میں ٹورانٹو ائیر پورٹ کے ڈیپارچر لائونج میں بیٹھا تھا۔ واشنگٹن کے لیے پرواز کی بورڈنگ کے لیے ابھی کافی وقت تھا۔ لائونج تقریباً خالی پڑا تھا۔ اکا دکا مسافر بیٹھے اونگھ رہے تھے، یا اپنے پسندیدہ الیکٹرانک کھلونوں میں مگن تھے۔ اکتاہٹ سے بچنے کے لیے میں اپنے تھیلے سے لیپ ٹاپ نکال ہی رہا تھا کہ وہ شخص آ کر میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ لگتا ہے آپ بھی واشنگٹن جا رہے ہیں؟ اس نے بلا اجازت و بلا تکلف انگریزی میں گفتگو کا آغاز کیا۔ وہ شخص چہرے مہرے اور لہجے سے دیسی یعنی برصغیر کا باشندہ لگتا تھا۔ ہاں میں واشنگٹن ہی جا رہا ہوں، میں نے اردو میں جواب دیا۔ ''یہ لوگ جو سلوک ہمارے ساتھ کر رہے ہیں، اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا‘‘ اس نے انتہائی درشت لہجے میں کہنا شروع کیا۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ دیکھیں میں کینیڈین شہری ہوں۔ اس ملک میں ایک مدت سے رہ رہا ہوں‘ لیکن اس امریکی امیگریشن والے نے مجھے اپنے ہی ائیرپورٹ پر آدھے گھنٹے تک اندر بٹھائے رکھا۔ الٹے سیدھے سوالات کیے۔ مجھے بتایا کہ میرا نام کسی نو فلائی یا خطرناک لسٹ پر ہے‘ اور اگر مجھے امریکہ جانا ہے، تو اس کارروائی سے گزرنا ہی پڑے گا۔ افسوس مجھے یہ نہیں کہ محض میرے نام یا عقیدے کی وجہ سے مجھ پر شک کیا جا رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مجھ پر ان لوگوں کا ساتھی ہونے کا شک کیا جا رہا ہے، جن کے میں ہمیشہ سخت خلاف رہا ہوں، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ خود وہ لوگ مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ میں ہر جگہ دہشت گردوں، ان کے نظریات اور ان کی حرکات کے خلاف کھل کر بولتا رہا ہوں‘ لیکن یہ امریکی امیگریشن والے مجھے اور ان بے رحم دہشت گردوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔
میں نے اس شخص کو تسلی دینے کے لیے کہا کہ فکر مت کرو اس پورے عمل میں آپ اکیلے نہیں ہیں۔ بد قسمتی سے ہزاروں لوگوں کو مغرب کے مختلف ہوائی اڈوں اور سرحد پار کرنے کے دوسرے مقامات پر محض اپنے نام یا مذہبی و علاقائی پس منظر کی وجہ سے اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر یہ صورت حال آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہے‘ اور جلد ہی حالات معمول پر آ جائیں گے۔
ٹورانٹو سے امریکہ جانے والی پروازوں کے مسافروں کی امیگریشن کلیئرنس ٹورانٹو ائیرپورٹ پر ہی ہو جاتی ہے۔ یہ پروازیں امریکہ میں ڈومیسٹک سمجھی جاتی ہیں، اور ان کے مسافر امریکی ہوائی اڈوں پر امیگریشن کے عمل سے گزرے بغیر باہر نکل جاتے ہیں۔ یہ طریقہ کئی لوگوں کو پسند ہے۔ وہ امریکہ کے ہوائی اڈوں پر پوچھ گچھ اور تلاشی وغیرہ کے عمل سے گزرنے کے بجائے اپنے ہی ائیر پورٹ پر اس عمل سے گزر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر تلاشی اور سوال و جواب کا سلسلہ اب عام سا عمل سمجھا جاتا ہے۔ اب کوئی اسے ذاتی یا جذباتی معاملہ نہیں بناتا ۔ مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو اس عمل سے گزرنا اپنی توہین تصور کرتے ہیں، جو نائن الیون کے بعد مختلف ہوائی اڈوں پر شروع ہوا ہے۔ کینیڈا کی کئی معروف شخصیات، شاعر، ادیب ، دانشور اور سیاست دان اس عمل پر اعتراض کر چکے ہیں‘ اور کچھ لوگوں نے تو اس عمل سے گزرنے کے بجائے احتجاجاً ساری زندگی امریکہ نہ جانے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے تلاشی اور فنگر پرنٹ دینے کے بجائے امریکہ نہ جانے کا فیصلہ کر رکھا ہے‘ حالانکہ ان میں سے کچھ لوگوں کا بسلسلہ ملازمت، سیمینار میں شرکت یا لیکچر وغیرہ کے لیے امریکہ جانا ضروری ہوتا تھا۔
یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے، جس کے پس منظر سے ہم سب واقف ہیں۔ نائن الیون سے پہلے کینیڈا میں رہنے والے لوگ پاکستانی پاسپورٹ پر بھی بغیر ویزے کے امریکہ جاتے تھے، اور کوئی ایک سوال تک نہ کرتا تھا‘ مگر نائن الیون نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ سفر کی دنیا اور اس کے قواعد و ضوابط کو الٹ پلٹ دیا۔ اس الٹ پلٹ کا جن ممالک کے مسافر سب سے زیادہ شکار ہوئے ان میں پاکستان سر فہرست ہے ، حالانکہ نائن الیون کی فہرست میں شامل لوگ عرب تھے۔ مگر پاکستانی مسافر اس حد تک اس کی زد میں آئے کہ بعض وزراء اور ہائی پروفائل سیاست دانوں تک کو بھی امریکی ہوائی اڈوں پر تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑا۔
میں نے اس ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے مسافر کو بتایا کہ یہ جو سلوک آپ ساتھ ہوا‘ وہ برا ہے، مگر یہ اس سے کہیں زیادہ برا ہو سکتا تھا اگر آپ کو اس نام کے ساتھ کسی امریکی ہوائی اڈے پر کسی عالمی پرواز سے اترنا پڑتا‘ مگر آپ خوش قسمت ہو کہ ٹورانٹو ائیرپورٹ پر ہو ، جہاں انہوں نے آپ کو عزت سے دس پندہ منٹ بٹھایا ہو گا، اور بار بار معذرت بھی کی ہو گی۔
میں واشنگٹن میں کشمیر ی رہنما سردار خالد ابراہیم کے تعزیتی ریفرنس میں شرکت کی غرض سے گیا تھا۔ کمیونٹی کے بہت ہی پر خلوص مہمان نواز لوگوں اور کچھ پرانے دوستوں اور کمیونٹی لیڈروں سے ملاقات اور تبادلہ خیال ہوا۔ ایک تفصیلی ملاقات جناب ساجد تارڑ صاحب سے بھی ہوئی، جن کو یہاں مقامی حلقوں میں صدر ٹرمپ کا مشیر اور پر جوش حامی سمجھا جاتا ہے۔ تارڑ صاحب دلچسپ آدمی ہیں۔ ان سے کئی متنازعہ امور پر تبادلہ خیال ہوا‘ جن میں کشمیر پر پاکستان و بھارت کا کردار، امیگریشن اور اقلیتوں کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا موقف اور ان کی طرف سے اس موقف کی کھلی حمایت وغیرہ شامل ہیں۔ ساجد تارڑ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہ وعدہ ایفا ہو گا یا پھر کشمیر پر کیے جانے والے ان سینکڑوں وعدوں میں سے ایک ہو گا، جو کبھی ایفا نہ ہوئے۔ تارڑ صاحب کی بہت ساری باتوں پر اختلاف کی واضح گنجائش ہے۔ ہم نے یہ باتیں چھیڑیں اور ان پر اتفاق نہ کرنے پر اتفاق کیا۔
واشنگٹن ایک خوبصورت، سر سبز اور سلیقے سے چلتا ہوا شہر ہے۔ دوستوں نے ایک سکول دکھایا ، جس میں ایک سو پچاس سے زائد ممالک کے بچے پڑھتے ہیں۔ یہ بچے ظاہر ہے دنیا کے حکمران، خوش حال اور خوش قسمت طبقات کے بچے ہیں، جو تیسری دنیا کے مختلف ممالک سے آ کر ایسے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ واپس اپنے ملکوں میں جا کر حکمران، بیوروکریٹ اور سول سرونٹ بنتے ہیں۔ اکثر فیصلہ ساز لوگوں میں شامل ہوتے ہیں۔ مگر واشنگٹن میں دیکھی ہوئی چیزوں اور سکولوں میں سیکھے ہوئے علم کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ صرف سکول کے بچے ہی نہیں سول سرونٹس کی ایک بڑی تعداد بھی تیسری دنیا سے آ کر یہاں تعلیم و تربیت لیتی ہیں۔ یہ لوگ ان شہروں کا انتظام و انصرام اور طرز حکمرانی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ مگر وطن جا کر کسی اچھی بات کی نقل ہرگز نہیں کرتے۔ اس کے برعکس انہوں نے یہاں کی کوئی نہ کوئی منفی بات، کوئی کمی یا کجروی تفصیلات سمیت یاد رکھی ہوتی ہے‘ اور ہر محفل میں یہ تفصیل بیان کرنا اور مغرب کے خلاف زہر اگلنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ مغرب پلٹ لوگ عام آدمی کی نسبت مغرب کے حوالے سے کہیں زیادہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ کم فہمی یا لا علمی کے شکار لوگوں کو مغرب کے خلاف من گھڑت کہانیوں کو آنکھوں دیکھا واقعہ بنا کر سناتے رہتے ہیں‘ اور داد سمیٹتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہاں کے سر سبز و شاداب علاقے، آلودگی سے پاک فضا اور پانی، سڑکوں کے کنارے سلیقے سے اگائے گئے درخت، ضابطوں کی پابند ٹریفک، وقت پر آتی جاتی ٹرینیں، بسیں اور ہوئی جہاز، صاف ستھرے شاپنگ سنٹرز، ریستوران اور پبلک واش رومز، عوام کی حفاظت اور خدمت کرتی ہوئی پولیس، خوش اخلاقی سے پیش آتے ہوئے اور دیانت داری سے کام کرتے ہوئے سول سرونٹس، اور انصاف کرتے ہوئے جج ، صاف ستھرے ہسپتال ، انکساری سے علاج کرتے ہوئے ڈاکٹرز، سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بالکل نظر نہیں آتی نہ یاد رہتی ہیں۔ منفی مثبت ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، مگر تیسری دنیا کے لیے واشنگٹن جیسے شہروں میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔