ارباب اختیار نے عوام کے حقِ حکمرانی کی بات کی ہے۔ مقامی حکومتوں کے قیام اور ان کی خود مختاری کی بات کی ہے۔ عوام کے اپنے وسائل کا خود مالک ہونے کا حق مانا ہے۔ اپنے بارے میں خود فیصلے کرنے کا اختیار دینے کی بات کی ہے۔ ستر سال بعد حکمرانوں نے عوام پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس کے لیے ایک نیا بلدیاتی نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔
مغرب میں ایک کہاوت ہے کہ اگر کوئی نظام ناکام بنانا ہے تو اسے روسیوں کے حوالے کر دو۔ پاکستان پر یہ بات پوری طر ح تو صادر نہیں آتی‘ لیکن پھر بھی پاکستان اپنی مختصر تاریخ میں کئی نظاموں کا تجربہ کر چکا ہے۔ تاریخ کے دو عظیم ترین نظرئیے یہاں نافذ کرنے کی کوشش ہوئی، جو بری طرح ناکام ہوئی۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں سوشلزم کا نظریہ تھا‘ اور دوسرا ضیاالحق کا نفاذِ اسلام کا نظریہ۔ ایک سبق مگر اس سے لوگوں نے ضرور سیکھا کہ کوئی نظام اوپر سے مسلط نہیں کیا جا سکتا‘ اور نہ ہی لوگوں کو زبردستی جنت کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔
نظریاتی نظام صرف نظرئیے اور سیاسی شعور سے لیس سیاسی پارٹی ہی لا سکتی ہے۔ اور یہ پارٹی اوپر سے نیچے نہیں آتی، بلکہ نیجے سے اوپر جاتی ہے، یعنی گراس روٹ سے شروع ہو کر ایوانوں تک جاتی ہے۔ سکہ بند دانشور بھٹو صاحب کے سوشلزم کو حقیقی سوشلزم نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں یہ محض ایک نعرہ تھا، جس کے لیے گراس روٹ سطح پر کوئی نظریاتی کام نہیں ہوا تھا، اور یہی اس کی ناکامی کی وجہ بھی ٹھہری تھی۔ رہا سوال ضیاالحق کے نفاذِ اسلام کا تو سیکولر اور دوسرے لوگ تو دور کی بات ہے، خود اسلام پسند بھی اسے نظام اسلام ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ نظام اسلام اور نفاذ اسلام کے حامی تمام مکاتب فکر، سوائے ایک آدھ کے، اسلام کے نام پر ضیا الحق کے اقدامات کو سماج کی تباہی کا خوفناک نسخہ اور نقطۂ آغاز قرار دیتے ہیں۔
ناکامی سے دوچار نظاموں کے اس سلسلے میں ایک بلدیاتی نظام بھی رہا ہے۔ یہ نظام اس وقت پاکستان میں موضوعِ گفتگو ہے۔ حکمران جماعت ایک نیا بلدیاتی نظام متعارف کرا رہی ہے۔ اس بلدیاتی نظام میں نیا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تو ہمیں تب ملے گا جب حکمران اس نظام کے خد و خال کچھ واضح کر یں گے‘ مگر پاکستان کے لیے بلدیاتی نظام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں پاکستان کے کئی حکمران اس نظام کا ناکام تجربہ کر چکے ہیں، یا اس کا غلط استعمال کر چکے ہیں۔ اور کئی بار اس نظام کو ناکام قرار دے کر اس کی بساط لپیٹی گئی ہے۔ پاکستان میں اس نظام کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اربابِ اختیار نے اس نظام کو خود اس نظام کے طے شدہ بنیادی مقاصد کے خلاف استعمال کیا۔ جن ممالک نے یہ بلدیاتی نظام شروع کیا تھا ان کا مقصد اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل کرنا تھا، تاکہ عوام اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ دوسرا مقصد جمہوری عمل میں نچلی سطح پر عوام کو شامل کرنا تھا، تاکہ جمہوریت کی بنیاد وسیع ہو اور اس کا پھل عوام کی ہر پرت تک پہنچ سکے۔ مگر ہمارے ہاں اس کے بر عکس ہوا۔ ایوب خان نے بلدیاتی نظام کو عوام کے جمہوری حقوق اور حق رائے دہی کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیا‘ اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کی عوامی مقبولیت کو اس نظام کے ذریعے مصنوعی شکست دے کر خود کو منتخب قرار دلوایا۔ مغرب میں بلدیاتی نظام کے ساتھ دوسرا تصور یہ جڑا ہوا تھا کہ یہ نظام غیر جماعتی ہو گا۔ اس غیر جماعتی کا مطلب کسی ایک پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنا یا شکست دینا مطلوب نہیں تھا، جیسا کہ ہمارے ہاں ہوا۔ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے نامزد امیدواروں کی جیت کی صورت میں مقامی معاملات پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں، اور اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس طرح عوام کا اپنے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار گھوم پھر کر واپس پارٹی باس اور لیڈر کے پاس چلا جاتا ہے، جو کہ مقامی لوگوں کے اختیارات کی نفی ہے۔ بلدیاتی نظام کے خالقوں اور نظریہ سازوں کے پیش نظر ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جمہوری عمل میں پارٹی بازی کے ذریعے جو سیاسی اور نظریاتی تعصبات پھیلائے جاتے ہیں وہ کم ہوں گے، اور عوام ان تمام عصبیتوں سے اوپر اٹھ کر اپنے بارے میں فیصلے کریں گے‘ لیکن اس محاذ پر بھی ہم نے اس مقصد کو شکست دی۔ سماج کو تعصبات سے تو ہم خیر کیا پاک کرتے، اس کی بجائے ہم نے کئی فرسودہ اور دبے ہوئے تعصبات کو نئے سرے سے زندہ کر دیا۔ سیاسی عصبیت کی جگہ ہم نے ذات ، قبیلے، برادری، اور علاقے کے تعصبات کھڑے کر دئیے‘ حالانکہ اس نظام کے نظریہ سازوں کے نزدیک یہ کوئی غیر سیاسی نظام نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہ ایک مکمل سیاسی نظام تھا، جس میں روایتی عصبیت کم ہونے کی امید تھی۔ اس نظام کے نظریہ ساز بلدیاتی نظام کو عوام کی حکومتِ خود اختیاری کی ایک قسم سمجھتے تھے، جس میں عوام ایک پورے سیاسی اور جمہوری عمل سے گزر کر اپنے معاملات کے بارے میں شعوری فیصلے کرتے ہیں‘ لیکن ہم قبیلے برادری، علاقے اور فرقے کی بنا پر ان پڑھ اور نا اہل لوگوں کو آگے لائے، جو فیصلے کرنے کے اہل ہی نہیں تھے؛ چنانچہ اختیارات عملی طور پر واپس یا تو نوکر شاہی کے پاس چلے گئے، یا پھر سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آ گئے۔ اس نظام میں جو خرابیاں تھیں، یا جس غلط انداز میں اس نظام کو استعمال کیا گیا تھا، اس کی اصلاح کے بغیر اس ناکام تجربے کو دوبارہ دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
بلدیاتی نظام سیاسی اور مالیاتی اختیارات کو طاقت کے روایتی مراکز یعنی مرکزی اور صوبائی حکومتوں یا انتظامیہ اور نوکر شاہی سے لے کر براہ راست ہر گائوں اور شہر کے منتخب نمائندوں تک کے ہاتھوں میں دے سکتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے طاقت اور اختیارات کو اوپر سے نیچے لے جانے کا یہ عمل جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک میں بہت پہلے مکمل کیا جا چکا ہے۔ انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں فرانس اور انگلینڈ میں یہ عمل برق رفتاری سے مکمل کیا گیا۔ اس سے پہلے ایک بہترین جمہوریت اور آزاد سماج ہونے کے باوجود اس باب میں فرانس کی صورت حال مایوس کن تھی۔ اسی کی دہائی میں فرانس کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا تھا، جہاں مرکزی سطح پر طاقت کا بہت زیادہ ارتکاز تھا۔ فرانس کی کسی بھی میونسپلٹی، شہر، علاقے یا محکمے کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ ہوتا تھا تو اس کی قومی مرکزی حکومت سے منظوری درکار تھی۔ حد تو یہ تھی کہ کسی نئے سکول یا گلی کا نام رکھنے کے لیے بھی مرکزی حکومت کی منظوری لازم تھی۔ بالآخر صدر متراں کی قیادت میں سوشلسٹ پارٹی نے جدید قانون سازی کرتے ہوئے بیشتر اختیارات مقامی حکومتوں، شہروں اور علاقوں کو منتقل کر دئیے۔
بلدیاتی نظام کو عوام کے حقِ خود ارادیت اور حق حکمرانی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے سے پاکستان میں کئی سیاسی اور علاقائی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ قومیتوں اور علاقوں کے مسائل کا علا ج ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک قابلِ تقلید مثال فن لینڈ ہے۔ اس ملک میں لوکل گورنمنٹ کا قانون سن اٹھارہ سو ساٹھ میں بنایا گیا تھا۔ موجودہ نظام کی بنیاد بھی یہی قانون ہے۔ سال انیس سترہ میں روس سے فن لینڈ کی علیحدگی حقِ خود ارادیت کے اصول کے تحت ہوئی تھی؛ چنانچہ آزادی کے بعد فن لینڈ نے اسی اصول کے تحت عوام کے حقِ حکمرانی کے لیے قانون سازی جاری رکھی۔ اس چھوٹے سے ملک میں تین سو سے زائد با اختیار لوکل گورنمنٹس ہیں۔ انیس نیم خود مختار علاقے ہیں۔ آکلینڈ جیسے آئی لینڈ بھی ہیں جن کو مکمل خود مختاری حاصل ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ عوام کو فطری، قانونی اور اخلاقی اعتبار سے اپنے وسائل کا خود مالک ہونا چاہیے۔ یہ وسائل خود پر خرچ کرنے کا اختیار بھی انہی کا ہے۔ عوام کو اپنے معاملات میں خود مختاری دئیے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں۔ با اختیار مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانا آزادی کی سمت ایک بڑی چھلانگ ہے۔