاً فوقتاً اٹھتے رہیں گے، جن کا جواب ناگزیر ہو گا، حکومت کی پالیسی ان سوالات اور ان کے جوابات کی روشنی میں ہی ترتیب پا سکے گی۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ عمران خان مدینہ کی طرز پر ایک فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں، اور عوام کو نفاذ اسلام کی کوئی لوری نہیں دیتے، جو اکثر حکمرانوں یا مذہبی جماعتوںکا ہتھیار رہا ہے۔
مذہب کے نام پر پاکستان میں بہت سیاست ہوئی، اور خون خرابہ بھی ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کچھ لوگوں نے مذہب کے نام پر سیاسی مقاصد کے حصول کا کام شروع کر دیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ قیام پاکستان کے خیال سے متفق نہیں تھے، قیام پاکستان کے فوراً بعد نفاذ اسلام کا نعرہ لے کر میدان میں اتر آئے۔ انہوں نے گلیوں، محلوں اور مساجد میں اس نعرے کا پرچار شروع کر دیا۔ دوسری طرف سرکاری سطح پر حکومت اور ہئیت مقتدرہ کا ایک حصہ بھی اسی نعرے کی آڑ میں انہی لوگوں کی شراکت سے اپنے کام نکالتا رہا۔ ذرائع ابلاغ خصوصاً ریڈیو پاکستان پر ایسے لوگوںکو گھنٹوں خطاب کی دعوت اور مواقع دئیے جاتے رہے، جو قیام پاکستان کے حق میں تو نہیں تھے، لیکن قیام کے بعد مذہب کے نام پر حکومت پر قبضے کے خواہش مند تھے۔ یہاں نظامِ مصطفی، نفاذ اسلام اور فلاحی ریاست کے نام پر بہت کچھ ہو چکا، اور عوام اسے گہرائی سے جانتے ہیں؛ چنانچہ وہ آج تک کسی بھی شفاف انتخاب میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی باتوں میں نہیں آئے۔ یاد رہے کہ حالیہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ وہ پہلے ہی دن مکمل اسلامی نظام نافذ کر دیں گے۔ ووٹ کے بدلے جنت اور نجات کی باتیں بھی سنائی دیں‘ مگر عوام نے آخری فیصلے میں ان کو ووٹ نہیں دیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ عوام بار بار ایسے لوگوں کو مسترد کرتے رہے، جو مذہب کا مقدس نام لے کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے، یا مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
خالص علمی اور نظری اعتبار سے پاکستان پہلے ہی ایک مسلم ریاست ہے۔ آئین کا آرٹیکل دو اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیتا ہے۔ تمام قوانین کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا آئین میں لازمی ٹھہرا ہے۔ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا، جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ ریاست اس بات کا بھی عہد کرتی ہے کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کو اس قابل بنائے گی کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں اور تصورات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ ریاست پاکستان کے مسلمانوں کو وہ سہولیات مہیا کرنے کا عہد کرتی ہے، جس کے ذریعے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مقصد سمجھ سکیں۔ ایک فلاحی ریاست لوگوں کے ذاتی عقائد و نظریات سے زیادہ ان کی بنیادی ضروریات کے بارے میں فکر مند ہوتی ہے۔ بنیادی ضروریات کی شکل ہر دور میں تھوڑی بہت بدلتی رہی ہے۔ مدینہ کی ریاست میں ان بنیادی ضروریات کی نوعیت مختلف تھی۔ قدیم یونان اور روم کی ریاستیں ہوں، یا جدید سویڈن اور ناروے کی فلاحی ریاستیں، انسانی ضروریات کی بدلتی ہوئی شکلیں ان ریاستوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ خود پاکستان میں ستر برس میں انسانی ضروریات کی شکلوں میں فرق آتا رہا ہے۔ لیکن کچھ بنیادی مسائل ایسے ہیں، جو ہر دور کے انسان کو درپیش ہوتے ہیں، اور جن کا حل ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ مسائل سیاسی نعروں اور منشور کی شکل میں عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ تب اس نعرے کے پیچھے سائنس تھی، عقل تھی۔ آج بھی عوام کی ایک بڑی تعداد کی ضروریات یہی ہیں۔ مگر آج کا مقبول نعرہ تعلیم، روزگار اور صحت ہے۔ اور جدید فلاحی ریاستیں اپنے سب لوگوں کو مساوی تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات مہیا کرنا اپنی ذمہ داری قرار دیتی ہیں۔ یہ چیزیں ہر شہری کا بنیادی حق مان کر چلتی ہیں۔ اس سارے قصے میں لفظ، مساوی، اصل لفظ ہے، جو ایک فلاحی ریاست کو عام آزاد خیال امیر اور سرمایہ دار ریاستوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک امیر اور آزاد خیال سرمایہ دارانہ ریاست میں تعلیم صحت اور روزگار کی سہولیات ہوتی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دنیا کے بہترین لا سکول، میڈیکل سکول اور سوشل سائنس کی یونیورسٹیز موجود ہیں‘ مگر ان میں ہر کوئی نہیں پڑھ سکتا۔ اس کے لیے پیسہ چاہیے۔ یہاں روزگار اور صحت کی سہولیات بھی موجود ہیں، مگر مساوی نہیں۔ اس کے برعکس سویڈن ناروے، اور آئس لینڈ وغیرہ میں یہ ضروریات اگر پورے طور پر مساوی نہیں تو کافی حد تک مساویانہ ضرور ہیں۔ یہاں بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے، اور ہر ایک سماج میں ہوتی ہے۔ ان کی سمت درست ہے، سفر جاری رہے گا، تو جو رہی سہی نا ہمواریاں ہیں، وہ بھی ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گی۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب انسان اس حد تک ہمدرد، فراخ دل اور باشعور ہو جائے گا کہ وہ دوسرے انسان کے ساتھ بانٹ برت کر کھانے کی برکت کو سمجھے گا۔ یہ شعور کا اگلا مرحلہ ہو گا، جہاں بنی نوع انسان کے لیے تمام مسائل اور وسائل مشترکہ ہوں گے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ فلاحی ریاست کے لیے ماڈل کوئی بھی چنا جا سکتا ہے۔ ہر ماڈل میں ایک فلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کو روٹی، کپڑا، مکان ، تعلیم، صحت اور روزگار مہیا کرنا ہے۔ عمران خان سے کمال پرستی کی توقع نہیں ہونی چاہیے۔ مثالیت پسندی سے بھی بچنا چاہیے۔ مگر جو پروگرام وہ پیش کر رہا ہے، وہ پاکستان کے اپنے تناظر میں دائیں بازو کی قدامت پسندی، خود غرضی اور لالچ پر مبنی منشور کے مقابلے میں برا نہیںہے۔ مگر جیسا کہ انہی سطور میں بارہا عرض کیا کہ پروگرام کوئی بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ پروگرام پیش کرنے پر کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اصل مسئلہ عمل ہے۔ اور عمل کی دنیا میں ان مشکلات اور مسائل پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے، جو کسی پروگرام کے عملی اطلاق میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔