کئی برس پہلے کی بات ہے‘ میں ٹورانٹو شہر کے ایک مصروف ریستوران میں بیٹھا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ گاہک اپنی اپنی پسند کے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کئی لوگ بڑی بڑی سکرینوں پر اپنی پسند کے کھیل دیکھ رہے تھے، اور کچھ ہماری طرح خبریں اور تبصرے سننے میں محو تھے۔ اچانک ریسٹورنٹ میں سناٹا چھا گیا۔ لوگوں کی نظر ایک سکرین پر چلتی ہوئی بریکنگ نیوز پر جم گئیں۔ خبر یہ تھی کہ حکومت نے بالآخر اس شہر کے تما م ریستورانوں، باروں اور کلبوں کے اندر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ ریسٹورنٹ اس وقت سگریٹ نوشوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر دوسرے آدمی کے ہاتھ میں جلتا ہوا سگریٹ تھا۔ ان میں سے کسی شخص کے لیے بھی یہ کوئی اچھی خبر نہ تھی؛ چنانچہ ان کے چہروں پر مایوسی اور ناپسندیدگی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
اس پابندی پر عمل کیسے ہو گا؟ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا۔ اس وقت اس شہر میں تقریباً پانچ ہزار سے زائد ریسٹورنٹ ہوں گے۔ ان میں سے ہرایک ریسٹورنٹ میں کوئی نہ کوئی سگریٹ پی رہا ہوتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سگریٹ نوشی سے روکنے کے لیے بہت بڑی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں انسپکٹرز یا پولیس والے یا بائی لاز انفورسمنٹ آفیسرز چاہئیں، جو ہر ریسٹورنٹ پر نظر رکھیں۔ لوگوں کو سگریٹ پینے سے روکیں۔ انہیں جرمانہ کریں یا چارج کریں؛ چنانچہ یہ قانون ناکام ہو جائے گا اور ان کو واپس لینا پڑے گا۔ میں اس شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ وہ اس شہر میں نوواردہے۔ اس کلچر کو نہیں سمجھتا۔ وہ اس سارے معاملے کو اپنی جنم بھومی کی عینک سے دیکھتا ہے۔ میں نے اس شخص کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ یہ قانون پورے طریقے سے کامیاب ہو گا، اور دو تین ماہ بعد آپ کو اس شہر کے کسی بھی ریسٹورنٹ پر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نہیں ملے گا۔ اگرچہ یہ بیان کرتے ہوئے میرا اپنا دل بھی ڈوب رہا تھا کہ ان دنوں میں بھی اس بری لت میں مبتلا تھا۔ اور میرے لیے بھی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر چائے کے ساتھ سگریٹ نہ پینے کا تصور ہی روح فرسا تھا۔ لیکن پھر بھی میں جانتا تھا کہ یہ قانون کامیابی سے نافذ ہو گا۔ میں نے اسے اس قانون کی سو فیصد کامیابی کی دو وجوہات بتائیں۔ ایک یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون ساز ادارے کوئی قانون بنانے سے پہلے اس کے عملی اطلاق کے امکانات کا پورا جائزہ لیتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت و صلاحیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ جس شعبے میں قانون بن رہا ہو‘ اس کے ماہرین سے مشاورت کرتے ہیں۔ ہوم ورک اور ریسرچ کرتے ہیں۔ اور یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ مذکورہ قانون نافذ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی، وہ قانون پاس کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں قانون کی حکمرانی ہے۔ قانون کا احترام کیا جاتا ہے۔ قانون کی عزت یہاں کے کلچر کا حصہ ہے۔ کوئی بھی شخص عام حالات میں سرعام قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہو تو لوگ اس پر واضح طور نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ پولیس بلانے سمیت دوسرے مناسب اقدامات کرتے ہیں۔ اب یہ قانون بننے کے بعد اگر کسی ریسٹورنٹ کے اندر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرے گا تو اس کو روکنے کے لیے کسی انسپکٹر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہاں بیٹھے ہوئے دیگر گاہک اسے اس پر رد عمل دیں گے۔ مالک اس کو سگریٹ نوشی سے منع کر دے گا ۔ اس لیے یہ قانون خود بخود نافذ ہونا شروع ہو جائے گا۔ اور یہ بات سو فیصد درست تھی۔ تین چار ماہ بعد میں نے شہر کے کسی ریسٹورنٹ میں کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ صحت عامہ کے مفاد اور تمباکو انڈسٹری کے مفادات کے خلاف ایک بڑا قدم تھا۔ اس قدم کی سو فیصد کامیابی کے بعد اس میدان میں حکومت کا اگلا قدم اس سے بھی سخت تھا۔ حکومت نے سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں کئی گنا اضافہ کر دیا‘ حالانکہ تمباکوکمپنیاں حکومت کو کروڑوں ڈالر ٹیکس دیتی تھی۔ ان کے کاروبار کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ تمباکو کی تجارت، پراسیسنگ اور پیکنگ کی فیکٹریاں، ڈسٹری بیوٹرز اور عام مارکیٹ میں اس کی خرید و فرخت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ تمباکو کمپنیاں کروڑوں ڈالر کے اشتہارات دیتی تھیں؛ چنانچہ میڈیا کے مفادات بھی ان سے وابستہ تھے۔ ان کی بہت بڑی بڑی لابیاں اور اثر و رسوخ تھا، لیکن اس کی پروا کیے بغیر حکومت نے مفاد عامہ اور عام شہری کی صحت کی حفاظت کے لیے بھاری ٹیکس عائد کر دئیے۔ ناقدین کا خیال تھا کہ اس قدر بھاری ٹیکس تمباکو کی سمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کا راستہ کھولیں گے، کیونکہ کئی ملحقہ امریکی ریاستوں میں سگریٹ پر اتنے ٹیکس نہیں ہیں، اور تمباکو نسبتاً کئی گنا سستا ہے۔ کچھ عرصہ تک سمگلنگ کے واقعات ہوتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ حکومت نے اس پر بھی قابو پا لیا۔ حکومت کے ان اقدمات سے سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ اب بھی کچھ لوگ اس شہر میں نجی مقامات پر سگریٹ پیتے ہیں‘ مگر پبلک مقامات پر نہیں۔ حکومت بھاری ٹیکسوں کے ذریعے اربوں روپے وصول کرتی ہے۔ یہ آمدنی صحت عامہ پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح حکومت نے اس زہر کو عوامی زندگی سے نکال باہر کیا، مگر جو پھر بھی زہر پینے پر بضد ہیں، وہ اس کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو اس طرح کے ضروری، مشکل اور دلیرانہ قدم اٹھانے کا کریڈٹ تو جاتا ہی ہے، مگر اس سے بھی زیادہ بڑا کریڈٹ عوام اور قانون پسند شہریوں کی اکثریت کو جاتا ہے، جو جب ایک قانون بن جائے تو اسے پسند نہ کرتے ہوئے بھی ہماری طرح اس کی خلاف وزی کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے دل و جان سے اس کا احترام کرتے ہیں۔
پاکستان میں حال ہی میں سگریٹ نوشی پر گناہ ٹیکس کی بات چلی تو مجھے یہ سب قصہ یاد آیا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں قانون کے احترام کا کلچر نہیں ہے۔ یہاں لوگ سرعام با جماعت قانون کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ دیکھنے والے اس کا برا نہیں مناتے اور اس کی مذمت نہیں کرتے، بلکہ ان کے ساتھ مل کر ہنستے ہیں اور قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔ عام آدمی تو چھوڑیں‘ یہاں قانون دان قانون کی سر عام دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ تشدد اور گالی گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہاں پولیس والے کی موجودگی میں عام آدمی ریڈ لائٹ کراس کر لیتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایسے قوانین کا نفاذ جو عوام کی ایک بڑی تعداد کی عادات یا خواہشات کے خلاف ہو‘ ایک مسئلہ بن جاتا ہے؛ چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھاری ٹیکس لگانے سے تمباکو اور سگریٹ کا دھندہ کافی حد تک زیر زمین بھی جا سکتا‘ سمگلنگ بھی بڑھ سکتی ہے‘ مگر ان خدشات کے پیش نظر حکومت کو اپنا ارادہ نہیں بدلنا چاہیے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک میں سگریٹ پر بھاری ٹیکس عائد ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ عوام دوست اور فلاحی ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ ہیں۔ سگریٹ پر بھاری اور بہت ہی بھاری ٹیکس کے ہزاروں فائدے ہیں، مگر دو بہت واضح ہیں۔ یہ مفاد عامہ میں ایک اہم قدم ہے، جس سے سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ دوسرا حکومت کے خزانے میں بہت بڑی رقم آ سکتی ہے۔ یہ رقم صحت کی مد میں خرچ کی جا سکتی ہے۔ جہاں ہسپتال قصائی خانوں کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ جہاں صفائی کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ کمروں اور یہاں تک کوریڈوروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ افراتفری کا یہ عالم ہے کہ گویا ہم حالت جنگ میں ہیں۔
دوسری طرف کچھ لوگ ہیں، جو زہر پینے پر بضد ہیں۔ اور اپنے ساتھ ساتھ سیکنڈ ہنڈ سموک کے ذریعے کئی دوسرے لوگوں کے پھیپھڑوں میں زہر بھر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں پر جتنا بھی ٹیکس لگایا جائے کم ہی سمجھا جائے گا۔ اس ٹیکس کو گناہ ٹیکس کا نام دیں یا ثواب ٹیکس کا، مگر ٹیکس کا خیال اچھا ہے، جس پر فوراً عمل ہونا چاہیے۔