اس دنیا میں کوئی کام نا ممکن نہیں ہے۔ بس انسان کا عزم پختہ ہونا چاہیے۔ انسان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ اس کی منزل کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس قسم کے مکالمے اکثر بولتے ہیں۔ ان کے بعض اقوال سن کر انسان کو یقین ہونے لگتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام نا ممکن نہیں۔ ان کے خیال میں اگر ارادے مضبوط ہوں تو غربت، بے روزگاری اور پسماندگی سے لے کر مسئلہ کشمیر جیسے پیچیدہ ترین مسائل تک کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم یہ باتیں تواتر سے دہراتے رہتے ہیں۔ یہ اقوال زریں بہت پرانے ہیں۔ قدیم چینی دانشور کنفیوشس سے لے کر شیکسپیئر تک کئی بڑی شخصیات اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔ یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انسان اگر درست راستے پر چلے اور اسے اپنی منزل کا پتہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے منزل پر پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔ مگر رستے اور منزل سے پہلے انسان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کون ہے؟ اور چاہتا کیا ہے؟
کچھ دیر پہلے میں اس باب میں پروفیسر حریری کی تحریر پڑھ رہا تھا۔ حریری لکھتا ہے کہ میں کون ہوں؟ مجھے زندگی میں کیا کرنا چاہیے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہر دور کا انسان اپنے اپنے دور میں یہ سوال پوچھتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ ایک پرانا سوال ہے، لیکن چونکہ جو کچھ انسان جانتا ہے، یا نہیں جانتا ، وہ مسلسل بدلتا رہتا ہے ، اس لیے ہر نسل کو ایک نئے جواب کی ضرورت ہوتی ہے، آج جو کچھ بھی ہم سائنس اور مذہب کے بارے میں جانتے ہیں اسے سامنے رکھتے ہوئے اس سوال کا بہترین جواب کیا ہو سکتا ہے؟
جب لوگ زندگی کے مقصد کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو جواب میں وہ ایک کہانی کی توقع رکھتے ہیں۔ انسان کہانی سنانے والا جانور ہے۔ وہ اعداد و شمار اور گراف کے بجائے کہانی پسند کرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ کائنات بذات خود ایک کہانی ہے، جو ہیروز اور ولن سے بھری ہوئی ہے‘ جس میں کلائی میکس اور ہیپی اینڈنگز ہیں۔ جب ہم زندگی کا مقصد ڈھوندتے ہیں تو ہمیں ایک کہانی کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمیں بتائے کہ حقیقت کیا ہے۔ اور دنیا کے اس کاسمک ڈرامے میں ہمارا کردار کیا ہے۔ یہ کردار ہمیں اپنے سے کسی بہت بڑی چیز کا حصہ بناتا ہے، اور ہمارے تمام تجربات کو معنی دیتا ہے۔
اس دنیا میں لاکھوں اربوں لوگوں کو ہزاروں سالوں سے ایک مقبول عام کہانی سنائی جا رہی ہے۔ کہانی یہ ہے کہ ہم سب ایک ابدی سائیکل کا حصہ ہیں۔ یہ سائیکل سب انسانوں کو گھیرے ہوئے ہے اور ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ زندگی کا مقصد سمجھنے کا مطلب ہر انسان کے لیے اپنا خاص فریضہ سمجھنا ہے، اور اچھی زندگی گزارنے کا مطلب اس فریضے کی کامیاب ادائیگی ہے۔
ہندو رزمیہ بھگواد گیتا میں ایک کہانی ہے کہ کس طرح عین حالت جنگ میں جنگجو شہزادہ ارجنا شک اور غیر یقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ دشمن فوج میں اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو دیکھ کر اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا اسے ان کے خلاف لڑنا چاہیے؟ انہیں قتل کر دینا چاہیے؟ وہ سوچنا شروع ہو جاتا ہے کہ اچھائی اور برائی ہے کیا؟ اور کون طے کرتا ہے کہ کیا اچھائی ہے، اور کیا برائی ہے۔ اور انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ تب بھگوان کرشنا اسے بتاتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا ایک دھرمہ ہوتا ہے، دھرمہ کیا ہے؟ وہ راستہ جو اسے اختیار کرنا ہوتا ہے، وہ فریضہ جو اس پر لازم ہوتا ہے۔ اگر آپ کو اپنے دھرمہ کا علم ہے تو راستہ خواہ کتنا ہی دشوار گزار کیوں نہ ہو، اس پر چلتے ہوئے آپ کو سکون ملتا ہے، اور آپ کو وسوسوں اور شک سے آزادی ملتی ہے‘ اور اگر آپ اپنے دھرمے پر چلنے سے انکار کر دیں، کسی اور کے راستے پر چلنا شروع کر دیں، یا راستے سے بھٹکنا شروع ہو جائیں تو اس سے دنیا کا کاسمک توازن خراب ہوتا ہے، اور آپ کبھی بھی سکون ، خوشی اور مسرت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا راستہ کیا ہے‘ اگر آپ اپنے راستے پر ہی چل رہے ہیں۔ ایک دھوبی عورت اس شہزادی سے بہتر ہے، جو شہزادگی کے راستے سے بھٹک جاتی ہے۔ کرشنا کے سمجھانے سے ارجن زندگی کے مقصد کو سمجھ کر ایک سپاہی اور سپہ سالار کے طور پر اپنے دھرمہ پر چلتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے جنگ کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ان کو قتل کرتا ہے، اور اپنی فوج کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس طرح وہ تاریخ میںہندوئوں کا پسندیدہ ترین ہیرو بن کر ابھرتا ہے۔
اس قدیم کہانی کو سال انیس سو چورانوے میں ڈزنی فلم میں ایک نئے اور جدید انداز میں دکھایا گیا، جس میں سمبا نامی شیر کو ارجنا کی جگہ پیش کیا گیا۔ جب سمبا زندگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے تو بوڑھا شیر بادشاہ موفاسا اسے زندگی کے اس سائیکل کے بارے میں بتاتا ہے۔ موفاسا اسے بتاتا ہے کہ ہرن گھاس کھاتے ہیں۔ شیر ہرن کو کھاتے ہیں۔ اور جب شیر مرتے ہیں تو ان کا جسم گل سڑ کر گھاس کی خوراک بن جاتا ہے۔ اسی طریقے سے زندگی نسل در نسل چلتی ہے۔ ہر جانور اس ڈرامے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا میں ہر چیز ایک دوسرے سے منسلک ہے، اور ہر کوئی ایک دوسرے پر کسی نہ کسی طریقے سے انحصار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر گھاس کا ایک تنکا بھی اپنا کام کرنے میں ناکام ہو جائے تو پوری زندگی کے سائیکل میں بگاڑ پڑ سکتا ہے۔ بادشاہ اسے بتاتا ہے کہ سمبا کا دھرمہ موفاسا کے بعد جنگل کا بادشاہ بننا اور دوسرے جانوروں پر حکمرانی کرنا ہے۔ مگر بد قسمتی سے موفاسا اپنے شیطان صفت بھائی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔ سمبا اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار قرا دیتا ہے اور تاسف سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ کئی سال تک جنگل میں بھٹکتا رہتا ہے۔
مگر سمبا اپنے دھرمہ سے فرار نہیں ہو سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوال اسے پریشان کرتا ہے کہ وہ کون ہے، اور اس کی زندگی کا مقصدکیا ہے۔ پھر اسے موفاسا کی روح زندگی کا سائیکل یاد دلاتی ہے۔ اس طرح سمبا کے اندر اپنی شاہی شناخت اور حیثیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ دریں اثنا اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے چچا کی بادشاہت میں سلطنت بد امنی اور بھوک کا شکار ہے۔ وہ واپس جا کر بادشاہ کو شکست دے کر جنگل کی بادشاہت سنبھال لیتا ہے۔ وہ امن اور خوشحالی واپس لاتا ہے۔ فلم کا اختتام اس سین پر ہوتا ہے جب سمبا اپنے نومولود بیٹے کو جانوروں کے مجمع سے متعارف کرواتے ہوئے انہیں یقین دلاتا ہے کہ زندگی کا سائیکل یوں ہی جاری رہے گا۔ سمبا اور ارجنا جانتے ہیں کہ صدیوں سے ہرن گھاس کھاتے آئے ہیں۔ سپاہی جنگیں لڑتے رہے ہیں، اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ یہ چیزوں کا فطری راستہ ہے۔ اور اگر ارجنا لڑنا چھوڑ دیتا یا سمبا بادشا بننے سے انکار کر دیتا تو یہ فطرت کے قوانین کے خلاف بغاوت ہوتی۔
زندگی کی کہانی کا کوئی ایک ورژن نہیں ہے۔ اس کے بے شمار انداز ہیں۔ کئی راستے ہیں۔
کوئی انسان زندگی کی کہانی کے جس بھی ورژن پر چاہے یقین رکھے، مگر اس کے لیے ضروری ہے وہ اسی ورژن کے مطابق اپنے فریضے کا ادراک و شناخت کرے۔ ہو سکتا ہے وہ برسہا برس تک اس شناخت سے نا واقف ہو، مگر ایک دن اس پر اس کا انکشاف ہو سکتا ہے اور وہ کاسمک ڈرامے میں اپنے کردار کو سمجھ سکتا ہے۔ اس کے بعد کئی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا ہو سکتا ہے، مگر وہ شک اور یاس سے آزاد ہو سکتا ہے۔ گویا ایک انسان اگر یہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے؟ اس کا اپنا راستہ کون سا ہے، جس پر اس نے زندگی میں چلنا ہے‘ اور وہ بھٹکے بغیر اپنے راستے پر مستقل مزاجی سے چلتا رہے تو اپنی منزل پا سکتا ہے۔