کیا قوم پرستی اور عالم گیریت میں تضاد ہے ؟ یا قومی تشخص اور عالمی تشخص کے تصورات میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے؟ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے انتخاب اور برطانیہ کے یورپین یونین سے نکلنے کے بعد یہ سوال عالمی دانشور حلقوں میں شدت سے زیر بحث ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر سارے بنی نوع انسان کی تہذیب میں بہت کچھ مشترک ہے، بہت کچھ مختلف ہے۔ مگر ساری دنیا کے لوگوں کو ایک جیسے چیلنجز اور مواقع میسر ہیں تو پھر امریکی، برطانوی، روسی اور کئی دوسری اقوام آج قوم پرستی کی طرف کیوں جھک رہی ہیں ؟ کیا قوم پرستی کی طرف رجوع کرنے سے دنیا کے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ یا یہ محض فرار ہے ، جس کی وجہ سے تباہی انسان کا مقدر بن سکتی ہے؟ یہ سوال پروفیسر حریری نے قوم پرستی کے باب کے تحت اپنی کتاب 'اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق‘ میں اٹھایا ہے۔ پروفیسر کا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مغالطے کا ازالہ ضروری ہے۔ عام خیال کے بر عکس، قوم پرستی انسانی نفسیات کا لازمی اور فطری حصہ نہیں ہے‘ اور اس کی جڑیں انسانی بائیولوجی میں پیوست نہیں ہیں۔
یہ سچ ہے کہ انسان سماجی جانور ہے۔ گروہ بندی اس کے جین میں ہے، یعنی یہ رجحان نسبی یا موروثی ہے۔ ہزاروں لاکھوں سال سے انسان برادری کی شکل میں رہتے رہے ہیں۔ انسان چھوٹے چھوٹے گروہوںکے ساتھ آسانی سے منسلک ہوتے ہیں۔ ان میں قبیلہ، برادری وغیرہ شامل ہیں۔ مگر یہ انسان کے لیے آسان نہیں تھا کہ وہ لاکھوں اجنبیوں کے ساتھ آسانی سے گھل مل کر رہ سکے۔ اتنے بڑے پیمانے پر قومی اور ملکی وفاداریوں کا آغاز کوئی دو ہزار سال پہلے ہوا، اور یہ سماجی تعمیر کی بہت بڑی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
لوگوں نے قومی سطح پر یکجا ہونے کے لیے اتنی محنت اس لیے کی کہ ان کو ایسے چیلنجز کا سامنا تھا، جن کا حل قبیلے انفرادی طور پر نکالنے کے قابل نہیں تھے۔ اس سلسلے میں ان قدیم قبائل کی مثال لی جا سکتی ہے، جو صدیوں سے دریائے نیل کے کنارے بستے تھے۔ دریا ان کی زندگی تھا، یہ ان کے کھیتوں کو پانی دیتا تھا‘ اور ان کی تجارت کے کام آتا تھا۔ لیکن یہ ایک قابل پیشین گوئی اتحادی نہیں تھا۔ بارش کم ہو تو لوگ بھوک سے مرنے لگتے تھے۔ زیادہ بارش ہوتی تو دریا ان کے پورے گائوں کو بہا لے جاتا تھا۔ یہ بڑا مسئلہ تھا، اور کوئی ایک قبیلہ اکیلا یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتا تھا۔ چونکہ ہر قبیلہ دریا کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر قدرت رکھتا تھا، اور محدود تعداد میں مزدوروں کو جمع کرنے کی استطاعت رکھتا تھا‘ چنانچہ بڑے تالاب بنانے اور نہریں کھودنے کے لیے ایک بڑی اور مشترکہ کوشش کی ضرورت تھی۔ یہ وہ وجوہات تھیں، جن کی بنا پر قبیلے آپس میں متحد ہو کر قوموں میں تبدیل ہوئے تاکہ وہ ڈیم اور نہریں بنا سکیں۔ سینکڑوں میل پر پھیلے ہوئے دریا کو قابو کر سکیں۔ گودام بنانے اور اناج ذخیرہ کرنے کا بندو بست کر سکیں‘ اور ملکی سطح پر نقل و حرکت اور اطلاعات کا ایک نظام قائم کر سکیں۔
ان فوائد کے باوجود قبیلوں کو ایک قوم میں متحد کرنا آسان نہ تھا۔ تب بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ ہزاروں ایسے لوگوں کو جن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ہو یا ان سے ملاقات کے مستقبل میں امکانات نہ ہوں کو اپنا سمجھنا آسان نہیں ہے اور ان سے وفا داری محسوس کرنا شکار کے زمانے کے آبائواجداد کی وراثت نہیں ہے، بلکہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جوڑنے کے لیے ریاست کو بڑے پیمانے پر تعلیم و تربیت کا ایک نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قومی بندھن بنانے میں کوئی خرابی ہے۔ یہ یقین کرنا کہ میری قوم منفرد ہے۔ یہ میری وفاداری کی حق دار ہے، اور اس کے لیے میری خاص ذمہ داریاں ہیں۔ اس سے میرے اندر دوسروں کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ پرامن، خوش حال اور لبرل ممالک جیسے سویڈن، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ‘ سب میں مضبوط قوم پرستی پائی جاتی ہے۔ اور جن ممالک میں قوم پرستی نہیں ہے، ان کی فہرست میں افغانستان، صومالیہ جیسے ممالک شامل ہیں، جہاں لوگ اپنی ہی قوم اور ملک کے لوگوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔
قوم پرستی بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حب الوطنی شائونزم بن جائے، یعنی یہ جنونی اور جارحانہ وطن پرستی کا روپ دھار لے۔ یا پھر الٹرا نیشنل ازم یعنی جنونی اور شدت پسند قوم پرستی کی شکل میں سامنے آ جائے ۔ یہ یقین کرنے کے بجائے کہ میری قوم منفرد و یکتا ہے ، میں یہ یقین کرنے لگتا ہوں کہ میری قوم باقی سب قوموں سے برتر ہے۔ یہ سوچ پُرتشدد تصادم کے لیے زرخیز زمین تیار کرتی ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی کی ابتدا میں قوم پرستی ایک خوش کن تصور رہا ہے۔ اگرچہ قوم پرستی قوموں کو بڑے پیمانے پر تصادم کی طرف بھی لے جا رہی تھی، لیکن پھر بھی قومی بنیادوں پر ہی قوموں نے تعلیم، صحت اور بہبود کا ایک بڑا نظام قائم کیا۔ سال انیس سو پینتالیس میں سب کچھ بدل گیا۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی ایجاد سے کھیل ہی بدل گیا۔ ہیروشیما کے بعد لوگوں کو یہ خوف نہیں رہا تھا کہ قوم پرستی ہمیں جنگ کی طرف لے جائے گی، بلکہ ان کو یہ خوف پیدا ہوا کہ قوم پرستی ہمیں نیوکلیئر جنگ میں جھونک سکتی ہے۔ اس خوف کی وجہ سے قوم پرستی کے جن کو واپس آدھا بوتل میں بند کر دیا گیا۔ جس طرح دریائے نیل کے کنارے بسنے والے قبائل نے اپنی وفاداری قبیلوں سے ختم کر کے بڑی قوم سے وابستہ کی جو ان کو دریا کے قہر سے بچا سکتی تھی، اسی طرح نیوکلیئر دور میںکچھ قومیں ابھریںجو مل جل کر نیوکلیئر کے بھوت کا مقابلہ کر سکتی تھیں۔
انیس سو چونسٹھ میں صدر لنڈن جانسن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کے لیے جس میں خدا کی مخلوق اکٹھی رہ سکے، ہمیں ایک دوسرے سے پیار کرنا پڑے گا یا پھر ہم سب مٹ جائیں گے۔ اس وقت تک، محبت کرو جنگ نہیں، کا نعرہ پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا تھا۔ اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے دوران آہستہ آہستہ قوم پرستی پیچھے ہٹتی گئی اور عالمی سیاست میں ایک نیا عالمی تناظر ابھرا۔ اور جب سرد جنگ ختم ہوئی تو گلوبلائزیشن ایک طوفانی لہر کی طرح ابھری۔ یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ دنیا قوم پرستی کو ایک قدیم تصور کی باقیات کے طور پر بھول جا ئے گی‘ مگر حالیہ واقعات نے ثابت کیا کہ قوم پرستی کا ابھی تک مضبوط اثر باقی ہے۔ یہ اثر صرف روس، چین اور بھارت میں ہی نہیں، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے شہریوں پر بھی کم نہیں ہے۔
ماضی میں اس لیے قومی تشخص کا ابھار ہوا کہ قبائلی نظام کو ایسے مسائل اور مواقع کا سامنا تھا جو اس کی استطاعت سے بڑے تھے۔ یہی صورت حال آج پھر درپیش ہے۔ اکیسویں صدی میں قومیں اور ملک انفرادی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ درپیش سنگین مسائل کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ مسائل عالمی ہیں۔ معاشیات، ماحولیات اور سائنس عالمی مسائل اور مواقع ہیں۔ ان کے حل کے لیے عالمی تعاون اور ایک نئے عالمی تشخص کی ضرورت ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ قوم پرستی اور عالم گیریت میں کوئی تصادم نہیں ہے‘ بشرطیکہ قوم پرستی تنگ نظر اور جارحانہ نہ ہو۔ ترقی پسند اور پُر امن بقائے باہمی کے اصولوں کی پابند ہو۔ ہمارے عہد میں دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے عالمی ہیں۔ ان مسائل کا حل مشترکہ عالمی کوشش اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دنیا ایک عالمی گائوںہے، اور اگر یہ گائوں پر امن ہو، اور اس میں گھر سب کا اپناا پنا ہو تو اس میں خرابی کیا ہے؟