آدمی نظام بدلتا ہے ؟ یا نظام آدمی کو بدلتا ہے۔ یہ فلسفے کا سوال بھی ہے، اور علم سیاسیات، معاشیات اور نفسیات سمیت کئی دوسرے علوم کی دلچسپی کا مرکز بھی۔ یہ ایک پرانا سوال ہے ، جس پر ہزاروں مباحثے ہو چکے ہیں۔ لاکھوں مضامین اور کتب تخلیق ہوئیں۔ ایک دنیا اس سوال کا جواب جانتی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگوں کو ابھی تک اس سوال کا پورا جواب نہیں مل سکا‘ یا پھر ہمارا اس جواب پر اعتبار قائم نہیں ہوا۔ ایسا مجھے مختلف اوقات میں مختلف اربابِ اختیار کے اعلانات، بیانات‘ وعدوں اور دعوووں سے لگتا ہے۔ اور اس پر میرے یقین کا سبب مختلف حکومتوں کے عارضی، جمالیاتی اور علامتی قسم کے اقدامات ہیں۔ یعنی اربابِ اختیار عوام کے حقیقی مسائل کا کوئی ٹھوس اور حقیقی حل تلاش کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں کہ مسائل کی شکل بدل جاتی ہے‘ جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے‘ جبکہ حقیقت میں مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے، اور کچھ عرصے بعد ایک نئی شکل میں سر اٹھاتا ہے۔ روزمرہ کے صفائی جیسے عام مسائل سے لے کر روزگار جیسے سنگین مسائل تک‘ ہمارا یہی رویہ ہوتا ہے؛ چنانچہ اس بات پر تھوڑا غور کرنا چاہیے کہ آدمی پہلے بدلتا ہے یا نظام۔ ہمارے سامنے پوری انسانی تاریخ کی ان گنت مثالیں موجود ہیں کہ نظام بدلنے کے اسباب خود ہر نظام کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ مگر یہ ہمیشہ آدمیوں کا ایک گروہ ہوتا ہے، جو پرانے نظام کو مرنے اور نئے نظام کے جنم میں مدد اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تاریخ میں جتنے انقلاب آئے‘ ان میں یہ بات مشترک تھی۔ قدیم جاگیرداری نظام اپنی موت خود مرا تھا۔ مگر ایسا کبھی نہ ہوتا اگر انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر اس حقیقت سے آگاہ نہ ہو تے کہ یہ نظام اب ظلم کے نظام کا روپ دھار چکا ہے، اور ظلم و تشدد کے ذریعے ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس گہرے شعور کی وجہ سے انسان نے جاگیرداری کو مرنے اور اس کی جگہ نئے نظام کو جنم لینے میں مدد دی۔ آدمی ایک پرانے اور فرسودہ نظام کو بدل کر ایک نئے نظام کی بنیاد ڈالتا ہے، مگر اس کے بعد یہ نظام ہوتا ہے جو آدمی کو بدلتا ہے۔ نئے آدمی پیدا کرتا ہے، جن کی نئی اخلاقیات، نئے انداز و اطوار اور بسا اوقات نیا کلچر ہوتاہے۔ جب تک دم توڑتے ہوئے نظام کی جگہ نیا نظام نہ لے لے اس وقت تک کسی بھی سطح پر کرپشن کے کلچر کو ایک آدمی کی ایمان داری، سخت سزائوں یا وعظ و نصیحت سے نہیں بدلا جا سکتا۔ اس تبدیلی کے لیے احتساب اور جوابدہی کا ایک نظام ہونا ضروری ہے۔ یہ نظام انسان کو کرپشن سے روکتا ہے۔ مغرب میں کرپشن کے خاتمے میں تعلیم وتربیت کے علاوہ ایک مؤثر اور شفاف نظام ایک بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کو یقین ہے کہ اس نظام میں جائز کام کے راستے میں کوئی بلاوجہ رکاوٹ نہیں بن سکتا‘ اور ناجائز کا م ہو نہیں سکتا خواہ جو جتن مرضی کر لیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں سب لوگ فرشتے نہیں ہوتے۔ یہ لوگ ہم سے زیادہ خوف خدا میں بھی مبتلا نہیںہوتے‘ کیونکہ یہاں خوف خدا اور ایمان داری کاا تنا ڈھنڈورا پیٹا نہیں جاتا جتنا ہمارے ہاںپیٹا جاتا ہے۔ یا ان لوگوں کی عزت نفس و توقیر ہم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کے ہاں جرائم کی سزا بھی ہم سے زیادہ اور بھیانک نہیں ہوتی۔ مگر اگر وہ کرپشن نہیں کرتے تو اس کی وجہ نظام ہے۔ یہ نظام دو طریقوں سے ان کو کرپشن سے روکتاہے۔ ایک کرپشن کو بر ا سمجھنا، جس پر سیاسی اور سماجی سطح پر اجماع ہے۔ اگر ایک سیاست دان پرکرپشن کا الزام ہے، تو اس کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتاہے۔ سماجی سطح پر یہ ایک داغ ہے، جو انسان کی عزت و احترام اور اس کے سوشل سرکل کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اس کے بعد نظام کے اندر جو شفافیت ہے، جانچ پڑتال اور حساب کتاب کے نظام ہیں، ان کی موجودگی میں کرپشن اتنابڑا رسک بن جاتا ہے، جو کوئی جنونی یاکوئی پاگل پن کاشکار انسان ہی لے سکتا ہے؛ چنانچہ یہ نظام ہے ، جو انسان کو رشوت لینے سے روکتا ہے۔ یہ نظام ہے جو میرٹ کا تقدس برقرار رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ نظام ہے، جو انصاف کی ضمانت دیتاہے۔ اور یہ نظام ہی ہے جو دوسرے کا حق مارنے سے روکتا ہے۔ صرف ایک اچھے آدمی یا دیانت دار آدمی کے ذریعے سماج میں اچھائی پھیلانے کا جوتصور ہے، یہ ہمیں بدلناہوگا، اور اس کی جگہ اچھے نظام کو کام پر لگانا ہو گا۔ چونکہ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر ہمارے ہاں غیر حقیقی سوچ اور ہیرو ازم بہت زیادہ آ گیاہے۔ اس طرح کی سوچ کے ادارے اشخاص کے گرد گھومنے لگتے ہیں۔ وہ اشخاص کے ذاتی کردار کے مرہون منت ہو جاتے ہیں۔
ہم سوچنے لگتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بے داغ دیو مالائی داستانوں کے کسی کردار کی طرح کا کوئی عظیم قا ضی ہو گاتو انصاف ہوگا، ورنہ پورا محکمہ عدل رشوت اور نا انصافی پر لگ جائے گا۔ پولیس کا سربراہ جانا مانا دیانت دار اور نیکو کار ہیرو ٹائپ آدمی ہو گا تو جرائم کم ہوں گے، لوگوں کی عزتوں کو تحفظ ملے گا۔ وزیر موصوف صادق و امین ہوں گے تو خزانہ بھر ے گا ۔ حالانکہ دیانت دار ہونا یا فرض شناس ہونا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی اضافی خصوصیات نہیں ہیں۔ ان فرائض کی انجام دہی کے لیے ان خصوصیات کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ اور یہ خصوصیات رکھنا کوئی فخر کی بات نہیں۔ ہر انسان سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ان خصوصیات کا حامل ہو‘ تبھی وہ اس طرح کے کسی عہدے کے لیے امیدوار ہو سکتا ہے، ذمہ داری کا اہل ہو سکتا ہے۔ ہم اس میدان میں اتنے مایوس اور نا امید ہو چکے ہیں کہ اگر عوامی عہدے کا کوئی امید وار یہ ثابت کرے کہ اس کا ماضی بے داغ ہے، یا وہ دیانت دار اور سچا ہے تو ہم اسے کوئی بہت بڑی نعمت تصور کرنے لگتے ہیں؛ چنانچہ اس طرح کے ماحول میں ہمیں ایک خاص قسم کے نیکو کار، ایمان دار اور طلسماتی کرداروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح یہ شخصیت پرستی کا ایک دائرہ ہے جس کے اندر ہم گھومتے رہتے ہیں۔ ہم ایک عظیم انسان کے جانے کے بعدد وسرے عظیم انسان کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں‘ جبکہ اس کی جگہ ہمیں ترقی یافتہ اور شفاف سماجوں کی طرح نظام کو کام پر لگا ناچاہیے، نظام کو ہی نگہبانی اور نگرانی کا کام بھی سونپ دینا چاہیے، تاکہ کسی محکمے کے سربراہ یا ادارے کے چیف کوبھی نظام خود بخود بُرے کام سے روکے اور اچھے کام پر مجبور کرے۔ ایک منظم، منصفانہ اور ثابت قدمی سے بندھاہوا نظام قائم کیے بغیر کسی بڑی تبدیلی کی امید عبث ہے۔ نظام کو شخصیات کے گرد گھمانے کے اس عمل سے کوئی مثبت نتائج نہیں نکل سکتے؛ چنانچہ اس دائرے سے نکل کر ایک ایسے نظام کا قیام ضروری ہے جو اپنے اندر کسی قسم کی کرپشن، بد دیانتی یا نا اہلی کی گنجائش ہی نہیں رکھتا ہو‘ اور جس میں اہلکاروں کو ایسے اعمال سے روکنے کا ایک خود کار نظام موجود ہوتا ہے۔ حساب کتاب اور جانچ پڑتال کا نظام ہوتا ہے، جس سے ہر شہری کو بلا تفریق گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احتساب، جواب دہی کا ایک میکانزم ہوتا ہے۔ ایک خودمختار، غیر جانب دار اور ہر طرح کے بغض سے پاک نظامِ عدل ہوتا ہے، جو عوام کو یقین دلاتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی کریں گے تو بچ نہیں سکیں گے، اور اگر ان سے زیادتی ہوگی تو ان کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ بے لوث اور دیانت دار رہنما کسی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں، مگر وہ بذات خود ہر روگ کا علاج نہیں ہو سکتے۔ معاشرے کے ہر روگ کا اگر کوئی مستقل علاج ہے، تو وہ ایک موثر اور منصفانہ نظام ہے، جسے عوام کی اخلاقی حمایت حاصل ہو تی ہے۔ نیا پاکستان بنانے والوں کو اس نظام کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔