ہم چین سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ چینیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ بات وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دورہ چین کے دوران بار بار دہرائی ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان کے کسی ہائی پروفائل رہنما نے چین کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی بات کی ہو۔ پاکستان میں اس خواہش کا اظہار عظیم چینی انقلاب کے فوراً بعد ہی سال انیس سو اکاون میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ انیس سو چھپن میں چو این لائی اور حسین شہید سہروردی نے باقاعدہ معاہدہ دوستی پر دستخط کئے۔ ایوب خان کے دور میں اس باب میں مزید پیش رفت ہوئی۔ ایوب خان ایک طرف بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں اس حد تک آگے گئے کہ کنفیڈریشن تک کی تجویز پیش کر دی‘ اور دوسری طرف میرے دشمن کا دشمن میرا دوست کی پالیسی اپناتے ہوئے چین کے ساتھ دوستی کی راہ اپنائی۔ اس پالیسی میں اقتصادی سے زیادہ سٹریٹیجک مفادات نمایاں تھے کہ اس وقت چین نے اقتصادی میدان میں ترقی کے وہ معجزے نہیں دکھائے تھے، جو آنے والے وقتوں میں دکھائی دئیے‘ جبکہ ان دنوں پاکستان میں ترقی کی شرح سپین اور پرتگال کے قریب قریب تھی، اور اس باب میں وہ مشرق کے بجائے مغرب کی طرف دیکھ رہا تھا۔
چین سے استفادہ کرنے کی خواہش کا برملا اظہار ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کیا تھا۔ وہ معاشی نظام کے حوالے سے چینی تجربے سے فائدہ اٹھانے میں کافی سنجیدہ تھے۔ وہ بھی عمران خان کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی کے متمنی تھے؛ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ابتدائی دنوں کے منشور و آئین پر مائواسٹ فکر کی چھاپ بھی تھی۔ پارٹی کے اندر اور باہر کچھ مائو نواز لوگ تھے جو پاکستان میں چینی طرز کے انقلاب کے خواہش مند تھے مگر مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے معروضی و موضوعی حالات مائوازم کے لیے ہموار نہ تھے۔ یہاں قومی جمہوری انقلاب کی البتہ گنجائش اور ضرورت تھی، جو بتدریج عوامی جمہوری انقلاب کی طرف جا سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح کے پانیوں میں انقلاب کی نائو ڈالی تھی، وہ بہت متلاطم تھا۔ ان متلاطم پانیوں میں تیرنے کے لیے چیئرمین مائو جیسا جگر تو چاہیے ہی تھا‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر پارٹی کی انقلابی خطوط پر تنظیم ایک بنیادی شرط تھی جو کبھی پوری نہ ہو سکی۔ بقول فیض یہاں ہر دھارے میں ایک ان دیکھی منجدھار تھی، اور مانجھی بڑے انجان تھے۔ پارٹی نے انقلاب کا نعرہ ضرور بلند کیا مگر خود پارٹی کی اگلی صفوں اور کیڈر میں کئی انقلاب دشمن لوگ بیٹھے تھے، جن کی دلی ہمدردیاں اور مفادات اس وقت کے مروجہ اور فرسودہ نظام سے جڑے تھے؛ چنانچہ قیمتی املاک اور اثاثوں کو قومیانے کے ادھورے اقدامات کے تحت غلط ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ ان اقدامات کا معیشت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔ ان اقدامات میں کہیں بد دیانتی واضح تھی تو کہیں بد انتظامی یا نا اہلی ؛ چنانچہ چین کے بر عکس یہاں پر اس عمل کے الٹے نتائج نکلے۔ ضیا کے دور میں نج کاری کے عمل یا اثاثوں کی واپسی کے عمل میں بھی شفافیت کا فقدان نمایاں تھا؛ چنانچہ مجموعی طور پر تقریباً بیس برس اسی ہیر پھیر میں ضائع کر دئیے گئے۔ پھر پاکستان کا تاریخی پس منظر اور مخصوص سیاسی حالات بھی ایک بڑا عنصر تھا۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں اگرچہ زیادہ تر آمریت اور شخصی حکمرانی تھی، مگر لوگوں میںجمہوریت کا شعور اور خواہش موجود تھی۔ آمریت کے باوجود پاکستان میں کثیر جماعتی نظام موجود تھا۔ سیاسی جماعتیں بالخصوص بائیں بازو کی جماعتیں یک جماعتی نظام کے بجائے جمہوریت کی لڑائی کے لیے تیار تھیں۔ اور اس لڑائی کا آغاز پچاس کی دہائی کے شروع میں ہو چکا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان مغربی جمہوریت کے مقابلے میں نظریاتی طور پر بے شک پرولتاریہ کی آمریت پر یقین رکھتی تھی، مگر حالات کی ستم ظریفی نے اسے پاکستان میں جمہوری حقوق، شہری آزادیوں اور حق اظہار رائے کی لڑائی لڑنے پر مجبور کر دیا۔ دائیں بازو کی قدامت پسند پارٹیاں اگرچہ آمریتوں کے ساتھ مل کر سیاست میں اپنا حصہ وصول کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتی تھیں، مگر رائے عامہ کے خوف کی وجہ سے انہیں بھی دکھاوے کے لیے ہی سہی، گاہے جمہوریت کی بات کرنا پڑتی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت اور شہری آزادیوں پر ابتدائی حملوں میں سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی تختۂ مشق بنی۔ پارٹی اور اس سے منسلک طلبہ اور مزدور انجمنیں غیر قانونی ٹھہریں۔ یہاں تک کہ انجمن ترقی پسند مصنفین بھی غیر قانونی قرار پائی۔ ایک طرف پارٹی اور اس کی ذیلی انجمنیںعالمی سطح پر اشتراکیت کے خلاف منظم مہم کے تحت جبر کا شکار ہوئیں۔ دوسری طرف یہ ماسکو نواز اور چین نواز نظریاتی گروہوں میں تقسیم ہو کر کمزور ہو گئیں۔ طویل عرصے تک زیر زمین ہونے اور آمریت کے جبر مسلسل کا شکار ہونے کی وجہ سے یہ پارٹی بالآخر چھوٹے چھوٹے خوردبینی گروہوں میں تقسیم ہو کر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ یہ عالمی ہیئت مقتدرہ کا پہلا خاص اور کامیاب نشانہ تھا۔ مگر اس سے میدان بالکل خالی نہیں ہوا۔ بائیں بازو کے سیاسی اور معاشی تصورات مختلف شکلوں میں ابھرتے اور ڈوبتے رہے۔ جب پاکستان پیپلز پارٹی نے اسلام اور سوشلزم کو ملا کر ایک نئے نظام کا نعرہ لگایا تو انتخابی میدان میں یہ واحد پارٹی نہیں تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کی شکل میں اسے ایک مضبوط، منظم اور شعوری طور پر انتہائی پختہ کار سیاسی کارکنوں کا سامنا تھا؛ چنانچہ انتخابات کے نتیجے میں ایسی پارلیمنٹ بنی، جس کا قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو اور قائد حزب اختلاف خان عبدالولی خان تھا۔ دونوں نابغہ روزگار اور اپنے وقت کے بڑے رہنما تھے۔ دونوں پاکستان میں غربت کے خلاف تھے۔ دونوں ایک سوشلسٹ سماج کے خواہاں تھے، جو اُس وقت دراصل دنیا بھر میں تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کو تیزی سے غربت سے نکالنے کا ایک آزمودہ نسخہ تصور کیا جاتا تھا‘ مگر یہ دونوں آدمی جتنے بڑے تھے، اس سے کہیں بڑی غلطیاں ان سے سرزد ہوئیں۔ بھٹو صاحب نے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کر کے ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی کی۔ یہ پارٹی نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو کی قوتوں کے ساتھ لڑائی میں ان کی فطری اتحادی بن سکتی تھی۔ اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو اپنی شخصی قربانی کی وجہ سے تاریخ میں عوام کے سامنے سرخرو ہو گئے، مگر ان کی اس غلطی کے اثرات پاکستان کی سیاست پر آج بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف ولی خان اپنی تمام تر دانش کے باوجود بھٹو کے باب میں انا پرستی کا شکار ہو گئے۔ جمہوریت کی بحالی اور فوری انتخابات کے مطالبے کے بجائے ان کی طرف سے پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ اٹھایا گیا۔ یہ نعرہ ضیاالحق کے لیے آسمانی تحفہ ثابت ہوا۔ ولی خان کی نیت خواہ کچھ بھی ہوئی ہو، مگر ان کے نعرے سے ضیا آمریت کو قدم جمانے اور راستے کے کانٹے ہٹانے کا موقع مل گیا۔ اور پھر ان کی پالیسیوں نے جو گل کھلائے وہ آج بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اس وقت اگر پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی آپس کی غلط اور غیر ضروری لڑائی میں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے بجائے پاکستان سے غربت کے خاتمے اور جمہوریت کے فروغ کے لیے افہام و تفہیم سے کام لیتیں تو صورت حال آج مختلف ہوتی اور ضیاالحق کا مارشل لاء نہ لگ سکتا یا اس کی طوالت اور خوفناکی میں کچھ کمی ہوتی۔ افغانستان میں الجھنے سے بچ کر دہشت گردی جیسے المیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن تاریخ اپنے راستے کا تعین خود کرتی ہے۔ بھٹو صاحب اور عمران خان کے دور حکومت کے درمیان تقریباً نصف صدی کا عرصہ ہے۔ یہ طویل عرصہ ایک اعتبار سے بری طرح ضائع ہو گیا‘ جس کی وجہ سے آج نصف صدی بعد دوبارہ چین کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی مدد سے کسی معاشی معجزے کی توقعات باندھی جا رہی ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ چین سے راہ نمائی کا خیال برا نہیں۔ چینی لیڈروں یا چینی کمیونسٹ پارٹی سے رہنمائی یا تعاون لینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ رہنمائی اقتصادی اور انتظامی پالیسیوں کی صورت گری میں کافی سود مند ثابت ہو سکتی ہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ چین میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے اسباب پر بھی ایک نظر ضروری ہے۔ اور یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ معاشی آسودگی جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بنیادی شرط ہے، ان کی ضد نہیں۔