ہزاروں برس کی نشوونما کے دوران ہر چیز بدلی ہے، سوائے ہماری سوچ کے۔ یہ بات آئن سٹائن نے کہی تھی۔ اس نابغہ روزگار سائنس دان اور دانشور کو یہ شکوہ تھا کہ ہمارے ارد گرد سب کچھ بدل جانے کے باوجود انسان کی اپنی پرانی اور فرسودہ سوچ کے ساتھ چمٹے رہنے کی عادت جوں کی توں ہے۔ انسان کو پہاڑوں، غاروں اور جنگلوں سے نکلے ہوئے ہزاروں برس گزر گئے، مگر وہ آج بھی اُسی دور کے اندازِ فکر، سوچیں، اندیشے، فکر اور خوف سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ یہ خوف، فکر و اندیشے اس وقت انسان کی زندگی کا ناگزیر حصہ تھے۔ انسان ایک ایسے غیر دوستانہ ماحول میں رہتا تھا، جس کے بارے میں اسے بہت کم علم تھا۔ اس کی زندگی غیر محفوظ اور خطرات سے گھری رہتی تھی۔ کہیں اندھی اور طوفان کا خوف تھا۔ کہیں بجلی گرنے کا ڈر۔ کہیں کوئی خوفناک درندہ اسے چیر پھاڑ کر کھانے کے درپے ہوتا، اور کہیں کوئی عفریت نگلنے کو بے تاب۔ کہیں زہریلے ڈنک کا خوف اور کہیں دشمن کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترنے کی فکر دامن گیر رہتی۔ ہزاروں سال کی تگ و دو میں انسان نے دنیا کے بارے میں اتنا علم حاصل کر لیا کہ اس کو بڑی حد تک تسخیر کر لیا۔ اس نے خونخوار درندے پنجروں میں قید کر دئیے۔ زہر کے تریاق ڈھونڈ نکالے۔ آفاتِ سماوی و ارضی سے پناہ اور حفاظت کے ساماں کر لیے۔ دشمن سے لڑنے اور اسے تباہ کرنے کے لیے تیر و تفنگ سے آگے بڑھ کر ایٹم بم تک بنا لیے۔ لیکن پھر بھی وہ خوف، اندیشے، فکر اور اس طرح کے دوسرے کئی رویوں سے چھٹکارہ نہ پا سکا۔ ماضی کی یہ جو سوغاتیں انسان قدیم دور سے اپنے ساتھ لے کر چل رہا ہے، ان میں ایک توہم پرستی بھی ہے۔ توہم پرستی ہمارے ہاںایک بڑا سماجی روگ ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور تہہ در تہہ رویہ ہے، جو مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتا رہتا ہے۔
دنیا بھر میں جہاں بھی دیکھیں توہم پرستی کی کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی شکل ضرور موجود ہے۔ ترقی یافتہ اور روشن خیال مغرب میں بھی کچھ لوگ ابھی تک تیرہ کے عدد یا ٹوٹے ہوئے شیشے کو خراب قسمت کی علامت تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح مغرب میں اب بھی معدودے چند ہی سہی، مگر کچھ لوگ جادو ٹونہ پر یقین رکھتے ہیں۔ چڑیلوں اور بڑے پیروں والی پُراسرار مخلوق سے ڈرتے ہیں اور ڈراتے ہیں۔ جنوں بھوتوں کے قصے سناتے ہیں۔ کئی پرانی عمارتوں کو آسیب زدہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی جو گہری اور وسیع شکلیں پاکستان اور بھارت میں پائی جاتی ہیں اس کی باقی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ برصغیر میں توہم پرستی کی کئی رسومات کا تعلق قدیم ہندو مت کی ان کے نزدیک مقدس کتابوں سے ہے۔ ایک قدیم ہندو مقدس کتاب، دھرم سدھو، میں بغیر کسی عقلی وضاحت کے ان چیزوں کی تفصیل دی گئی ہے، جو اس مذہب کے ماننے والوں کے لیے لازم ہیں۔ اور ان ہدایات کے حق میں کوئی عقلی یا منطقی دلیل دئیے بغیر یہ واضح کیا گیا کہ اس کا مقصد انسان کو بد روح سے بچانا ہے۔ برصغیر میں اسلام کی آمد کے بعد بھی توہم پرستی ختم نہیں ہوئی، بلکہ جن لوگوں کے مفادات توہم پرستی سے جڑے ہیں، انہوں نے اس مقدس مذہب کو بھی توہم پرستی کو بڑھاوا دینے کے لے استعمال کیا۔ توہم پرستی کے حق میں کئی احادیث ڈھونڈ لیں۔ کئی اقوال تراش لیے اور اس طرح مذہب کے اندر سے ہی توہم پرستی کا جواز ڈھونڈ لیا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ توہم پرستی کو سائنسی علم یا دلیل و منطق سے رد کیا جا سکتا ہے۔ ایسی کئی روایات ہیں، جن کو ان طریقوں سے کئی بار غلط ثابت کیا جا چکا ہے، اس کے باوجود انسان بدستور توہم پرستی کی گرفت میں ہے۔ ہم ہر روز اپنے ارد گرد سماج کی ہر پرت میں اس کی مضبوط گرفت کے مظاہرے دیکھتے ہیں۔ اس طویل سلسلے کا ایک اہم مظہر بیماریوں کا معجزانہ علاج ہے۔ ہمارے ہاں پانی کے کئی قدرتی چشموں کو ایسی خطرناک بیماریوں کا معجزانہ علاج سمجھا جاتا ہے، جن کا مغرب بھی ابھی تک کوئی علاج ڈھونڈنے میں نا کام رہا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے خود ساختہ مسیحائوں کی بھرمار ہے، جو جڑی بوٹیوں، ٹوٹکوں اور پھونک سے ان مریضوں کی بند شریانیں کھولنے کے دعوے دار ہیں، جن کو بڑے بڑے ڈاکٹر مایوس کر چکے ہوتے ہیں۔ میں نے ایک ماہرِ امراضِ دل اور ایک معروف میڈیکل سکول کے ایک پروفیسر سے ایک دیسی بابے کا ذکر کیا جو ایک محلول سے دل کی بند شریانیں کھولنے کا دعویٰ کرتا ہے، اور لوگ اس کے دروازے پر قطار بنائے کھڑے ہیں۔ پروفیسر نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ وہ جو دعویٰ کر رہا ہے‘ اگر اس کا ایک فیصد بھی پورا کر سکتا ہے تو وہ چند ماہ میں دنیا کا امیر ترین آدمی اور طبی سائنس کی تاریخ کا سب سے بڑا سائنس دان بن جائے گا۔ کچھ عرصے بعد مجھے بتایا گیا کہ اس بابے کے ساتھ 'وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے‘ والی بات ہو گئی۔ طبی سائنس کے واضح انتباہ اور اس موضوع پر بڑے پیمانے پر مباحث کے باوجود ہمارے ہاں معجزانہ علاج، جادوئی اثر رکھنے والی جڑی بوٹیوں اور مافوق الفطرت قوتوں کے استعمال سے کام نکالنے کا دھندہ اپنے عروج پر ہے۔ کئی لوگ مختلف روپ دھار کر اس دھندے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ اس باب میں مذہب کو بھی بڑی چابک دستی سے استعمال کرتے ہیں اور روحانیت اور توہم پرستی کے درمیان فرق مٹا کر عام آدمی کی جہالت یا سادگی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اشرافیہ بھی ان لوگوں کے سحر سے آزاد نہیں۔ ہمارے ہاں وزیر اعظموں سے لے کر عام آدمی تک ہر کوئی کسی نہ کسی حکیم، جادوگر، نجومی یا کسی بابے کا معتقد ہے‘ بلکہ کچھ لوگوں میں تو یہ اب فیشن بن چکا ہے۔ کالے جادو اور معجزاتی شفا بخشنے والے چاروں اطراف موجود ہیں۔ ان میں دیہاتی علاقوں کے جاگیرداروں سے لے کر بڑے شہروں کے سیاست دانوں اور کاروباری طبقات تک سب شامل ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے نے چند سال پہلے بڑے لوگوں کی توہم پرستی اور کالے جادو کے خوف پر اپنی ایک کہانی میں آصف زرداری کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری سخت قسم کی توہم پرستی کا شکار ہیں۔ وہ کالے علم اور کالے جادو پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔ اخبار کے مطابق آصف زرداری کو کالے جادو اور شیطانی قوتوں سے بچانے کے لیے باقاعدگی سے کالے بکروںکی قربانی دی جاتی ہے۔ اگرچہ فرحت اللہ بابر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس عمل کو صدقہ قرار دیا اور بتایا کہ زرداری صاحب جانور کی قربانی کر کے غریب لوگوں میں گوشت کی خیرات کرتے ہیں، جو ان کا دیرینہ معمول ہے۔ گویا اس عمل کا مقصد خیرات کے ذریعے غریبوں کی مدد ہے، کالے جادو سے تحفظ نہیں۔ عام آدمی کی ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی تو عام سی بات ہے۔ کافی لوگ ایسے پیروں فقیروں کو مانتے ہیں جو ان کے خیال میں سیلاب کے بعد آلودہ پانی کو پھونک مار کر صاف و شفاف کر سکتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو صحت، گھریلو نا چاقی، شادی بیاہ اور معاشی مسائل کا حل پُراسرار علوم اور شخصیات میں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں قبریں کھود کر ہڈیاں چرانے کے واقعات اکثر اخبارات میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ مسروقہ ہڈیاں ملک میں پھیلتے ہوئے کالے جادو کے کاروبار کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ قدیم اور فرسودہ سوچ کسی کا ذاتی یا نجی معاملہ نہیں۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ یہ اجتماعی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ کوئی سماج جب تک اس طرح کے فرسودہ سوچیں نہیں بدلتا ترقی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا تبدیلی کی بات کرنے والوں کو سماج میں بہت بنیادی سطح پر فرسودگی کے خاتمے کے لیے سائنسی، منطقی اور عقلی سوچ کو رواج دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔