چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ ہے، رقابت ہے یا مفادات کا تصادم ہے؟ غور سے دیکھا جائے تو یہ تینوں معاملے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کہیں ان دونوں میں عالمی معاشی منڈی میں آزاد مقابلہ ہے۔ کہیں عالمی سیاست میں رقابت ہے، تو کہیں ایک دوسرے کے معاشی اور سیاسی مفادات کا تصادم بھی ہے۔ یہ تصادم آئے دن ابھر رہا ہے اور کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ دنیا بھر کے دانشور ان دونوں کے درمیان تعلق اور مقابلے کو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھ کر اپنی پسند کے وہ نتائج نکال رہے ہیں، جو ان کی دانست میں مستقبل قریب میں سامنے آنے والے ہیں۔ بہت سارے لوگ ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کو جمہوریت اور مطلق العنانیت کے درمیان مقابلہ سمجھتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ امریکہ اور چین اپنے اپنے سیاسی و معاشی نظام کو بنیادی طور پر مختلف طریقے اور دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔
حال ہی میں صدر ٹرمپ کے عہد میں اس رجحان میں کچھ کمی آئی ہے، مگر روایتی طور پر امریکہ جمہوری حکومت کو کسی مقصد کے حصول کے ایک ذریعے کے بجائے خود ایک مقصد تصور کرتا رہا ہے؛ چنانچہ بیشتر امریکی صدور اپنے ملک کو جمہوریت کے رکھولے اور دنیا بھر میں جمہوری تحریکوں کے حامی کے طور پر پیش کرتے رہے۔ زبانی کلامی ہی سہی مگر دنیا میں جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بات بھی کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عین اسی وقت بیشتر آمریت پسندوں کے ساتھ بھی ان کا محبت و نفرت کا رشتہ رہا ہے۔ مگر اس کالم میں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ یہ قصہ پھر سہی۔ یہاں بات ہو رہی ہے چین امریکہ مسابقت، رقابت یا پھر مفادات کے تصادم کی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ امریکہ جمہوریت کو بجائے خود ایک مقصد تصور کرتا رہا ہے‘ جبکہ چین اپنی حکومت کی موجودہ شکل، یا کسی بھی قسم کی حکومت کو بڑے قومی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ تصور کرتا رہا ہے، اور ابھی تک یہ اس پالیسی پر گامزن ہے۔
امریکی دانشور فرینک لی اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سال دو ہزار بارہ میں نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون میں غیر معمولی طور پر فکر انگیز خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ انسانی حکومتوں کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ تاریخ میں جمہوریت پر دو بڑے تجربات ہوئے ہیں۔ پہلا تجربہ ایتھنز میں ہوا۔ یہ تجربہ ڈیڑھ سو سال تک چلا۔ دوسرا تجربہ جدید مغرب میں ہوا۔ اگر جمہوریت کا مطلب ایک شہری ایک ووٹ ہے، تو اس حساب سے امریکی جمہوریت صرف سو سال پرانی ہے۔ لیکن اگر امریکہ کے ووٹنگ رائٹس ایکٹ مجریہ انیس سو پینسٹھ سے شمار کیا جائے تو اس جمہوریت کی عمر صرف پچاس سال بنتی ہے۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ بہت سارے لوگ اس مختصر تجربے کے ساتھ بڑی بہادری سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے بنی نوع انسان کے لیے جمہوریت بطور ایک مثالی سیاسی نظام دریافت کر لی ہے، اور اس کی کامیابی ہمیشہ کے لیے یقینی ہے۔
مغرب کا موجودہ جمہوری تجربہ یورپ کی نشاہ ثانیہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے دو بنیادی آدرش ہیں۔ فرد عاقل ہے، اور فرد اپنے حق کے لیے وقف ہے۔ جدید دور میں انسان کے یقین کی یہ بنیاد ہے، جس کا آخری یا حتمی اظہار جمہوریت ہے۔
مغربی دنیا میں ابتدا میں گورننس میں جمہوری سوچ نے صنعتی انقلاب کا راستہ ہموار کیا اور معاشی خوش حالی اور فوجی طاقت کی نئی مثال قائم کی‘ لیکن بہت ابتدا ہی سے کچھ لوگ جانتے تھے کہ اس تجربے کے اندر ایک مہلک خامی پوشیدہ ہے، اور انہوں نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی۔
امریکی وفاق پرستوں نے ابتدا میں ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ ایک ریپبلک بنا رہے ہیں، جمہوریت نہیں۔ اور انہوں نے اس مقصد کے لیے عوامی منشا پر پابندی کے کئی طریقے ترتیب دئیے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی فرنچائز اور حقِ انتخاب میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگ سیاسی فیصلے کرنے کے عمل میں شامل ہوئے۔ جیسا کہ امریکہ میں یہ کہاوت ہے کہ کیلیفورنیا ہمارا مستقبل ہے۔ اور مستقبل کا مطلب ہے نہ ختم ہونے والے ریفرنڈمز، فالج زدہ نظام اور دیوالیہ پن۔
ایتھنز میں سیاست میں عوام کی بڑے پیمانے پر شمولیت نے ایک ایسا نظام قائم کیا، جو جذبات انگیز خطابت اور عوامی مقبولیت پر چلتا تھا‘ مگر آج کے امریکہ میں اس نظام کا اہم مددگار پیسہ ہے۔ جیسا کہ نوبل انعام یافتہ دانشور مائکل سپنس نے کہا ہے کہ امریکہ میں شروع میں صرف ایک صاحب جائداد آدمی ہی ووٹ دے سکتا تھا۔ پھر اس نظام میں تبدیلی ہوئی اور ایک آدمی ایک ووٹ کا نظام قائم ہوا، یعنی صرف مرد ووٹ دے سکتا تھا‘ عورتیں نہیں۔ اور پھر ایک آدمی ایک ووٹ سے ایک شخص ایک ووٹ کا رواج ہوا، جس میں عورتیں بھی ووٹ ڈال سکتی تھیں۔ آگے چل کر یہ نظام ایک شخص ایک ووٹ سے ایک ڈالر ایک ووٹ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ آج کسی بھی زاویے سے امریکہ محض نام کی آئینی ریپبلک ہے، منتخب نمائندوں کا اپنا کوئی دماغ نہیں ہے۔ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے وہ عوام کے اشارے پر ناچتے ہیں۔ خصوصی مفادات رکھنے والے افراد اور گروہ عوام کے حق رائے دہی کو اپنی منشا کے مطابق چلاتے ہیں، تاکہ وہ کم از کم ٹیکس اور زیادہ سے زیادہ اخراجات کے حق میں ووٹ دیں‘ یا پھر تباہ کن جنگوں کی حمایت کریں۔
مغرب کا چین سے کے ساتھ مقابلہ اس لیے جمہوریت اور مطلق العنانیت کا مقابلہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ دو بنیادی طور پر مختلف نقطہ ہائے نظر کا تصادم ہے۔ جدید مغرب جمہوریت اور انسانی حقوق کو انسانی ترقی کا مینار سمجھتا ہے۔ چین مختلف راہ پر گامزن ہے۔ چین کے سیاسی رہنما اگر ضروری ہو تو سیاسی فیصلہ سازی میں زیادہ عوامی شمولیت کے لیے تیار ہوتے ہیں، بشرطیکہ یہ معاشی ترقی اور قومی مفاد کے لیے ضروری ہو؛ تاہم اس کے ساتھ ساتھ چین کے لیڈر آزادیوں پر پابندی لگانے سے نہیں شرمائیں گے، اگر قوم کی ضروریات بدل جائیں اور اس کا تقاضا کریں۔ چین میں سن انیس سو اسی ملک کی سیاست میں عوامی شمولیت کو بڑھانے کا دور تھا، جس نے تباہ کن ثقافتی انقلاب کے نظریاتی جکڑ کو کچھ ڈھیلا کرنے میں مدد دی‘ لیکن یہ کچھ تھوڑا زیادہ ہی ہو گیا، جس سے تائنامن سکوائر کی بغاوت نے جنم لیا۔ یہ بغاوت سختی سے کچل دی گئی۔ چین نے اس پُر تشدد واقعے کی بھاری قیمت ادا کی۔ لیکن متبادل اس سے کئی زیادہ برا ہو سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں جو استحکام پیدا ہوا، اس سے ترقی کی ایک نئی لہر آئی، جس نے بالآخر چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا دیا۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے خیالات میں بنیادی فرق کیا ہے؟ یہ بنیادی فرق اس سوال کے جواب میں ہے کہ کیا سیاسی حقوق خدا کی طرف سے ودیعت کیے گئے ہیں، اس لیے وہ مطلق و مقدس ہیں اور ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی؟ یا پھر ان کو ایسی انسانی مراعات سمجھا جائے جن پر قوم کی ضرورت اور حالات کے مطابق بات چیت کی جا سکتی ہے۔
مغرب کے لیے اب عوام کو دئیے گئے جمہوری حقوق کو آسانی سے واپس لینا ممکن نہیں، بے شک یہ ان کی بقا کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے وہاں سیاسی حقوق کو خدا کی طرف سے ودیعت کردہ ہی سمجھا جانے لگا ہے۔ اس حساب سے آج کا امریکہ پرانے سوویت یونین کی طرح ہے، جو اپنے سیاسی نظام کو مقصد سمجھتا تھا، نہ کہ مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ۔ تاریخ اس طرزِ عمل کا ساتھ نہیں دیتی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہوریت بذات خود کوئی مقصد نہیں، بلکہ کچھ نیک مقاصد کے حصول کا ایک راستہ ہے۔ عام طور پر ایک سچی جمہوریت کے ساتھ جڑے مقاصد میں سماجی و معاشی انصاف، انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ہوتی ہیں۔ ان مقاصد کو نظر انداز کر کے محض جمہوریت کو ہی منزل سمجھ لینا تاریخی منشا کے خلاف ہے۔ دوسری طرف چین میں یہ رجحان ہے کہ مطلق العنانیت اگر مقاصد کے حصول میں معاون ہو سکتی ہے‘ تو روا ہے۔ اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان ایک بنیادی مقابلہ ان دو رویوں اور رجحانات کا بھی ہے۔