حالیہ برسوں میں ہمارا سیاسی کلچر بہت آلودہ ہو چکا ہے۔ سیاست سے شرافت اور شائستگی غائب ہوتی جا رہی ہے۔ قومی سطح کے رہنما، دوسرے قومی سطح کے رہنمائوں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں، وہ ہمارے کلچر کے لیے اجنبی ہے۔ کرپٹ یا بد عنوان کی جگہ چور، ڈاکو اور لٹیرے جیسے الفاظ کا استعمال اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم اس میدان میں حد سے آگے بڑھ چکے ہیں؛ چنانچہ اتنے بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال کے بعد ہلکے اور نرم الفاظ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ ان الفاظ میں ایک موقع پرستی بھی ہے۔ ہمارے حالیہ انتخابات میں جس وسیع پیمانے پر موقع پرستی کے مظاہرے ہوئے ہیں، اس کی شاید دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں‘ لیکن ہمارے روزمرہ کے بحث مباحثے اور ذرائع ابلاغ میں یہ لفظ کہیں سنائی یا دکھائی نہیں دیا۔ چور اور ڈاکو کے شور میں یہ لفظ کہیں گم ہو گیا، جو پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا اور خطرناک روگ ہے۔
سیاست میں موقع پرستی کیا ہے؟ سیاسی حمایت حاصل کرنے یا سیاسی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے کوئی ایسا کام کرنا جس میں کسی اخلاقی یا سیاسی اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہو موقع پرستی کہلاتی ہے۔ سیاست میں عملی موقع پرستی کو کئی مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ آپ ایک شخص کو سیاست میں موقع پرست کہہ سکتے ہیں جسے جب موقع ملے وہ اپنے مفادات کو دوسروں کے مفادات پر ترجیح دے۔ بعض حالات میں مخالفین کی غلطیوں، کمزوریوں یا غفلتوں سے فائدہ اٹھانا بھی موقع پرستی قرار پا سکتا ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھانے‘ اور موقع پرستی میں باریک فرق ہے۔ ایک اچھے موقع سے کوئی جائز فائدہ اٹھانا موقع پرستی نہیں، بلکہ یہ موقع شناسی ہے۔ یہ عمل اس وقت سیاسی موقع پرستی بن جاتا ہے، جب کوئی انسان کسی موقع سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھاتا ہے، اور ایسا کرنے میں وہ کسی اخلاقی اصول کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، یا پہلے سے طے شدہ مقاصد یا وعدوں سے انحراف کرتا ہے۔ اپنے بیان کردہ اور طے شدہ اصولوں سے ہٹ کر ایسے اقدامات کرتا ہے، جس سے اسے کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔
موقع پرستی پر تاریخ میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، مگر اس موضوع پر میکیاولی کی مشہور کتاب،دی پرنس، کو ایک رہنما کتاب یعنی موقع پرستی کا مینول سمجھا جاتا ہے۔
میکیاولی نے جس دور میں یہ کتاب لکھی وہ سیاسی طور پر ایک مشکل وقت تھا۔ یہ ایسے دور کی ابتدا تھی جسے لوگ یورپ کی نشاۃ ثانیہ یعنی علوم و فنون کے احیا کا زمانہ کہتے ہیں۔ یہ یورپ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ نشاۃ ثانیہ سے پہلے عیسائی دنیا میں قرونِ وسطیٰ کے تصورات رائج تھے‘ جس میں زندگی چرچ کی تعلیمات اور رہنمائی کی پابند تھی۔ اس تصور کی جگہ حیات نو کا جو تصور ابھرا، وہ یہ تھا کہ انسان اپنے مقدر کا خود معمار ہے۔ جس وقت یورپ میں احیائے علوم کے ذریعے چرچ کی طاقت ختم ہو رہی تھی، اس وقت فلورنس جیسی اٹلی کی شہری ریاستیں ریپبلک میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ یہ شہری ریاستیں امیر اور با اثر خاندان اپنے قبضے میں لے رہے تھے؛ چنانچہ ریاست کی تشکیل، اس کے اغراض و مقاصد اور آدابِ حکمرانی پر ایک مکمل گائیڈ یا مینول کی ضرورت تھی۔ یہ رہنمائی میکیاولی نے پرنس کی شکل میں پیش کر دی۔ اس نے اس کتاب کے پورے آٹھ ابواب حکمران کے کردار اور رویوں پر لکھ دیے۔ اس کتاب میں اس نے سادہ الفاظ میں ریاستوں کے حکمرانوں کو بتایا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس نے حکمرانوں کو کچھ ایسی باتوں کی تلقین کی جن کو اس وقت مذہبی‘ اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے بُرا سمجھا جاتا تھا۔ روایتی طور پر بادشاہوں میں سخاوت، رحم دلی اور ایفائے عہد جیسی صفات کو اچھا سمجھا جاتا تھا‘ مگر میکیاولی نے اس بات زور دیا کہ ایک حکمران کے لیے سخی ہونے سے کنجوس ہونا بہتر ہے۔ رحم دل ہونے سے بے رحم یا سخت دل ہونا بہتر ہے۔ اگر وعدے کی پاسداری آپ کے مفادات کے خلاف ہے، تو وعدے کی خلاف ورزی ہی بہتر ہے۔
میکیاولی سے پہلے عام طور پر یورپ کے بیشتر مفکرین اخلاقیات اور اخلاقی ضابطوں پر بہت زور دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عوام کی اخلاقیات درست رکھنا اور ان کو اخلاقی ضابطوں کی پاسداری پر مجبور کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ان سیاسی مفکریں کے بر عکس میکیاولی ریاست کو شہریوں کی اخلاقیات درست کرنے کا ذمہ دار نہیں سمجھتا‘ بلکہ اس کے نزدیک ریاست کا کام صرف اپنے شہریوں کی بہبود اور تحفظ ہے؛ چنانچہ وہ درست اور غلط کے تصورات کو ضرورت، فائدے، نقصان، کامیابی، خطرے جیسے تصورات سے بدلتا ہے۔ افادیت کو اخلاقیات سے بالا قرار دیتے ہوئے اس کے خیال میں ایک کامیاب اور اچھا حکمران وہ ہے، جو مؤثر اور محتاط ہے نہ کہ وہ جو اعلیٰ اخلاقی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔
میکیاولی نے عملیت پسندی اور زمینی حقائق کے نام پر اخلاقی تقاضوں اور اصولوں سے انحراف کے جو جواز مہیا کیے تھے‘ وہ آنے والی نسلوں کے سیاست دانوں کو بہت پسند آئے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر یورپ میں لکھی اور پڑھی گئی‘ لیکن اس کا اتنا اثر یورپی سیاست دانوں پر نہیں ہوا، جتنا گہرا اثر ہمارے سیاست دانوں نے قبول کیا۔ ہمارے اکثر سیاست دانوں نے تو یہ کتاب پڑھی ہی نہیں، لیکن ان کے کردار و عمل سے لگتا ہے کہ میکیاولی نے یہ کتاب ان ہی کو دیکھ کر لکھی ہو گی۔ یورپ کا سیاسی ماحول اتنا آلودہ نہیں ہے، جتنا ہمارا۔ آج بھی یورپ کے بیشتر مہذب ملکوں میں کوئی سیاست دان عوام سے کیا ہوا وعدہ آسانی سے نہیں توڑ سکتا۔ ہمارے ہاں سیاست دان وعدے تو کیا تحریری معاہدے توڑ کر کہتے ہیں کہ یہ کون سا قرآن شریف کا حرف تھا؛ چنانچہ ہماری سیاست تو اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ اس کے عظیم مظاہرے ہم نے انتخابات میں دیکھ لیے۔ جس سیاست دان کو کل چور ڈاکو اور لٹیرا کہا گیا، آج اس کو شرافت اور امانت کی سند عطا ہو رہی ہے۔ جس کے ساتھ ہاتھ ملانا کفر کے مترادف تھا، اس کے ساتھ گلے ملنا باعثِ ثواب ٹھہرتا ہے۔
ہماری سیاست میں موقع پرستی کا روگ ہمیشہ سے موجود رہا ہے؛ تاہم اگلی نسل کے سیاست دانوں کی اکثریت اصول، ضابطے اور اخلاقیات کو پھر بھی کوئی تھوڑی بہت اہمیت ضرور دیتی تھی‘ مگر موجودہ دور میں جس پیمانے پر موقع پرستی کے مظاہرے ہوئے، اس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔
جس پیمانے پر، اور جس تعداد میں کچھ سیاست دانوں نے مسلم لیگ نون چھوڑ کر مختلف اطراف میں دوڑ لگائی، یہ کسی غرق ہوتے ہوئے جہاز کا منظر تھا، جس میں ایک افراتفری کا عالم ہو‘ جب جس کا جس طرف منہ اٹھتا ہے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ یہ صرف موقع پرستی ہی نہیں بے وفائی کے نا قابلِ یقین مناظر بھی تھے۔ کس طریقے سے دہائیوں کی رفاقتیں، اور ان رفاقتوں سے اٹھائے گئے فوائد کو نظر انداز کر کے کوئی آزاد امیدوار بنا تا کہ جیت کر اپنی اس سے بڑی بولی لگوا سکے۔ اور کسی نے تو کسی ایسی پارٹی میں چھلانگ لگائی‘ جس کا کل تک کوئی نام سننے کا روادار نہ تھا۔ یہ سب کچھ اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کہ لگتا تھا اب سیاست میں اصول، اخلاقیات وغیرہ محض ایک مذاق ہے۔ اس مذاق کے ذمہ دار بھاگنے والے اور چھلانگیں لگانے والے ہی نہیں‘ اس کے ذمہ دار وہ بھی ہیں جو ان بھگوڑوں کو اپنی بانہوں میں سمونے کے لیے چشم براہ کھڑے تھے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا اس نے ہماری پہلے سے آلودہ سیاست میں مزید گندگی بھر دی۔ یہ گندگی ہماری سیاست کو اخلاقی پستی کی نئی انتہائوں پر پہنچائے گی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ سیاست ایک نجیب پیشہ ہے۔ اس میں عوام کی خدمت کی جاتی ہے۔ شور و غل اور گالی گلوچ اس سے میل نہیں کھاتا۔ ہمیں جس تہذیب و تمدن پر غرور ہے، اگر اس کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی ہماری سیاست میں نظر نہیں آتی تو یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔ مغرب، جس کے خلاف ہم ادھار کھائے بیٹھے ہیں، کی سیاست میں جو تہذیب و شائستگی ہے، اگر ہم اس کا عشر عشیر بھی اپنا لیں تو بڑی کامیابی ہو گی۔