"FBC" (space) message & send to 7575

داد رسی تو سب کو چاہیے!

جہاں ظلم ہو، نا انصافی ہو۔ اہل حکم ظلم کے عادی ہوں۔ کمزور کا کوئی پُرسان حال نہ ہو۔ سماجی و معاشی پسماندگی ہو، اور قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ وہاں سوئوموٹو نہ ہو تو داد رسی کون کرے؟
سوئوموٹو کیا ہے ؟ ۔ اس پر کئی بار لکھا جا چکا ہے۔ مگر اس باب میں نئی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے اس معاملے کو دوبارہ بنیادی نوعیت کی بحث کے لیے کھولا ہے۔ عدالت عظمیٰ کو ملک کے آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی دفعہ تین کے تحت انسانی حقوق سے متعلقہ معاملات میں براہ راست مداخلت کا حق ہے۔ اس حق کو قانونی زبان میں سوئو موٹو کہا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کو دیگر کئی لاطینی قانونی اصطلاحوں کی طرح انگریزی زبان میں اپنایا گیا ہے۔ اس اصطلاح کو آسان اردو میں از خود نوٹس کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سوئو موٹو یعنی از خود نوٹس کے دائرہ اختیار اور وسعت و گنجائش کا مکمل عدالتی جائزہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے‘ حالانکہ عزت مآب چیف جسٹس کے خیالات اس امر پر واضح ہیں۔ وہ ماضی قریب میںکئی معاملات میں از خود نوٹس لے چکے ہیں۔ بلکہ وہ میڈیا اور قانونی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کے جواب میں از خود نوٹس کے عدالتی عمل کے قانونی اور اصولی طور درست ہونے کے قائل ہیں۔ اس واضح موقف کے باوجود اس معاملے کو از سر نو غور و فکر اور مباحثے کے لیے کھولنا، اور اس پر لچک دکھانا ایک احسن اور جرأت مندانہ اقدام ہے۔ جناب چیف جسٹس نے فرمایا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا عدالت اس باب میں حدود پھلانگ رہی ہے یا نہیں ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جو نا صرف بینچ و بار میں بلکہ پارلیمنٹ اور یہاں تک کہ عوامی سطح پر بھی زیر بحث رہا ہے؛ چنانچہ اس سوال کا ایک حتمی جواب لازم تھا۔ 
بنظرِ غائر اس سوال کا جواب طے ہے۔ آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی دفعہ تین کہتی ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عوامی اہمیت کا کوئی معاملہ درپیش ہے ، تو عدالت اس معاملے میں از خود نوٹس لینے اور اس پر حکم جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ 
از خود نوٹس کی روایت پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شروع دن سے موجود رہی ہے۔ عدالتیں کئی معاملات میں از خود نوٹس کے اختیار کا ستعمال کر چکی ہیں۔ ان میں کئی امور کی عوام اور قانونی برادری نے تعریف کی۔ اور کئی معاملات ایسے بھی تھے ، جو متنازع تھے اور جن پر اس عدالتی اختیار کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کے دور میں بہت زیادہ ابھرا، اور قانونی برادری کے دائرے سے نکل کر عوام کے درمیان بھی موضوع بحث بن گیا۔ یہ وہ موقع تھا، جب قانونی حلقوں نے از خود نوٹس کے عمل کی واضح حدود و قیود مقرر کرنے کا زور و شور سے مطالبہ شروع کیا۔
قانونی حلقوں میں اس موضوع پر بحث اور دلائل واضح رہے ہیں۔ بیشتر قانونی دانشوروں کا خیال رہا ہے کہ اگر از خود نوٹس کے اختیار کو واضح قواعد و ضوابط کاپابند کیا جائے، اور یہ اختیار صرف ناگزیر ضرورت کے تحت ہی استعمال کیا جائے تو یہ اعلیٰ عدالتوں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مفید ہتھیار ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین واقعات کو اس ہتھیار کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں چند انتہائی اہم معاملات پر از خود نوٹس لیے گئے، اور ان پر شاندار فیصلے صادر ہوئے۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا ستعمال کبھی کبھی ہی ہو اور معاملے کا انتخاب احتیاط سے کیا جائے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ ماضی میں جب بھی از خود نوٹس کا استعمال عام کیا گیا‘ اور عام قسم کے یا معمولی مقدمات پر یہ اختیار استعمال ہوا، تو اس سے نظام انصاف کی عزت اور احترام میں فرق آیا۔
گزشتہ موسم سرما میں اس صورت حال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ از خود نوٹس لینے کے عمل میں اضافہ عوام کے ایک حصے یا اس سے استفادہ کرنے والے لوگوں میں ہو سکتا ہے کہ مقبول ہو، مگر طے شدہ قانون اور روایات کی روشنی میں اس عمل کا ہمیشہ جواز مشکل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فوری انصاف، اکثر انصاف نہیں ہوتا۔ اخبار لکھتا ہے کہ نظام کی اصلاح میں عدم دلچسپی بہت مایوس کن بات ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس ایک اصلاحی ایجنڈا طے کر سکتے ہیں، جس پر پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، اور جہاں ضروری ہو وہاں وسائل بھی مہیا کر سکتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے اداریے گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملک کا تقریباً ہر اہم انگریزی اخبار اور انگریزی ہفت روزہ لکھ چکا ہے۔
از خود نوٹس کا اختیار ایک ایسے نظام کے ساتھ جڑا ہے، جس میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ نچلی سطح پر یا حکومتی سطح پر اختیارات کاغلط استعمال ہو سکتا ہے ، اس خدشے کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ اعلیٰ عدالتی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے از خود نوٹس کا اختیار موجود ہو۔ لہٰذا نظام انصاف میں نچلی سطح پر پائی جانے والی خرابیاں دور کر کے از خود نوٹس کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مغرب کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں ہوا۔ یہاں پر ایک شفاف نظامِ انصاف قائم ہوا۔ قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ میڈیا آزاد ہوا۔ اور نظام نے ایسے خوبصورت انداز میں کام کرنا شروع کیا کہ ہر شہری سے بلا امتیاز انصاف ہونے لگا، اور قانون سب کے لیے برابر ٹھہرا۔ چنانچہ ان کو از خود نوٹس کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن پھر بھی ان ملکوں میں اس کے متبادل ہیومن رائٹس کمیشن اور محتسب وغیرہ کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ 
از خود نوٹس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عملی طور سپریم کورٹ انسانی حقوق کی صرف ان خلاف ورزیوں کے خلاف از خود نوٹس لے سکتی ہے، جو بہت ہائی پروفائل ہوتی ہیں، اور عموماً میڈیا کے ذریعے عدالت کے نوٹس میں آتی ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلے کا وقتی اور عارضی حل ہے۔ دو سو ملین سے زائد لوگوں کے ملک میں جہاں نظامِ انصاف پہلے ہی بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے، کسی بھی عدالت کے لیے اس طرز پر عارضی طور پر معاملات کو خود نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ یعنی ہر اہم مقدمے کا از خود نوٹس لینا عملی طور پر ممکن نہیں۔ چنانچہ از خود نوٹس کے ضرورت سے زیادہ استعمال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ تاریخی طور پر از خود نوٹس کا تصور ایسے سماج سے جڑا ہوا ہے، جہاں ظلم و نا انصافی عام ہے۔ جہاں ماتحت عدالتی اور حکومتی اہل کار اپنے روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی کے دوران نا انصافی سے کام لیتے ہیں، یا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے سماج میں از خود نوٹس ایک اضافی تحفظ ہے، جو کمزور لوگوں کے لیے ہوتا ہے؛ چنانچہ اس نایاب قسم کے نسخے کا استعمال بھی بڑی احتیاط اور صرف ناگزیر ضرورت میں ہی کیاجا سکتا ہے۔ ورنہ عدالت اپنے روزمرہ کے فرائض کی انجام دہی کو ایک طرف رکھ کر از خود نوٹس کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں چلی جاتی ہے، اور ایسے معاملات پر زیادہ تر توجہ صرف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، جس کی عدالت میں کوئی با قاعدہ درخواست بھی نہیں کی گئی ہوتی۔ اس کے بر عکس ایک با قاعدہ درخواست گزار اپنی درخواست کی سماعت اور داد رسی کے لیے طویل اور صبر آزما انتظار کے عذاب سے گزرنے پر مجبور ہوتا ہے؛ چنانچہ جہاں ظلم ہو، وہاں داد رسی لازم ہے، تاہم اگر داد رسی نظامِ انصاف کا حصہ اور معمول بن پائے تو بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں