"FBC" (space) message & send to 7575

تکرار کیوں؟

اگر ہم نقاب اٹھائیں گے، تو آپ کو بھی صلیب ہٹانی پڑے گی۔ یہ بات کچھ پردہ نشین خواتین اور ان کے حامیوں نے کینیڈا کے ایک صوبے کے ارباب اختیارسے کہی۔ کہا کہ اگر نقاب مذہبی علامت ہے، تو صلیب کیا ہے؟
اگرچہ صلیب اور نقاب میں کوئی نسبت نہیں، کوئی تقابل نہیں۔ صلیب مسیحیوں کا مقدس نشان ہے اور نقاب مسلمانوں کی ثقافتی اور مذہبی علامت‘ مگر آج کل کینیڈا کے کچھ حلقوں میں ان دو چیزوں پر تقابلی بحث ہو رہی ہے۔
کینیڈا کے ایک صوبے کوبیک کے نو منتخب وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ سرکاری ملازمین کے لیے کام کے دوران نقاب یا برقعہ نہ پہننے کے قانون کی سختی سے پابندی کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سرکاری ملازم کام کرتے وقت اپنا چہرہ دکھانے کا پابند ہو گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ، یونیورسٹیز، سرکاری دفاتر سمیت تمام سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی چہرے کا کھلا اور قابل شناخت ہونا ضروری ہو گا۔ 
کینیڈا کے جس صوبے میں یہ کچھ ہو رہا ہے، اس کا ایک منفرد پس منظر ہے۔ اس صوبے میں زیادہ تر فرانسیسی بولنے والے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کی ثقافت پر فرانسیسی کلچر کی چھاپ نمایاں ہے۔ یہ لوگ اپنے کلچر اور زبان کے بارے میں کافی حساس ہیں۔ کچھ لوگ اس باب میں تحفظاتی رویہ بھی رکھتے ہیں۔ کچھ اجنبیوں سے بیزار اور خوف زدہ ہیں‘ مگر اکثریت گرم جوش اور دوستانہ روئیے رکھنے والے خوش اخلاق لوگ ہیں۔
اس پس منظر میں ماضی میں حجاب، نقاب، برقعہ، یہودی ٹوپی یا سکھوں کی پگڑی کے حوالے سے اکا دکا بحث مباحثے ہوتے رہے‘ حالانکہ ایسے لوگوں کی تعداد جو نقاب، ٹوپی یا پگڑی پہنتے ہیں یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند سال قبل یہاں کی دائیں بازو کی ایک قوم پرست پارٹی نے اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی میں قانون بنایا تھا۔ اب نئی منتخب حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس قانون پر سختی سے عمل کرے گی، جس سے اس بحث کا از سر نو آغاز ہو گیا۔ 
اس پر کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر سرکار ی جگہوں پر مذہبی نشانات یا علامات کی نمائش درست نہیں تو کوبیک کی پارلیمان میں جو صلیب لٹک رہی ہے، اس کو بھی ہٹایا جانا چاہیے۔ یہ صلیب سال انیس چھتیس میں ایک ایسی حکومت کے دور میں نصب ہوئی، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ شمالی امریکہ کی واحد کیتھولک حکومت ہے۔ مگر وزیر اعلیٰ کا اصرار ہے کہ اس صلیب کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘ یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے، اور صلیب ایک ثقافتی علامت ہے۔ 
حکومت کے حامی دانشور کہتے ہیں کہ دنیا میں صلیب عیسائیت کے ظہور سے کئی صدیاں پہلے سے موجود تھی۔ اس کی ابتدا قدیم بابل کی تہذیب سے ہوئی، جہاں سے یہ باقی دنیا تک پہنچی۔ مسیحیت سے کئی صدیاں پہلے صلیب مصر، شام، یونان، ہندوستان اور میکسیکو کی قدیم تہذیبوں میں موجود تھی۔ عیسائیت میں مذہبی علامت کا درجہ حاصل کرنے سے پہلے صلیب کئی جگہوں پر مذہبی علامت اور کئی علاقوں میں زیب و آرائش کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک وقت میں ایک آفاقی علامت رہی ہے، جس کا مختلف مذاہب سے تعلق رہا ہے۔ اور یہ علامت زیادہ تر ثقافتی ہے، جسے بعد میں مسیحیوں نے اپنی اہم ترین علامت کے طور پر اختیار کر لیا۔ 
جواب آں غزل کے طور پر پردے کے حوالے سے یہ دلیل سامنے آئی کہ پردہ مذہبی نہیں، بلکہ ایک ثقافتی علامت ہے، جو ظہورِ اسلام سے پہلے بھی موجود تھا۔ اسلام میں اس کو اپنانے کا حکم ہوا اور اس کو ایک مقدس مذہبی حیثیت دے دی گئی۔ کچھ مسلمان ممالک میں اس پر سختی سے پابندی شروع ہو گئی، اور رفتہ رفتہ پردہ اسلام کی ایک نمایاں علامت بن گیا۔ اگرچہ پردے کی شکل، سائز اور طریقے پر خود مسلم دنیا میں مکمل اتفاق نہیں رہا۔ مختلف ممالک اپنے اپنے طرز زندگی اور تاریخی و ثقافتی پس منظر میں اس کو دیکھتے اور اختیار کرتے رہے ہیں۔ بلکہ ایک ہی ملک میں مختلف فرقوں یا علاقائی ثقافتوں کے اعتبار سے پردے کی اشکال، اقسام اور استعمال کی ضرورت اور طریقوں پر بھی تھوڑا بہت اختلاف ہمیشہ موجود رہا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ پردہ تمام ابراہیمی مذاہب یعنی عیسائیت، یہودیت یا اسلام سے بہت پہلے بھی موجود تھا۔ انسانی تاریخ میں کم از کم پچیس سو سال قبل مسیح میں اس کی موجودگی کے واضح شواہد موجود ہیں۔ قدیم عظیم سلطنتوں میں اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتوں میں پردے کا رواج عام تھا۔ قدیم میسوپوٹامیا، اشوریہ، بازنطینی، یونانی اور پرشین تہذیبوں میں اونچے طبقے کی عورتیں پردہ کرتی تھیں۔ اس سلسلے عراقی اور اشوری سلطنتوں میں سخت قوانین موجود تھے۔ ان قوانین کا اطلاق عورتوں پر ان کے طبقے کی مناسبت سے ہوتا تھا۔ اشرافیہ اور بالا دست طبقات کی خواتین کے لیے پردہ لازم تھا۔ غلام عورتوں کے لیے پردہ ممنوع تھا۔ جسم فروشی کا کاروبار کرنے والی عورتوں پر پردہ نہ کرنے کی پابندی تھی۔ اگر کوئی غلام یا جسم فروش عورت پردہ کرتے ہوئے پکڑی جاتی تو اسے عبرت ناک سزا دی جاتی تھی۔ گویا پردہ ایک سٹیٹس سمبل تھا، ایک اریسٹوکریٹک رینک کی علامت تھی۔ ایک نشانی تھی، جو اشرافیہ کی عورت کو غلام اور عام نچلے طبقے کی محنت کش عورت سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس دلیل کو تاریخ کی تائید حاصل ہے؛ چنانچہ تاریخی اور ثقافتی باب میں دونوں کی دلیل برابر ہے۔ بنیادی طور نقاب یا برقعہ لباس کا حصہ ہے۔ یہ امر فیصل ہے کہ کسی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے لباس کے بارے میں فیصلے کرے۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بجا طور پر اس کو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا مسئلہ کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ کام اور اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی خاتون کو بتائے کہ وہ کیسا لباس پہنے، یا نہ پہنے‘ لباس کا انتخاب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ کوئی عورت حجاب پہننا چاہیے تو کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اسے روکے، اسی طرح کسی حکومت کو یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی عورت کو حجاب پہننے پر مجبور کرے۔
دوسری طرف اس قانون کے حامی کہتے ہیں کہ یہ بحث لباس سے متعلق نہیں ہے۔ یہ بحث مختلف مذاہب کے حوالے سے ریاست کو غیر جانبدار رکھنے کی ہے۔ سماج میں تقسیم ختم کرنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے سے متعلق ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ایک سکیورٹی اور شناخت کا مسئلہ ہے۔ بحث آگے بڑھتی جاتی ہے تو اس کے حق اور مخالفت میں مزید دلائل شامل ہوتے جاتے ہیں۔ ایک دلیل یہ ہے کہ یہ اسلاموفوبیا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ایک اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ اس کا اسلام سے تعلق نہیں، یہ عورت کی آزادی اور اختیار کا مسئلہ ہے۔ عورتوں پر مرد کے غلبے اور غلامی کو برقرار رکھنے کا ایک ہتھیار ہے، جس کو دنیا کے سخت گیر آمر و جابر حکومتیں استعمال کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ مذہبی ذمہ داری سے زیادہ ایک سیاسی بیان ہے، مذہب اور ثقافت کے نام پر کچھ عورتوں کی طرف سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار آپ سے مختلف ہیں۔ اور یہ کہ ہم آپ سے زیادہ نیکوکار، برتر یا پرہیز گار اور پاکیزہ ہیں۔ اگرچہ کوبیک شمالی امریکہ میں پہلی قانون ساز اسمبلی ہے، جہاں ایسا قانون بنا ہے، مگر قبل ازیں فرانس، بلجئم اور سوئٹزرلینڈ سمیت کچھ ممالک اس سے ملتی جلتی قانون سازی کر چکے ہیں۔ جہاں تک اسلامو فوبیا اور امتیازی سلوک کی بات ہے تو میرے خیال میں اگر یہ قانون کینیڈین چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈم کی سخت گیر ٹیسٹ سے گزار لیا جائے تو یہاں صورت حال واضح ہو سکتی ہے ۔ یہ چارٹر معلوم دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کی سب سے شاندار دستاویز ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ایک آزاد اور جمہوری سماج میں ایسی بحث اس سماج کی روح سے متصادم ہے۔ ایک آزاد‘ جمہوری سماج کی سب سے نمایاں خصوصیت مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا ہے۔ یہ رواداری برقرار رکھنا ارباب اختیار اور عام شہری‘ دونوں پر لازم ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں