نیا پاکستان ایک مقبول عام نعرہ ہے۔ بے شک یہ نعرہ ابتدا میںایک جماعت یا ایک لیڈر نے متعارف کروایا تھا‘ مگر اب یہ ان کے ہاتھ سے نکل کر عوامی ملکیت بن گیا ہے۔ اب اس نے خود اپنی زندگی اختیار کر لی ہے۔ اب تبدیلی کی بات وہ بھی کر رہے ہیں، جو تبدیلی کے راستے کا سب سے بھاری پتھر تھے۔ جو برسہا برس سے ایک گلے سڑے اور فرسودہ نظام کی چوکیداری پر تعینات تھے۔ جو لوٹ کھسوٹ کی بہتی گنگا میں مسلسل ہاتھ دھوتے رہے۔ اور ظلم‘ نا انصافی پر مبنی نظام میں تبدیلی کی بات کو بغاوت قرار دیتے رہے‘ مگر اب سب بظاہر تبدیلی کے لیے تیار ہیں، یا کم از کم اس تیاری کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ۔ چلیں مان لیں کہ سب نیا نظام چاہتے ہیں۔ مگر نئے نظام کی بنیادی شرط پرانے نظام کا بدلنا ہے، مرنا ہے۔ پرانے نظام کو اس وقت تک نہیں بدلا جا سکتا، جب تک بے پناہ فرسودگی کا شکار موجودہ تعلیمی نظام نہیں بدلا جاتا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی ایک دو چیزیں نہیں ، اوپر سے نیچے تک سب کچھ بدلنے کی ضرورت ہے‘ مگر اس تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھانے سے پہلے علم اور تعلیم پر سے پابندی اٹھانا ضروری ہے۔ اس کے لیے اکڈیمک فریڈم یعنی تعلیمی آزادی ضروری ہے۔ کچھ لوگ سوال کریں گے کہ ہمارے ہاں تعلیم پرکہاں پابندی ہے ؟ سرکاری اور نجی شعبے میں ہزاروں ادارے قائم ہیں۔ انگلش میڈیم سکول ہیں، مدرسے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیز کے کیمپس ہیں اور اسلامی جامعات ہیں۔ تو تعلیم پر کیا پابندی ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ یہ ادارے ان کھلے سفاری پارکوں کی طرح ہے ، جن کے اندر قید چرند پرندکو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ آزاد ہیں۔
شہرہ آفاق جرمن سائنس دان آئن سٹائن نے کہا تھا کہ سچائی تلاش کرنے، اسے چھاپنے اور پڑھانے کے حق کو اکڈیمک فریڈم کہتے ہیں۔ یہ حق انسان پر ایک فرض بھی عائد کرتا ہے۔ فرض یہ ہے کہ جس بات کو وہ سچ سمجھتا ہے اس کا کوئی بھی حصہ چھپانے سے گریز کرے۔ یہ امر واضح ہے کہ اکڈیمک فریڈم پر کسی قسم کی پابندی معلومات کو عوام تک جانے سے روکتی ہے، یہ عمل قومی سوچ اور عمل کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
دنیا میں آج اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ تعلیم کے لیے تعلیمی آزادی ضروری ہے۔ طالب علم کو ہر وہ سوال پوچھنے کا حق ہے، جو اس کے ذہن میں اٹھتا ہے۔ اور اساتذہ کو ہر قسم کے حقائق ، خیالات اور نظریات پڑھانے کی آزادی ہونی چاہیے ، ان میں وہ حقائق اور خیالات بھی شامل ہیں، جو سیاسی گروہوں یا حکمران طبقات کو نا پسند ہیں۔ یا جن سے سماج کی بالادست یا اکثریتی قوتیں اتفاق نہیں کر سکتیں۔ اساتذہ کو مختلف یا متنازعہ خیالات یاحقائق پڑھانے کی وجہ سے کسی قسم کی سزا یا انتقامی کارروائی کا ڈر نہ ہو۔ اس عمل کی وجہ سے ان کی ملازمت ختم ہوجانے، ترقی رکنے یا کسی قسم کے حق سے محروم ہوجانے کا خوف نہ ہو۔ انہیں تحقیق و جستجو کی آزادی ہو، اور اس کے لیے درکار وسائل میسر ہوں۔ اس کے بغیر نہ کوئی علم ہے نہ تعلیم ہی ممکن۔ پاکستان میں ان چیزوں کے بارے میں سوچنا ہی دیوانگی سمجھا جاتا ہے۔
تعلیمی آزادی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس سوال پر صدیوں سے بحث جاری ہے۔ قدیم یونانی اور رومن سلطنتوں میں بھی گاہے فلسفی اور اساتذہ یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ مگر بیسویں صدی کے شروع میں اکڈیمک فریڈم یا پڑھنے پڑھانے کی آزادی کا سوال اور اس کی حدود وقیود پر ایک جدید بحث چل پڑی۔ سوویت انقلاب کے فوراً بعد سائنس کے سماجی کردار پر ایک بحث کا آغاز ہوا۔ اس بحث میں حکمرانوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ سائنس کا ایک بہت بڑا اور فیصلہ کن سماجی کردار ہے؛ چنانچہ سائنسی تحقیق پر سماجی اور سیاسی کنٹرول ناگزیر ہے۔ سوویت انقلابیوں نے سائنس کے بعض شعبوں کو سوڈو سائنس اور بورژوا قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی، جس میں جینیاتی سائنس بھی شامل تھی۔ اس وقت یہ خیال مقبول ہوا کہ سائنس کو صرف وہ تحقیق کرنی چاہیے، جو ریاست کے مفاد میں ہے‘ کیونکہ ریاست کا مفاد سائنس کے مفاد پر مقدم ہے‘ اس لیے سائنس کو اپنے تحقیق کے موضوعات کے انتخاب سے پہلے ریاست کی ضروریات کو سامنے رکھنا چاہیے؛ چنانچہ سائنسدانوں پر سرکاری نظریات مسلط کرنے کوشش شروع ہو گئی۔ سوویت اکیڈمی آف سائنسز کے ڈائریکٹر لیسنکو کی قیادت میں جینیاتی سائنس کے خلاف ایک مہم شروع ہوئی۔ یہ مہم سٹالن کے دور میں تعلیمی آزادی کے خلاف ایک خوفناک ہتھیار بن گئی؛ چنانچہ جو سائنس دان لیسنکو کے زراعت اور دیہی معاشیات کے نظریات اور پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے ان کے ساتھ سرکاری سطح پر ناروا سلوک ہوا۔ سٹالن کے دور میں تین ہزار سے زائد ماہرین حیاتیات اور دیہی معاشیات کے سائنس دانوں کو اختلاف رائے کی وجہ سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے کچھ کو ملازمتوں سے نکالا گیا، کئی ایک جیل میں ڈال دئیے گئے، اور کچھ سائنسدانوں کو پھانسی بھی دی گئی۔
یہ افتاد سماجی سائنس پر بھی گری؛ چنانچہ دنیا کے بیشتر ممالک میں سماجی سائنس کو نیشنل سکیورٹی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اس کے بطن سے خطرناک پروفیسر کا تصور برآمد ہوا۔ ایک ایسا پروفیسر جو تاریخ اور سیاسیات پر سرکاری نظریات سے اختلاف کرسکتا ہے۔ طلبہ کو ان موضوعات پر سوال کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ یا ان کے سامنے سرکاری نظرئیے کے متبادل کوئی اور نظریہ بھی پیش کر سکتا ہے؛ ایسا شخص خطرناک اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار پایا۔
اس خطرناک پروفیسر کے خلاف مہم میںمغرب کی یونیورسٹیز میں پروفیسروں کو سوشلزم یا مارکسزم کے حق میں بات کرنے پرانتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر یہاں اکڈیمک فریڈم کی تحریک بھی مضبوط تھی‘ جو امریکی یونیورسٹیز میں سال انیس سو پندرہ سے ہی شروع ہو چکی تھی۔ امریکی پروفیسرز کی انجمنوں نے اس کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔ اس میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رچرڈ نکسن کو اپنے خطاب میں یہ کہنا پڑا کہ امریکی یونیورسٹیز میںپروفیسرز مارکسزم سمیت جو فلسفہ یا نظریہ چاہیں پڑھا سکتے ہیں؛ چنانچہ مغرب میں تعلیمی آزادی کے دو بنیادی اصولوں کو بڑے پیمانے پر تسلیم کر لیا گیا۔
پہلا اصول یہ تھا کہ اساتذہ کو کمرۂ جماعت کے اندر اور باہر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر سوال اٹھائیں ۔ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ متنازعہ اور غیر مقبول خیالات پیش کریں، بے شک یہ خیالات کچھ لوگوں کے لیے کتنے ہی دل شکن یا نا پسندیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ تعلیمی اداروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اساتذہ کے حق رائے کے استعمال کو ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی یاملازمتوں سے بر خواستگی کی بنیاد بنا سکیں۔
پاکستان میں بھی تعلیمی آزادی کی تاریخ بڑی المناک ہے۔ اس میں کافی نشیب و فراز آئے۔ تعلیمی نظام پر شروع میں ظاہر ہے برطانوی راج کا اثر تھا؛ چنانچہ قیام پاکستان کے وقت اور قیام کے شروع دنوں میں تعلیمی آزادی آج سے کچھ بہترتھی۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محدود ہوتی گئی۔ آنے والے دنوں میں پے در پے آمریتوں کے تسلط اور ان کے سائے میں بنیاد پرست قوتوں کے بھاری اثرو رسوخ کی وجہ سے تعلیمی آزادی محدود ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ یہ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ اس آزادی کے خاتمے میں جہاں ایک طرف حکمران طبقات اور سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں‘ وہاں دوسری طرف تعلیمی اداروں کے اندر مخصوص نظریات رکھنے والے طلبہ کے غلبے اور پُر تشدد طرز عمل نے اہم کردار ادا کیا۔ اب ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ تو طالب علم بلاخوف و خطر کوئی سوال اٹھا سکتا ہے، اور نہ کوئی استاد جواب دے سکتا ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ہاں علم و دانش کے سوتے خشک ہو رہے ہیں۔ تحقیق و جستجو کا رجحان ختم ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ سے سماج میں بھی رواداری ختم ہو گئی ہے۔ ملک میں کوئی ایسا فورم باقی نہیں رہا ، جس میں کوئی آزادی سے علمی، سائنسی یا سماجی مسائل پر بات ہوسکے۔ اس صورت حال میں تبدیلی کے بغیر سماج میں حقیقی تبدیلی کا کوئی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔