اکیسویں صدی کس کی صدی ہے؟ یہ سوال بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہی کھڑا ہو گیا تھا‘ اور علمی محفلوں میں کثرت سے پوچھا جانے لگا تھا، مگر گزشتہ دو عشروں کے دوران یہ سوال سنجیدہ دانشور حلقوں میں ایک اہم ترین موضوعِ بحث ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ بیسویں صدی امریکہ کی صدی تھی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیسویں صدی مغرب کی صدی تھی، جس کی قیادت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس تھی۔ اکیسویں صدی کو بعض دانشور بلا جھجک مشرق کی صدی کہتے ہیں۔ مشرق کی قیادت کے سوال پر لوگ بہت مختلف آرا رکھتے ہیں۔ مشرق میں بڑے بڑے ملک ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اس خطے کے بعض ملک اپنے اپنے وقت میں بڑی بڑی سلطنتیں اور طاقتیں رہی ہیں۔ روس، چین، جاپان، ہندوستان ، عرب ، ایران و ترکی میں ماضی کی امارت اور طاقت کی بات ہوتی ہے۔ شان و شوکت کی کہانیاں سنی سنائی جاتی ہیں۔ اور کہیں کہیں کھوئی ہوئی عظمتوں کی بحالی کی بات بھی ہوتی ہے۔ عظمت رفتہ کے خواب دیکھے اور دکھائے جاتے ہیں۔ اور ظاہر ہے یہ ایک بڑا اور طویل مقابلہ ہے۔ جس ملک میں زمانے کے ساتھ چلنے اور عصر حاضر کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت ہو گی وہ ملک ہی بطور قائد ابھرے گا۔ مگر فی الوقت جس سطح پر چین پہنچ چکا ہے، اور عالمی منڈی میں جس قدر شراکت داری حاصل کر چکا ہے، اور عالمی سیاست میں جتنی جگہ بنا چکا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ دانشور اکیسویں صدی کو چین کی صدی کہتے ہیں۔ چین معاشی اور عسکری محاذ پر دنیا میں اپنی طاقت تو منوا ہی چکا ہے، مگر مشرق کی قیادت کا اہل ہونے کے باب میں کچھ سوالات ایسے ہیں، جن کا جواب ابھی آنا باقی ہے۔ ان سوالات میں جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا سوال بھی شامل ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ حالیہ چند عشروں کے دوران دنیا میں جمہوریت کے تصورات کو دھچکا لگا ہے۔ انسانی حقوق کی تحریکیں کمزور ہوئی ہیں۔ شہری آزادیوں پر سخت قدغن لگی ہیں۔ لیکن ہمارے دور کے انسان نے ان چیزوں سے ابھی سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ جمہوری حقوق سے دست برداری کے لیے تیار نہیںہے۔ اور نہ ہی وہ اپنے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ مگر چین نے بظاہر دنیا کو یہ باور کروا دیا ہے کہ چین کے اندر جو سماجی و سیاسی نظام ہے، اسے چین کے لوگوں کا شرفِ قبولیت حاصل ہے۔ اور سر دست چین کے عوام کو اپنی ریاست اور حکومت سے کوئی قابل ذکر شکوہ شکایت نہیں ہے‘ مگر بہت سے لوگوں کو اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔
ہم مان چکے کہ بیسویں صدی مغرب کی صدی تھی، جس کی قیادت امریکہ کے پاس تھی۔ اس صدی کے دوران امریکہ نے باقی دنیا پر برتری بلکہ ایک حد تک بالا دستی کا بار بار مظاہرہ کیا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس برتری اور بالا دستی کے پس منظر میں مغرب کی صرف عسکری طاقت نہیں تھی۔ اس کے پیچھے چند اہم ترین عناصر اور بھی تھے۔
معاشی میدان کے علاوہ بھی مغربی بلاک میں شامل بیشتر ممالک کئی سرگرمیوں کے ذریعے تیسری دنیا کے ممالک سے جڑے ہوئے تھے۔ فوجی امداد، سرکاری قرضے اور تجارت تو معمول کی سرگرمیاں تھیں۔ ثقافتی، تعلیمی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مشترکہ منصوبے اور تعاون جیسی سرگرمیاں بھی شامل تھیں۔ اور ایسی بہت سی سرگرمیاں کیسے دنیا میں امریکی برتری اور بالا دستی کے لیے استعمال کی جاتی تھیں ، یہ کہانی اب صدر ٹرمپ تقریباً اپنے روزانہ کے ایک بلیٹن میں ٹویٹر پر سنا رہے ہیں، جہاں وہ آئے دن کسی ایک ملک کو نشانے پر لاتے ہیں، جو بقول ان کے امریکہ کے ساتھ غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کے ذریعے نا جائز فائدہ اٹھاتا رہا تھا۔ یہ ان ملکوں کا ذکر خیر کرتے ہیں ، جن کی حفاظت کی ضمانت امریکہ نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی، مگر وہ ملک اس مد میں جو کچھ خرچ کرتے تھے، وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ امریکہ کو ایسے خسارے پر مبنی تجارتی اور فوجی تعلقات کی کیا ضرورت یا مجبوری تھی؟ تو صدر ٹرمپ کا جواب بہت سادہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے امریکی صدور بے وقوف یا سادہ دل تھے، جو ان ممالک کے ساتھ اس قسم کے نا ہموار سمجھوتوںمیں بندھے تھے۔ مگر صدر ٹرمپ کا تاریخی شعور اور مستقبل کی نگا ہ کچھ مکدر اور دھندلائی ہوئی سی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک سپر پاور کو سپر پاور بننے کے لیے اس طرح کے کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ دنیا پر اپنی حاکمیت کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور ظاہر ہے ایک سپر طاقت یہ قیمت ادا کرنے کے بعد ہی دوسرے ممالک میں اپنا وجود بطور سپر طاقت منوا سکتی ہے۔ سپر طاقت کا درجہ حاصل کرنے کے بعد اس کے جو معاشی اور فوجی فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان کی تفصیل اس کالم کا موضوع نہیں، اور اس کا بیان غیر ضروری بھی ہے کہ بیشتر قارئین اس سے پہلے ہی واقف ہیں۔
فوجی امداد، قرضوں اور تجارت کے علاوہ بھی ہر ترقی یافتہ مغربی ملک کسی نہ کسی ثقافتی یا تعلیمی سرگرمی کے ذریعے تیسری دنیا کے کسی ملک یا تنظیم کے ساتھ مل کر کئی مشترکہ منصوبوں پر کام کرتا تھا۔ اس میں چھوٹے موٹے فلاحی منصوبوں سے لے کر تعلیمی وظائف تک، کئی منصوبے شامل تھے۔ یہ بانٹنے اور اشتراک کرنے کا ایک عمل تھا۔
بالا دستی اور برتری کا تیسرا بڑا عنصر سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری تھی۔ اس برتری کی وجہ سے نا صرف ان ممالک کا اپنا معیار زندگی حیرت انگیز طور پر بلند ہوا، بلکہ یہ تیسری دنیا کے کئی ممالک کے لیے امید کی کرن بھی ثابت ہوا۔ اگرچہ مغرب نے یہ ٹیکنالوجی تیسری دنیا کو منتقل کرنے میں سخت لیت و لعل بلکہ بخل سے کام لیا ، پھر بھی اس باب میں ہمیشہ تیسری دنیا میں ایک آس موجود رہی ہے۔
اگر چین نے اکیسویں صدی کو مشرق کی صدی بنانا ہے، اور مشرق کی قیادت کرنی ہے، تو اسے وہی کرنا پڑے گا جو ایک سپر طاقت کو کرنا ہوتا ہے۔ اسے دنیا کے ساتھ اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی حاصلات کو بانٹنا ہو گا۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو معاشی امداد اور معاشی مراعات دینا ہوں گی۔ اگرچہ بقول چین اس کا سلک روڈ اور ون روڈ ون بیلٹ کا منصوبہ اسی عظیم ترین منصوبے کا حصہ ہے، مگر اس میں مزید شفافیت، کھلے پن اور وضاحت کی ضرورت ہے۔ اگر بیسویں صدی مغرب کی صدی تھی تو اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ مغرب نے اپنے ملکوں میں بے داغ جمہوریتیں قائم کیں۔ اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کا خیال رکھا، اور تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں یہ امید جگائے رکھی کہ وہ ان ممالک کے جمہوری اور انسانی حقوق کی لڑائی میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان اقدامات سے ان کا براہ راست تعلق تیسری دنیا کے عوام کے ساتھ پیدا ہوا، اور مغربی جمہوریتوں کے لیے ان کے دلوں میں نیک جذبات پیدا ہوئے۔
آج چین معاشی اور فوجی اعتبار سے ایک خاص سطح تک تو پہنچ چکا ہے، مگر جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے سوال پر وہ سختی سے اپنی روایتی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ پالیسی پہلے ہی فرسودگی کا شکار ہے، اور دنیا کی رہنمائی کی خواہش کے باب میں خلاف منشا نتائج بھی پیدا کر سکتی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ امریکہ کی نئی تجارتی پالیسیاں بھی بن سکتی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں یہ پالیسیاں جن چیزوں پر سوالات اٹھا سکتی ہیں‘ ان میں دنیا کی تجارت میں چین کی مراعات، ٹریڈ مارکس، کاپی رائٹس اور بڑے پیمانے پر اشیا کی نقول تیار کرنے کی کوشش، اور سرکاری سبسڈیز شامل ہیں۔ اگر چین نئی امریکی پالیسیوں کے باوجود دنیا کی تجارت میں اپناحصہ لینے کی رفتار برقرار رکھ لیتا ہے، تو اس کا معاشی سپر پاور کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔