ستر برس بیت چکے‘ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ستر برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان میں کسی نے کوئی قابل ذکر عہدہ لیا ہو، اور پہلی عوامی رونمائی پر مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کیا ہو۔ ان عہدے داروں میں تمام وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ اور صدور کا شامل ہونا تو لازم ٹھہرتا ہے‘ مگر اپنی اوّلین رونمائی میں وزرائ، چھوٹے موٹے حکومتی اہل کار، سیاسی جماعتوں کے عہدے دار، غیر سیاسی انجمنوں کے نو منتخب لیڈر، طلبا تنظیموں کے نمائندے اور یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے محلے کی کمیٹی یا انجمن تاجران کا صدر بھی اپنی حلف وفاداری کے بعد پہلا بیان کشمیر پر ہی دیتا ہے۔ اگر اس طرح کے بیانات کو جمع کیا جائے تو یہ لاکھوں صفحات پر مشتمل کتاب بن سکتی ہے؛ چنانچہ یہ بیان دینا تو رسم ٹھہری۔ ماضی میں مختلف حکمران یہ رسم بخوبی نبھاتے رہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کا عزم ظاہر کرتے رہے۔ اب عمران خان بھاری عوامی منڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی پہلی تقریر میں کشمیر پر بات کی۔ کئی بار ان سطور میں عرض کیا، اور یاد دہانی کے لیے پھر عرض ہے کہ ایک حاکمِ وقت‘ جس کے پاس قوم کا بھاری مینڈیٹ ہو، اور وہ دل سے کشمیر پر رسمی کارروائی سے آگے بڑھنا چاہتا ہو، تو اس کے لیے یہ بیان کافی نہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ ایسا کرنے کے لیے تین سوالات کے دوٹوک جوابات ضروری ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ حاکمِ وقت کے نزدیک مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ دوسرا یہ کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟ اور تیسرا یہ کہ یہ حل کیوں کر قابل عمل اور فریقین کے لیے قابل قبول ہو گا۔ ان سوالات کے جواب اس لیے ناگزیر ہیں کہ فی الوقت جسے ہم مسئلہ کشمیر کہتے ہیں، اس کی ہر فریق کے لئے اپنی الگ الگ تعریف ہے‘ اپنا الگ حل ہے۔
مسئلہ کشمیر اس ہاتھی کی طرح ہے جس کے بارے میں کچھ اندھے جاننا چاہتے تھے کہ آخر یہ ہاتھی ہوتا کیسا ہے؟ اس کے جسم کے مختلف حصے ٹٹول کر وہ ہاتھی کی شکل کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر اپنے اپنے اندازے کے مطابق اس کی تصویر پیش کرتے ہیں۔
چھ اندھوں اور ہاتھی کی یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب سے پہلے بدھ ازم کی مقدس تحریروں میں سامنے آئی، لیکن یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پرانی ہے، اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی۔ بدھ ازم کے بعد یہ ہندو ازم اور جین ازم کی مقدس کتابوں میں بھی بیان ہوئی۔ اس کے مختلف ورژن صوفیا کرام کے کلام اور تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ کہانی اس وقت عالی سطح پر متعارف ہوئی‘ جب ایک امریکی شاعر جان گاڈفرائی سیکس نے انیسویں صدی میں اس کہانی کو بنیاد بنا کر ایک معرکۃ لآرا نظم لکھی تھی۔ یہ نظم اگرچہ بنیادی طور پر مذاہب کے اندر سچ کی تلاش، خدا کی پہچان اور مذہبی رواداری کے بارے میں ہے‘ لیکن اس کا اطلاق اس طرح کے اختلافی سیاسی مسائل پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم بنیادی طور پر ایک ہندوستانی قصہ کہانی یا تمثیل پر ہے۔ یہ چھ اندھوں کی کہانی ہے، جو ہاتھی کے مختلف جسمانی حصوں کو چھو کر اس کے بارے بارے میں اپنا اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں۔ پہلا اندھا آگے بڑھتا ہے، اور ہاتھی کے لمبے چوڑے جسم پر ہاتھ پھیر کر کہتا ہے: خدا مجھ پر رحم کرے، ہاتھی ایک دیوار کی طرح ہے۔ دوسرا ہاتھی کے دانت کو چھوتا ہے، اور ہاتھی کو نیزہ کی طرح بتاتا ہے۔ تیسرا ہاتھی کے صرف سونڈ کو چھوتا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ ہاتھی دراصل سانپ کی طرح ہوتا ہے۔ چوتھا ہاتھی کی ایک ٹانگ چھو کر اس کو درخت کی طرح قرار دیتا ہے۔ پانچواں ہاتھی کا کان چھو کر اسے پنکھے کی طرح سمجھتا ہے۔ چھٹا اندھا ہاتھی کی دم چھو کر اعلان کرتا ہے کہ ہاتھی تو رسی کی طرح ہوتا ہے۔ اس طرح ہندوستان کے یہ چھ لوگ آپس میں الجھتے ہیں۔ بحث کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے درست ہونے کی قسم کھاتا ہے۔ اسے اس سچ کا یقین ہے‘ جو اس نے اپنے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کیا ہے، پرکھا ہے۔ جزوی طور پر اپنے تجربے، مشاہدے اور محدود علم کی روشنی میں یہ سب کے سب اپنی جگہ درست ہیں۔ کلی طور پر سب غلط ہیں۔ وہ جُز کو کل سمجھتے ہیں، اور کل کی کوئی تصویر ان کے ذہنوں میں ہے ہی نہیں۔
میرے خیال میں یہ پرانی داستان مسئلہ کشمیر پر بہت حد تک صادق آتی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے تجربات، مشاہدات اور خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کو دیکھتے ہیں‘ اور جس کی نظر اس کے جس پہلو تک جاتی ہے، اس کے نزدیک وہی مسئلہ کشمیر ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر پر ہر فریق کے اپنے تاریخی حقائق، اپنے قصے کہانیاں ہیں۔ اپنے اپنے متضاد اعداد و شمار ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں متضاد نتائج ہیں، متصادم حل ہیں۔ اس طرح حقیقی دنیا میں اس وقت کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ، موجودہ صورت حال اور مستقبل کے بارے میں دو درجن سے زائد بیانیے موجود ہیں۔ ان میں سے کم از کم دس بیانیے ایسے ہیں، جن کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں کوئی حتمی حل ڈھونڈتے وقت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دس قسم کے بیانیے بھارت، ریاست جموں و کشمیر، آزاد کشمیر اور پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ کالم کی تنگ دامانی ان دس بیانیوں کے تجزیے کی متحمل نہیں۔ ہر ایک بیانیے کے تجزیے کے لیے ایک سے زائد کالموں کی ضرورت ہو گی۔ ان متضاد خیالات اور متصادم بیانیوں کی موجودگی میں فریقین کی اکثریت کو کسی ایک حل پر متفق کرنا‘ ایک کٹھن اور پُر پیچ کام ہے‘ مگر اس دقیق اور صبر آزما کام کے آغاز سے پہلے خود حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کون سا حل ہے، جو قابل عمل ہے، جس پر فریقین کا اتفاق ممکن ہے۔ حل کا تعلق اپروچ سے ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ کشمیر پر دو قسم کی اپروچ پائی جاتی ہے۔ ایک روایتی سوچ جو ستر سال سے موجود ہے، اور اس عرصے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس سوچ کے مطابق مسئلہ کشمیر فقط یہ ہے کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو رائے شماری کے ذریعے یہ طے کرنے کا موقع دے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ دوسرا حل غیر روایتی ہے۔ اس غیر روایتی حل پر یوں تو ہر دور میں سوچ بچار ہوتی رہی‘ مگر پہلی بار جنرل مشرف کے دور میں ملک کی طاقت ور اور با اثر قوتوں کی حمایت سے اس سوچ کو ایک فارمولے کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ مشرف دور کے کئی اہل کار تسلیم کرتے ہیں کہ اس نئی اور غیر روایتی سوچ کی بنیاد پر وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے‘ مگر پاکستان اور بھارت میں حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ مسئلہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ نئی حکومت کو مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے کے پُر مشقت کام کا بیڑا اٹھانے سے پہلے یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور صرف اپنی پسند کے حل پر اصرار سے اس طرح کے پیچیدہ مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ جہاں دو طاقتوں کے درمیان کسی ایسے حساس معاملے پر ڈیڈ لاک یا تعطل ہو، وہاں نئے حل اور نئے راستے تلاش کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
مسئلہ کشمیر کے حل سے صرف کشمیری عوام کے دکھ درد ہی دور نہیں ہوتے، بلکہ اس سے پورے برصغیر کے عوام کے مقدر بدل سکتے ہیں۔ برصغیر سے غربت کے خاتمے، امن اور ترقی کی خواہش رکھنے والوں کو اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہی ہو گا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی صرف بات ہی کافی نہیں۔ حل کا ایک نقشہ بھی ضروری ہے۔ یہ حل موجودہ دور کے زمینی حقائق اور انسانی ضروریات کی روشنی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وزارت خارجہ کی فائلوں یا تلخ تاریخی واقعات میں نہیں۔ مگر کسی بھی پیش رفت سے پہلے خود حکمرانوں کے ذہن میں یہ مسئلہ حل کرنے کا ایک مضبوط عزم اور واضح روڈ میپ بہت ضروری ہے۔ اور یاد رہے کہ محدود دائرے سے باہر نکل کر سوچے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا۔